پہلے اٹک اور اب اڈیالہ جیل کے قیدی کے بارے میں کوئی کچھ بھی کہے، ان کو پسند کرے یا ناپسند، ان کی شخصیت کسی کو اچھی لگے یا بری، یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اپنی 71 سالہ زندگی میں مختلف بحرانوں سے کامیابی سے نبرد آزما ہوئے ہیں اور کئی مرتبہ منظرِ عام سے ہٹتے ہٹتے واپس آ کر مرکزِ نگاہ بنتے رہے ہیں۔
انہیں قریب سے جاننے والے ان کی روح کو ایسی روایت شکن بے چین روح سے تعبیر کرتے ہیں، جو کسی بھی تالاب میں کنکر پھینکنے سے باز نہیں آتی۔ چاہے وہ تالاب کرکٹ کا ہو یا سیاست کا۔۔ اور بھلے اس کنکر کے ارتعاش سے بننے والی کوئی لہر ’سونامی‘ بن کر خود انہی کو کیوں نہ اپنی لپیٹ میں لے لے۔
سیاست میں کئی اختراعات، قطعِ نظر منفی یا مثبت کے، متعارف کرانے والے عمران خان، ایسے ہی کئی کنکروں کی بدولت آج ایک ممنوع شخصیت قرار دے دیے گیے ہیں اور ان کی سیاست پر پابندی لگ چکی ہے۔
لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا جب وہ کرکٹ کے کھیل میں عروج پر تھے اور عین عروج کے ان لمحات میں ان کے کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
کرکٹ میں ان پر پابندی کی وجہ بھی ’تبدیلی‘ کا ایک کنکر ہی تھا، جس نے بعد میں اس کھیل کی کایا ہی پلٹ دی۔۔ اور پھر عمران خان میدان میں واپس آئے اور دوبارہ سے بامِ عروج حاصل کیا۔
یہ بات ہے 1970 کی دہائی کی۔ عمران خان اپنی تیز بولنگ کے باعث پاکستان میں شہرت کے ساتھ ساتھ دنیا کی نظروں میں بھی آ چکے تھے لیکن پھر کرکٹ کی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہوا، جس نے دنیا کے چند کرکٹرز کو ’متنازع‘ بنا دیا اور ان میں عمران خان بھی شامل تھے
کیری پیکر کا تعلق آسٹریلیا کی میڈیا انڈسٹری سے تھا۔ وہ ایک اشاعتی ادارے اور ٹی وی چینل کے مالک تھے اور یوں مقابلوں کا انعقاد کرانے والے اداروں کے ساتھ ان کی نشریات کے رائٹس کے حوالے سے معاملات طے کرتے رہتے تھے
کرکٹ کے رائٹس میں ان کی خصوصی دلچسپی تھی۔ تاہم 1977 میں ہونے والی ٹیسٹ سیریز کے حقوق کے معاملے پر ان کے بورڈ اور آرگنائزرز کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے، جس کے بعد انہوں نے کچھ ایسا کیا کہ سب حیران رہ گئے۔
آسٹریلوی کرکٹ بورڈ اور ٹی وی کمپنیز کے درمیان تعلقات خراب ہونے پر کیری پیکر نے کرکٹ میچز کے لیے متوازی ادارہ بنانے کا اعلان کر دیا اور دنیا کے اُبھرتے ہوئے کھلاڑیوں سے رابطے کیے، جن میں عمران خان بھی شامل تھے۔ دیگر کھلاڑیوں میں انگلش کپتان کلائیو لائیڈ، آسٹریلوی کپتان گریگ چیپل اور ان کے بھائی آئیین چیپل بھی شامل تھے۔
ان کھلاڑیوں کو بڑی آفرز دی گئیں، جو انہوں نے قبول کیں اور اس کے بعد مختلف ممالک کی ٹیموں کے دیگر کھلاڑیوں سے رابطے کیے گئے اور یوں 50 سے زائد کھلاڑی راضی ہوئے، جس کے بعد ٹیمیں بنائی گئیں، جن میں دنیا کے بہترین کھلاڑی شامل تھے۔
اس سیریز سے قبل کرکٹ بلیک اینڈ وائٹ تھی۔ اس کے لیے پہلی بار رنگین کِٹس بنائی گئیں جبکہ گیند کا رنگ بھی تبدیل ہوا۔
پھر کرکٹ کی دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کا سلسلہ نہ رکا، جو اب تک جاری ہے۔ کرکٹ قوانین میں تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں جبکہ کرکٹ مزید گلیمرائز ہو کر سامنے آئی۔ اس وقت جنم لینے والی تبدیلیوں کی جدید ترین شکل والی پریمیئر لیگز ہیں۔
شروع میں سیریز کے معاملات اور کھلاڑیوں سے رابطوں کو خفیہ رکھا گیا تاہم میڈیا میں بات آنے پر انگلش اور آسٹریلوی بورڈز سیخ پا ہو گئے اور ایسے تبصرے بھی ہوئے کہ ’کیری پیکر نے کرکٹ کو سرکس بنا دیا ہے۔‘
بعدازاں کرکٹ کی جنم بھومی سمجھے جانے والے انگلینڈ میں کیری پیکر پر مقدمہ دائر کیا گیا، جس کا سامنا کرنے کے لیے وہ خود انگلینڈ گئے اور عدالت کو بتایا کہ کرکٹ بورڈز اپنے کھلاڑیوں کو مناسب معاوضے نہیں دیتے۔ انہوں نے کرکٹ قوانین میں تبدیلی پر زور دیتے ہوئے اسے شائقین کا حق قرار دیا۔
وہ یہ مقدمہ نہ جیت سکے اور عدالت کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ وہ اپنی سیریز کروا سکتے ہیں، تاہم اس کے لیے ’انٹرنیشنل کرکٹ‘ کا نام استعمال نہیں کیا جا سکتا، جبکہ وہ آئی سی سی کے قوانین کو بھی استعمال نہیں کر سکیں گے کیونکہ وہ کاپی رائٹس میں آتے ہیں۔
معاملہ عدالت میں جانے کے بعد سیریز میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کے لیے اچھا خاصا اسکینڈل بن گیا اور ’پیسے کے لیے اپنے ملک کے بجائے کسی دوسرے کے لیے کھیلنے کے عمل‘ کو تنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس لیے دکھائی یہی دے رہا تھا کہ سیریز میں حصہ لینے کھلاڑیوں کے کھیلنے پر پابندی لگ جائے گی۔
اس وقت اگرچہ میڈیا کے پر کونے کونے تک نہیں پھیلے تھے مگر خبریں پھر بھی پہنچ رہی تھیں، جن میں پاکستانیوں کی خاصی دلچسپی تھی، عمران خان پر تنقید بھی ہوئی لیکن زیادہ تر لوگ ان کو کھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔
کیری پیکر کے خلاف ہونے والے مقدمے کی پاکستان بورڈ کی جانب سے حمایت سے امکان تھا کہ عمران خان کے کھیلنے پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔
کرکٹ کی کوریج کرنے والی ویب سائٹ کرک انفو پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں مارٹن ویلیمسن لکھتے ہیں کہ کیری پیکر کی سیریز کے بعد پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ہونے والے ٹیسٹ سیریز سے قبل انگلینڈ فیصلہ کر چکا تھا کہ کیری پیکر کے ساتھ جانے والے کھلاڑیوں کو نہیں کھلایا جائے گا اور پاکستان کی جانب سے کیری کے خلاف ہونے والے مقدمے کی حمایت کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ عمران خان بھی سیریز میں شامل نہیں کیے جائیں گے اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔
مارٹن لکھتے ہیں ”پہلے ٹیسٹ کے لیے فائنل ہونے والی ٹیم میں ’پیکر کا ساتھ دینے والے باغی‘ یعنی ماجد خان، ظہیر عباس، عمران خان اور مشتاق محمد شامل نہیں تھے۔“
”تاہم کراچی میں شیڈول اس سیریز سے قبل سامنے آنے والے عوامی جذبات سے لگ رہا تھا کہ بورڈ کو فیصلہ بدلنا پڑے گا۔“
مارٹن نے ان ایام کا نقشہ کھینچے ہوئے کہا کہ ’سیریز شروع ہونے سے قبل بورڈ کو اپنے ممکنہ قدم پر نظرثانی کرنا پڑی اور اس کی وجہ عوامی دباؤ تھا۔‘
ان کے مطابق جلد ہی یہ خبر سامنے آئی کہ ان کھلاڑیوں سے رابطہ کر لیا گیا ہے اور وہ آسٹریلیا سے روانہ ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب انگلش کھلاڑیوں نے کیری پیکر کا ساتھ دینے والوں کی ٹیم میں شمولیت کی مخالفت کی اور باقاعدہ مشترکہ بیان بھی جاری کیا۔
عمران خان اور دیگر کے نیٹ سیشن میں نظر آنے کے بعد انگلینڈ برہم ہوا اور پاکستانی بورڈ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس کے حکم پر واپس آئے؟
جس پر بورڈ کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ اپنے طور پر واپس آئے۔۔ تاہم جلد ہی بورڈ کا واضح موقف سامنے آ گیا کہ ’کیری پیکر کے ساتھ جانے والے کھلاڑیوں کو شامل نہیں کیا جائے گا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ’فیصلہ کیا گیا ہے کہ صرف ایسے کھلاڑیوں کو شامل کیا جائے گا، جو آج دستیاب ہیں اور آئندہ بھی دستیاب ہوں۔‘
یوں عمران خان اس ٹیسٹ سیریز میں تو حصہ نہ لے سکے، تاہم بعدازاں صورت حال معمول پر آنا شروع ہوئی۔ عمران خان نے ٹیم میں واپس آتے ہی بہترین کارکردگی دکھائی اور آگے بڑھتے چلے گئے۔
1977 میں ہونے والا یہ واقعہ شاید آج کسی کو یاد بھی نہ ہوتا مگر عمران خان کے سیاست میں آنے کے بعد ان کے مخالفین اس کا ذکر بار بار کرتے رہے اور اس کو ’بدترین کرپشن‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس وقت انہوں نے ملک بیچ دیا تھا۔‘ اس کا ذکر عمران خان کے خلاف مالی مقدمات میں بھی آتا رہا
سات نومبر 2008 کو ممبئی میں ہونے والی آئی سی سی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کیری پیکر کو کرکٹ کا محسن قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’انہوں نے کرکٹ کی زندگی بڑھائی۔‘
’میرے خیال میں کیری پیکر کا قدم ایک اہم موڑ تھا جس سے کرکٹ اچانک تبدیل ہو گئی۔‘
عمران خان کے مطابق ’کیری پیکر کی وجہ سے ون ڈے، نائٹ میچ اور رنگین کپڑے کرکٹ میں آئے اور مجموعی طور پر کرکٹ میں بہتری آئی۔‘
عمران خان کی سیاست بھی کم و بیش ویسی ہی رہی، جیسی کسی ٹیم کی کپتانی ہو۔ انہوں نے عام سیاسی سپورٹرز کو اتنا ہی پرجوش بنا دیا ہے جتنا کرکٹ کے دیوانے شائقین باؤنڈری لائن کے پاس بیٹھ کر اپنے محبوب کرکٹر کو وکٹیں اڑاتے دیکھ کر ہوتے ہیں۔
بہرحال کرکٹ میں ایک بڑے تنازع سے گزرنے کے بعد واپس آ کر ایک لمبا اور شاندار کیریئر گزارنے والے عمران خان سیاسی میدان میں بھی ایسا کر پائیں گے؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور جواب شاید اس سے بھی زیادہ اہم۔
بشکریہ: اردو نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)