سمی بلوچ کیوں رو تی ہے؟!!!

محمد خان داؤد

"ادی کا ایندی، چھپر مُوں سنگ تھیو
لائیندیس لگن کھے، ملیراں مہندی
وِندر آؤں ویندی، آریءَ جام اجھو کرے!،،
اگر لطیف کی اس بات کو دیکھتا ہوں، تو یہ بات سمی بلوچ پر سو فیصد صادق آتی ہے۔
وہ سمی بلوچ، جو ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی ہے
وہ سمی بلوچ، جو بیمار ہوئی تھی اور ڈاکٹر دین محمد اسے کوئٹہ کے اسپتال میں چھوڑ گئے، یہ کہہ کر، کہ
"میں لوٹ آؤں گا!”
اور دس سال ہوگئے، ڈاکٹر دین محمد نہیں لوٹے..
وہ سمی بلوچ، جس کا بچپن میں گلا خراب تھا، اب راہ تکتے تکتے اس کے نین بھی دکھنے لگے ہیں..
وہ سمی بلوچ، جو کل بھی اپنے بابا کی منتظر تھی، جو آج بھی اپنے بابا کی منتظر ہے!
وہ سمی بلوچ، جو اس وقت اسکول کے کتابوں میں لکھی نظمیں یاد کیا کرتی تھی، پر اب اس پر شاعری بارش کی طرح اُترتی ہے..
پر وہ نہیں لکھتی!
وہ سمی بلوچ، جو کل بھی اکیلی تھی، جو آج بھی اکیلی ہے.
وہ سمی بلوچ، جس کے معصوم کاندھوں پر وہ بوجھ آن پڑا ہے، جس کا بار نظر نہیں آتا پر جس بار کے سبب کاندھے بھی سیدھے نہیں ہوتے..
وہ سمی بلوچ، جسے معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کی زندگی دس سال بعد لطیف کے ان الفاظ میں ڈھل جائے گی
"ادی کا ایندی؟ چھپر موں سنگ تھیو!”
وہ نہیں جانتی
وہ نہیں جانتی
وہ نہیں جانتی!
پر لطیف کی یہ بات، سمی بلوچ کے کردار کے لیے ہی ہے کہ "ادی کا ایندی؟ چھپر موں سنگ تھیو!”
لطیف کے ان الفاظ کو اگر اردو کا پیرہن اُڑھایا جائے، تو ان میں سمایا ہوا درد تو شاید نوکِ قلم کی دسترس میں ہی نہ آ سکے
” سکھیو! کیا تم میں سے کوئی میرے ساتھ چلے گی؟
کہ میرا رشتہ تو اب سنگلاخ چٹانوں کے پتھروں سے جُڑا ہے!”
اگر اس بات کو بلوچی لباس میں پیش کیا جائے تو پھر کیا بنے گا؟
"دلءَ جیِڑت وتی ، کاینت سانگبند اِدا!”
جی ہاں سمی سسئی ہے، اور اس کا ناطہ پتھروں سے جُڑا ہے.. سمی اپنی سکھیوں سے پوچھ رہی ہے، کہ اس کا ناطہ پتھروں سے جُڑ گیا ہے، کیا کوئی میرے ساتھ آئیگی!!؟
مجھے نہیں معلوم کہ سمی کی سکھیاں اسے کیا جواب دے رہی ہیں؟ وہ سمی کے ساتھ چل رہی ہیں یا نہیں؟ وہ سمی کے ساتھ جائیں گی یا نہیں، مگر سمی تو مسافر ہے، اور پتھروں کا ساتھ تو سمی کے ساتھ رہے گا ہی!
وہ پتھر بھلے سمی کے لیے اور کچھ نہ کر پائیں، وہ پتھر دکھی سمی کے ساتھ نہ چل پائیں، بھلے وہ پتھر سمی کے بابا پنہوں ڈاکٹر دین محمد کو نہ تلاشیں.. پر وہ پتھر سمی کی دل جوئی تو کر سکتے ہیں.. بلکل ایسے ہی، جیسے ان پتھروں نے سسئی کی دل جوئی کی تھی.
کہنے کو سب کچھ بدل گیا ہے
پر دل کی آنکھوں سے دیکھنے پر کچھ نہیں بدلا
آج سے کئی سو سال پہلے بھی پنہوں گم تھا،
وہی پنہوں آج بھی گم ہے!
آج سے کئی سو سال پہلے بھی سسئی اپنے پنہوں کو تلاش رہی تھی،
وہ سسئی آج بھی پنہوں کو تلاش رہی ہے!
کل بھی بے جان پتھر راستے میں بھٹکتی سسئی سے پوچھ رہے تھے ہم کیا کریں؟
آج بھی بھٹکتی سسئی سے پتھر پوچھ رہے ہیں ہم کیا کریں؟
تو پھر اتنے سال گزر جانے پر کیا بدلا ہے؟
سسئی بھی وہی،
پنہوں بھی وہی!
سفر بھی وہی،
تلاش بھی وہی،
پتھر بھی وہی!
اور پتھروں کے سوال بھی وہی
کہ "ہم کیا کریں!؟”
یہ پتھر کچھ بھی نہ کریں
یہ پتھر بس وہی کچھ کریں، جو سسئی کے لیے کیا تھا!
کئی سال پہلے یہ پتھر سسئی کے ساتھ پنہوں کے لیے روئے تھے، آج یہ پتھر کئی سال بعد سمی کے ساتھ ڈاکٹر دین محمد کے لیے روئیں..
پنہوں تو واپس آنے کا کچھ نہیں کہہ گیا تھا، پر ڈاکٹر دین محمد تو بیمار سمی کو دیکھ کر کہہ گئے تھے کہ
"میں لوٹ آؤں گا!”
اور پھر وہ نہیں لوٹے..
ہوسکتا ہے کہ وہ پتھر سسئی کے ساتھ پنہوں کے لیے تھوڑا سا روئے ہوں،
پر سمی کے ساتھ ڈاکٹر دین محمد کے لیے ایسا نہیں ہوگا..
اگر پتھر روئیں، تو اتنا روئیں، کہ پتھروں کے دل بھی نرم پڑ جائیں..
پتھروں کو بھی سسکیاں لگ جائیں،
پتھروں کے گال بھی گیلے ہو جائیں!
پتھروں کو بھی ہچکیاں لگ جائیں..
اور بہت دور لطیف سسئی کی زبانی ان پتھروں سے بار بار کہہ رہا ہو
"ڈونگر مُوں سیں روئے، کڈھی پارَ پنہوںءَ جا!”
اور پھر جب سسئی کے حصے کے پتھر رو رو کر بس کریں تو
لطیف ان پتھروں سے سمی کی زبانی کہہ رہا ہو کہ
"ڈونگر موں سیں روئے، کڈھی پار دین محمد جا!”
کوئی چاہے یا نہ چاہیے، کوئی سمجھے یا نہ سمجھے، کوئی جانے یا نہ جانے.. پر ہم جانتے ہیں، ہمیں خبر ہے کہ سمی کا رشتہ اب پتھروں سے جُڑ گیا ہے..وہ کیوں؟ وہ اس لیے، کہ سمی مسافر بنی ہے اور یہ سفر اور مسافتیں کوئی آج کی نہیں ہیں.. اس سفر کو اور مسافتوں کو سمی دس سالوں سے جھیل رہی ہے.. سمی کے معصوم کندھوں پر بارِ گراں ایسے گرا ہے، جیسے یسوع کے کاندھوں پر بھاری صلیب!
یسوع بھی مصلوب تھا،
اور آج سمی بھی مصلوب ہے!
جب سمی سراپا سفر ہوئی، تو مسافتیں اس کا مقدر ٹھہریں گی، تو اس کا واسطہ ان پتھروں سے ضرور پڑے گا!
جو بے جان ہو تے ہیں،
پر سنتے کانوں والا دل رکھتے ہیں..
اس وقت سمی بلوچ کی زندگی ہو بہ ہو ایسی ہو چلی ہے کہ
"ادی کا ایندی؟ چھپر موں سنگ تھیو،
لائیندیس لگن کھے ملیراں مہندی
وِندر آؤں ویندی، آری جام اجھو کرے!”
اگر لطیف کی اس بات کو بلوچی کا لبادہ اُڑھایا جائے تو
"دلءَ جیِڑت وتی، کاینت سنگبند اِدا
ھِنی ملیر ءِ من ، دستءُ پاداں رَج آں
‘واجہ’ باہوٹ کنت ، وندرءَ کہ رساں!”
وہ سمی جو کبھی نہیں روئی، اب اس کے نین بس ہی نہیں کرتے..
سمی بلوچ دکھی ہے،
وہ کیوں رو تی ہے؟
اس لیے کہ پنہوں جیسا ڈاکٹر دین محمد اسے مسافر بنا گیا ہے!
اور یہ سفر اسے کس نے دیا ہے؟
تم بھی جانتے ہو،
میں بھی جانتا ہوں!!!
لیکن اس ساری کہانی میں سکھیاں کون ہیں اور سنگلاخ چٹانوں کے پتھر کون؟ اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے..
اور ہم لطیف کی زبانی سمی بلوچ کی یہ صدا بھی سن رہے ہیں کہ
،،ادی کا ایندی؟ چھپر موں سنگ تھیو!،،
یا یہ صدا کہ
،”دلءَ جیِڑت وتی، کاینت سنگبند اِدا!”
پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ
"سمی بلوچ کیوں رو تی ہے!!؟”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close