اس کارزارِ حیات میں حیاتِ حیات کتنی سستی ہے!

کلیم عبدالرحمان

کراچی یونیورسٹی کا طالبِ علم، بدنصیب بلوچستان کا بدقسمت بیٹا، حیات بلوچ ایف سی کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا… اب ایف سی کے، خون سے رنگے ہوئے ہاتھ دھلوانے کا انتظام کیا جائے گا، سخت نوٹس لے کر اور چند مذمتی بیانات کے ساتھ!

کیس داخل ہوگا
اور کسی دن میڈیا کسی چوراہے پر ڈگڈگی بجا کر بچہ جمورا کے کرتب دکھاتے ہوئے جمہور کے حواس کو ہپناٹائز کر رہا ہوگا، اور اسی تماشے میں ناکافی شواہد کی بنیاد پر حیات بلوچ کو بندِ حیات سے آزاد کردینے والے کو بھی آزاد کر دیا جائے گا… کہیں کوئی بحث مباحثہ نہیں ہوگا، کوئی تذکرہ نہیں ہوگا…. بوڑھی ماں اور بوڑھے باپ کی بے بسی کی چیخیں، سماعتوں سے محروم بے حس دیس میں دبی ہوئی سسکیوں کے ڈھیر میں چنگاریوں کی مانند جلتی رہیں گی..

سستے انصاف کے نعروں کے شور میں انصاف مہنگا اور زندگی سستی… اور مزید سستی ہوتی رہے گی..

ہر گھر کی دہلیز پر انصاف پہنچانے کے دعووں کے بے ہنگم  شور میں، گھروں کی دہلیز پر مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاتی رہیں گی..

بڑھاپے کے بوجھ سے بوڑھے والدین کے جھکے ہوئے کندھوں سے ان کا سہارا چھین کر بچوں کی لاشیں ان کے کندھوں پر لادنے کا سلسلہ چلتا رہے گا…

اپنی ہر تقریر میں "کفر کا نظام چل جاتا ہے، لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا” کی گردان ضرور کیجیے جنابِ وزیرِ اعظم! مگر اس بات پر اب یقین بھی کر لیجیے کہ ظلم کا نظام واقعی میں نہیں چل سکتا!

جان لیجیے، کہ حیات بلوچ اپنے کھیت میں اپنے غریب مزدور باپ کا ہاتھ بٹا رہا تھا، اسے وہاں سے گھسیٹ کر سڑک پر الٹا لٹا کر بوڑھی ماں اور بوڑھے باپ کی آنکھوں کے سامنے آٹھ گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا، کیا اب اس بات کو ثابت کرنے کے لئے بھی دلائل کی ضرورت پڑے گی کہ یہ ظلم ہے!!؟؟

وہ حیات، جو اکثر کہا کرتا تھا کہ میں وہ وقت دیکھنا چاہتا ہوں، جب میں کسی قابل بن کر اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور پھر اپنے لوگوں کی خدمت کرسکوں، اپنوں کی تقدیر بدل سکوں..

وہ حیات، جو سی ایس ایس کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا..

وہ حیات، جو غربت کے باوجود انتہائی مشکل حالات میں بھی اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا..

وہ حیات، جو یونیورسٹی بند یونے کی وجہ سے اپنے گاؤں میں والد کے ساتھ مل کر کھجور کے باغ میں دن رات کام کرتا تھا تا کہ  اتنے پیسے جمع کر سکے کہ آنے والے دنوں میں یونیورسٹی میں اس کا خرچہ چل جائے..

وہ حیات، جو اپنی برادری میں یونیورسٹی تک پہنچنے والا پہلا نوجوان اور اپنی کلاس کا ہونہار طالبِ علم تھا..

اس حیات کا سفاکانہ قتل نہ صرف ظلم ہے، بلکہ ظلم کی انتہا ہے!

سنا تھا ریاست ماں ہوتی ہے… اِس ماں کو اُس بوڑھی ماں کی آنکھیں بھی دے دیجیے، جس نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک بیٹے کے سینے کو گولیوں سے چھلنی ہوتے دیکھا ہے..

اس ریاست کے سینے میں اس بدنصیب باپ کا دل بھی رکھ دیجیے، جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹے کو بے گناہ قتل ہوتے دیکھا ہے!

شاید شہید بیٹے کی بوڑھی اور غمزدہ ماں کی آنکھیں اس ریاست کو یہ بصارت عطا کر سکیں اور وہ یہ دیکھنے کے قابل ہو سکے کہ بلوچستان اور کشمیر میں بہتا خون ایک ہی رنگ کا ہے…

شاید بوڑھے اور بے بس باپ کا غم سے بھرا ہوا دل ریاست کے سینے میں یہ احساس جگا سکے کہ ظلم چاہے کہیں بھی ہو اور چاہے کوئی بھی کرے، ظلم ہی ہے!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close