آب و ہوا میں تبدیلی: ایک تہائی اموات کی وجہ شدید گرمی قرار

ویب ڈیسک

لندن: عالمی حدت یا گلوبل وارمنگ اب ایک زبان زدِ عام استعارہ بن چکا ہے۔ جدید تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں میں بڑھتی ہوئی گرمی سے جتنے بھی لوگ فوت ہوئے ہیں ان میں سے 37 فیصد اموات کی وجہ وہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں جو انسانی سرگرمیوں سے اب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں

اس تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی ایک طویل عرصے سے ہیٹ ویوز کی وجہ بن کر انسانی جانوں کا خراج طلب کررہی ہے۔ اگرچہ اس کے اثرات دنیا کے ہربرِاعظم میں دیکھے گئے ہیں لیکن حالیہ تحقیق اس پر مزید روشنی ڈالتی ہے اور اس ضمن میں دنیا بھرمیں حرارت سے اموات کے نقشے بھی بنائے گئے ہیں

لندن اسکول آف ہائیجن اور ٹراپیکل میڈیسن کے پروفیسر اینتونیو جیسپرانی اور ان کے ساتھیوں نے یہ تحقیق کی ہے۔ ’آب وہوا میں تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے اثرات اب محض مستقبل کا معاملہ نہیں رہے۔ بلکہ یہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور ہم اس کے منفی اثرات دیکھ رہے ہیں۔‘

تحقیق کے مطابق وسطی اور جنوبی افریقی ممالک مثلاً گوئٹے مالا اور کولمبیا، مشرقِ وسطیٰ اور ایران میں 50 فیصد، فلپائن اور جنوب مشرقی ایشیا میں گرمیوں کی شدت کی شرح بہت زیادہ دیکھی گئی ہے۔ تاہم امریکا، کینیڈا اور یورپ وغیرہ میں اس کی شرح بہت کم نوٹ کی گئی ہے

اپنی تحقیق میں سائنسدانوں نے 1991ع سے 2018ع کے درمیان 43 ممالک کا جائزہ لیا ہے۔ اس کے لیے ایک کمپیوٹر ماڈل بنایا گیا جس میں عالمی حدت میں 1.1 درجے سینٹی گریڈ کے اضافے کو شامل نہیں کیا گیا تھا جو دیگر ماڈلوں میں تجویز کیا گیا تھا۔ اس فرق کو دیکھتے ہوئے گرمی بڑھنے کے واقعات کا حقیقی جائزہ لیا گیا ہے

اس طرح کل 732 مقامات پر گرمی کی لہروں کے واقعات اور اموات کا خطرہ دیکھا گیا۔ مثلاً اگرجوہانس برگ میں گرمی بڑھتی تو ہے تو عین اسی درجہ حرارت سے برلن میں زیادہ اور جوہانس برگ میں کم اموات ہوسکتی ہیں۔ ماہرین نے اس پہلو کو بھی مدِ نظر رکھا

اس تحقیق سے غیروابستہ ایک اور ماہر اور ریڈنگ یونیورسٹ کی کلوای برمیکومب کہتی ہیں کہ یہ تحقیق ماضی کے آئینے سے ہمیں آج رونما ہونے والی گرمی کی لہروں کی خبر دیتی ہیں۔ اگر ماضی میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج روکا جاتا تو آج صورتحال قدرے مختلف ہوتی۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ جس طرح تحقیق بتاتی ہے کہ ہر سال 9702 افراد کلائمٹ چینج والی گرمی سے مررہے ہیں تو شاید ان کی تعداد کم ہوسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے تحقیق میں ہر ملک کے چار گرم ترین مہینوں کو ہی شامل کیا گیا ہے۔ جبکہ دنیا کے کئی ممالک ایسے بھی ہیں جہاں سال میں کسی بھی وقت ہیٹ ویو اٹھ سکتی ہیں اور ان میں منطقہ حارہ کے کئی ممالک شامل ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close