ہزاروں فٹ بلندی سے جہاز سے چھلانگ لگانے والا ہائی جیکر، جس کی کہانی آج بھی ایک معمہ ہے!

ویب ڈیسک

اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟ یہ وہ سوال ہے، جو آج بھی امریکی تفتیشی اداروں کے ذہن میں گونجتا ہے۔ ایک ایسا ہائی جیکر جو چالاکی، ہوشیاری اور نڈر پن کی مثال بنا، لیکن آخرکار تاریخ کی دھند میں گم ہوگیا۔ وہ ایک مجرم تھا یا ایک بہادر مہم جو؟ ایک جیمز بانڈ جیسا جاسوس یا محض ایک ہوشیار ڈاکو؟ ڈی بی کوپر کا یہ معمہ آج بھی حل نہیں ہو سکا۔

یہ کہانی 1971 کی ایک خنک شام سے شروع ہوتی ہے، جب ایک سادہ سا شخص پورٹ لینڈ ایئرپورٹ پر نمودار ہوا۔ بظاہر وہ ایک عام مسافر تھا، لیکن اس کے ہاتھ میں موجود کالا بریف کیس کسی اور ہی کہانی کی ابتدا بننے والا تھا۔ وہ کسی قدر شائستہ لگتا تھا، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، وہ چمک جو منصوبہ بندی اور اعتماد کی علامت ہوتی ہے۔

24 نومبر 1971، تھینکس گیونگ سے ایک روز قبل، ایئرپورٹ کے کاؤنٹر پر ایک شخص آ کر رکا۔ عینی شاہدین کے مطابق وہ ایک سفید فام شخص تھا جس کی عمر 40 کے عشرے میں ہوگی۔ بال کالے اور آنکھیں براؤن تھیں۔ اس نے سفید شرٹ پر کالی ٹائی لگائی ہوئی تھی اور اوپر کوٹ پہنا تھا جبکہ پاؤں میں بھورے رنگ کے جوتے تھے۔

اس نے ’ڈین کوپر‘ کے نام سے سیاٹل کے لیے ون وے ٹکٹ خریدا۔ اس وقت کسی کو کیا معلوم تھا کہ یہ نام تاریخ کے چند سب سے بڑے معموں میں سے ایک بننے جا رہا ہے۔

جہاز میں پہنچتے ہی اس نے اپنی نشست سنبھالی، سافٹ ڈرنک منگوائی، اور آرام سے بیٹھ گیا۔ عام مسافر، عام رویہ۔۔ مگر کچھ ہی لمحوں بعد، یہ شخص ایک دھماکہ خیز خبر دینے والا تھا۔

ہائی جیکنگ کی ابتدا

نارتھ ویسٹ اورینٹ ایئرلائن کے اس جہاز میں عملے کے چھ افراد کے علاوہ 36 مسافر سوار تھے۔ جیسے ہی فلائٹ 305 اڑان بھرتی ہے، تو عملے میں شامل ایئرہوسٹس فلورنس سکیفنر، جو اس کے لیے سافٹ ڈرنک لائی تھی، کے ہاتھ میں اچانک وہ شخص ایک کاغذ تھما دیتا ہے۔ وہ پہلے تو نظر انداز کرتی ہے، یہ سمجھ کر کہ شاید کسی بزنس مین کا رابطہ نمبر ہوگا۔۔ مگر جب کوپر آہستگی سے سرگوشی کرتا ہے، ”بہتر ہے کہ اس نوٹ کو پڑھ لیں۔“

تب وہ نوٹ کھولتی ہے۔ اندر لکھی تحریر سکیفنر کے ہوش اڑا دیتی ہے: ”میرے پاس بم ہے، چپ چاپ میرے ساتھ بیٹھ جاؤ اور میرے احکامات مانو۔“

سکیفنر، اپنے پیشہ ورانہ فرض کو نبھاتے ہوئے، بمشکل اپنے خوف پر قابو پاتی اور بیٹھ جاتی ہے۔ کوپر خاموشی سے بریف کیس کھول کر اسے اندر جھانکنے کا موقع دیتا ہے۔ دھندلی روشنی میں اسے تار، بیٹری، اور دو سلنڈر دکھائی دیتے ہیں۔ تب بریف کیس بند کرتے ہوئے وہ سکیفنر کو ایک اور حکم دیتا ہے ”میرے مطالبات لکھو۔“ وہ بلا چوں و چرا اس کے مطالبات لکھتی ہے اور کاغذ کاک پٹ میں جا کر پائلٹ کو دیتی ہے، جہاں اعملے کے دوسرے افراد بھی موجود ہیں۔۔ یہ خبر ملتے ہی ایک جھرجھری سی پورے عملے میں دوڑ جاتی ہے۔

کوپر کے مطالبات واضح تھے: دو لاکھ ڈالر نقد (20 ڈالر کے نوٹوں کی صورت میں، اور وہ بھی مختلف سیریز کے) ، چار پیراشوٹ اور مسافروں کے لیے محفوظ راستہ!

ساتھ یہ دھمکی بھی کہ اگر پیراشوٹس میں کوئی مسئلہ ہوا تو جہاز کو بم سے اڑانے میں دو سیکنڈ بھی نہیں لگیں گے۔

کیپٹن سب کو پرسکون اور سکیفنر کو اندر ہی رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے منی سوٹا کے فلائٹ آپریشنز کو ہائی جیکنگ سے آگاہ کرتے ہیں۔

یہ مطالبات پہنچتے ہی ایئر لائن انتظامیہ اور ایف بی آئی میں کھلبلی مچ جاتی ہے۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ ہائی جیکر نے نہ صرف پیسے مانگے بلکہ پیراشوٹ بھی طلب کیے۔ کیا وہ واقعی جہاز سے چھلانگ لگانے والا تھا؟

جب کیپٹن کو ہوابازی کے حکام کی جانب سے پیسوں کا انتظام ہو جانے کا پیغام ملا تو اس نے اعلان کیا کہ ’ہم ایک تکنیکی خرابی کی وجہ سے قریبی ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے والے ہیں۔‘ یہ غیر متوقع اعلان جہاز میں سوار مسافروں کے لیے حیران کن تھا۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک اکیلے شخص نے یہ طیارہ اغوا کر لیا ہے اور وہ ان ہی کے درمیان بیٹھا ہے۔

تب ڈین کوپر نے کیپٹن کو حکم دیا کہ جہاز ایسی جگہ اتارا جائے جہاں باہر روشنی ہو اور اندر کم سے کم روشنی رکھی جائے اور ایسا نہ کرنے پر یا طیارے کے قریب کسی گاڑی یا شخص کے آنے پر اس نے ایک بار پھر جہاز کو بم سے اڑانے کی دھمکی دھرائی۔

جہاز محفوظ طور پر لینڈ کر گیا اور ایئرلائن کا ایک ملازم رقم کا بیگ اور پیراشوٹس لے کر پہنچا۔

ادہر ایف بی آئی نے بریف کیس میں رکھنے سے پہلے فوری طور پر نوٹوں پر خفیہ نشان لگا دیے تھے، تاکہ اگر کبھی یہ کرنسی استعمال ہو تو اسے ٹریس کیا جا سکے۔

فرار کی ناقابلِ یقین کہانی

کوپر نے جہاز کو سیئٹل ایئرپورٹ پر اتروایا، جہاں ایک شخص مطلوبہ رقم سے بھرا بریف کیس اور پیراشوٹ لے کر آیا، کوپر نے اسے وصول کیا اور تمام مسافروں کو چھوڑ دیا، مگر عملے کے کچھ لوگوں کو روک لیا۔ پھر، کیپٹن کو حکم دیا کہ جہاز کو میکسیکو لے جایا جائے، مگر ایک خاص ہدایت کے ساتھ: یہ 10,000 فٹ کی بلندی پر اور انتہائی کم رفتار سے اڑے۔

جہاز کا سارا عملہ کاک پٹ میں ہی موجود تھا اور کوپر کاک پٹ کے باہر۔۔ اڑان بھرنے کے بیس منٹ بعد، سیئٹال اور رینو کے بیچ تقریباً آٹھ بجے کوپر اپنی سیٹ سے اٹھا، پیسوں سے بھرا بریف کیس اٹھایا، اور جہاز کے عقبی دروازے کی طرف بڑھا۔ چند منٹ بعد، عملے نے پیچھے سے ایک جھٹکے کی آواز سنی، کاک پٹ میں سرخ بتی روشن ہوئی، وہ دروازہ کھول چکا تھا!

پائلٹ نے انٹرکام پر کوپر سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ کیا اسے کسی چیز کی ضرورت ہے تو کوپر نے غصے سے جواب دیا ”نہیں۔“ یہ اس پراسرار شخص کے آخری الفاظ تھے۔

رات کے اندھیرے میں، تیز ہواؤں کے بیچ، ایک پراسرار سایہ نیچے کود چکا تھا۔۔ اور پھر کبھی نہیں ملا۔ عملے نے کاک پٹ سے باہر نکل کر دیکھا وہاں صرف بقایا پیراشوٹ اور کوپر کی ٹائی پڑی ہوئی تھی۔

بعد ازاں یہ عقدہ بھی کھلا کہ آخر اس نے 20 ڈالر کے نوٹ ہی کیوں مانگے تھے کیوں کہ اس طرح رقم کا مجموعی وزن 21 پاونڈ بنتا۔ اگر اس سے کم ڈالر کے بل ہوتے تو وزن زیادہ ہوتا اور چھلانگ لگانا جان لیوا ثابت ہو سکتا تھا۔ اگر زیادہ بڑے بل ہوتے تو وزن تو کم ہوتا لیکن ان کا استعمال کرنا خطرے سے خالی نہ ہوتا۔ یہ بات ثابت کرتی تھی کہ اس نے کتنی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔

بتایا جاتا ہے کہ پولیس نے طیارے کا پیچھا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ پہلے ایف 106 طیارے استعمال کرنے کا ارادہ کیا گیا لیکن یہ تیز رفتار لڑاکا طیارے اتنی کم رفتار پر نہیں اڑ سکتے تھے جس کی تاکید کوپر نے پائلٹ کو کی تھی۔ اس لیے ایئر نیشنل گارڈ سے ٹی 33 طیاروں کی درخواست کی گئی۔ تاہم جب تک یہ طیارے ہائی جیک ہونے والے مسافر طیارے تک پہنچے، کوپر چھلانگ لگا چکا تھا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ جس مقام پر اس نے طیارے سے چھلانگ لگائی، اس حساب سے وہ لیک مرون نامی مقام کے آس پاس زمین پر اترا ہوگا۔

ایف بی آئی نے فوری طور پر اس علاقے میں تلاش کا آغاز کر دیا اور سینکڑوں افراد سے پوچھ گچھ کی گئی۔ آہستہ آہستہ تلاش کا دائرہ پھیلایا جاتا رہا لیکن کوئی کامیابی نہ مل سکی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوپر ہوا میں ہی کہیں غائب ہو گیا۔

 

سراغ، تحقیقات اور ناکامی

ایف بی آئی نے چالاکی سے نوٹوں پر نشان لگائے تھے، لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ پیسے کبھی کسی بینک، دکان، یا کاروباری لین دین میں استعمال ہوتے نہیں پائے گئے۔

1980 میں، ایک لڑکے کو دریائے کولمبیا کے کنارے ایک تھیلا ملا، جس میں 5800 ڈالر کے نوٹ تھے۔ یہ وہی نشان زدہ کرنسی تھی جو کوپر کو دی گئی تھی، مگر باقی پیسوں کا کوئی اتا پتا نہ ملا۔

یوں اس نظریے کو مزید تقویت ملی کہ شاید کوپر چھلانگ لگانے کے بعد زندہ نہیں بچا کیوں کہ وہ رات کے وقت ایک جنگلی علاقے کے بیچ گرا تھا، تاہم سب اس نظریے سے متفق نہیں تھے۔ بہت سے لوگوں کا ماننا تھا کہ جو نوٹ ملے، وہ چھلانگ کے دوران کوپر سے گر گئے ہوں گے اور وہ باقی رقم سمیت بحفاظت نیچے اترا بھی اور حکام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب بھی ہوا۔

واقعے کے بعد 800 سے زائد مشتبہ افراد سے تفتیش ہوئی، مگر کوئی بھی کوپر ثابت نہ ہو سکا۔ کئی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ وہی کوپر تھے، مگر ہر بار کوئی نہ کوئی ثبوت کم پڑ جاتا۔

رچرڈ فلائڈ نامی شخص کو سب سے زیادہ مشکوک سمجھا گیا کیونکہ اس واقعے کے پانچ ماہ بعد اس نے بھی ایسی ہی ہائی جیکنگ کی کوشش کی تھی، تاہم وہ اپنی جسمانی ساخت کے لحاظ سے مختلف تھا جبکہ جہاز کے عملے نے بھی شناخت پریڈ میں بتایا کہ وہ کوئی اور تھا۔ گمان کیا جاتا ہے کہ رچرڈ نے ڈین کوپر کی کامیاب ہائی جیکنگ سے متاثر ہو کر یہ واردات کی تھی۔

کئی سال بعد اگست 2011 میں ایک خاتون، مارلا کوپر نے دعویٰ کیا کہ ڈین کوپر دراصل اس کے انکل تھے۔ ماریا کا دعویٰ تھا کہ اس نے ایک گفتگو سنی تھی، جس کے مطابق ایک طیارہ ہائی جیک کیا گیا۔ تاہم ماریا نے یہ بھی کہا کہ اس کے انکل جہاز سے چھلانگ لگانے کے بعد وہ رقم ہوا میں ہی کھو بیٹھے۔

اگرچہ اس وقت تک ایسے بہت سے دعوے ہو چکے تھے، لیکن اس دعوے کی دلچسپ بات یہ تھی کہ ہائی جیک ہونے والے مسافر طیارے کے ایک فلائٹ اٹینڈینٹ نے ماریا کے انکل کی تصویر دیکھ کر کہا کہ یہ شکل ہائی جیکر سے ملتی جلتی ہے۔ تاہم حکام نے اس دعوے پر بھی یقین نہیں کیا اور ڈین کوپر کیس کی چھان بین جاری رہی۔

پھر 2016 میں، 45 سال بعد، ایف بی آئی نے بالآخر کیس بند کر دیا، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ کوپر کا راز شاید کبھی نہ کھلے۔

کوپر زندہ رہا یا مر گیا؟ یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ کچھ کا ماننا ہے کہ وہ چھلانگ لگانے کے بعد شدید سردی اور خطرناک جنگل میں مر گیا ہوگا، کیونکہ وہ مناسب لباس میں نہیں تھا۔ مگر دوسری طرف، اگر وہ واقعی مر گیا ہوتا، تو اس کی لاش یا باقیات کبھی نہ کبھی ضرور ملتیں۔

تو کیا اسے واقعی زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟

آج بھی، کئی لوگ ڈی بی کوپر کو کسی فلمی ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ ایک چالاک مجرم تھا، مگر اس کی بہادری اور فرار کی مہارت نے اسے کسی عوامی داستان کے ہیرو میں بدل دیا۔

ہالی وڈ نے بھی اس پراسرار کہانی کو نہیں چھوڑا۔ 2022 میں ”آئی ایم ڈی کوپر“ کے نام سے ایک فلم ریلیز ہوئی، جس میں اس واقعے کو زندہ کیا گیا۔

مگر حقیقت آج بھی پردۂ راز میں ہے۔ وہ کون تھا؟ کہاں سے آیا؟ اور اگر بچ نکلا تو کہاں گیا؟

یہ سوال آج بھی تحقیقاتی اداروں اور جرم کے شوقین تجزیہ نگاروں کے لیے ایک معمہ ہے۔۔ ایک ایسا معمہ جو شاید کبھی حل نہ ہو۔

ڈین کوپر امریکی تاریخ کا واحد ہائی جیکر ہے جو کسی دھند کی طرح فضا میں تحلیل ہو گیا، نہ کوئی گرفتاری، نہ کوئی انجام۔۔ مگر حیران کن طور پر، وہ ایک مجرم ہونے کے باوجود لوک داستانوں کا ہیرو بن چکا ہے۔ ہر سال 24 نومبر کو اسی مقام پر، جہاں ایف بی آئی نے اس کی تلاش میں پہلا ہیڈکوارٹر قائم کیا تھا، ایک منفرد جشن منایا جاتا ہے۔

اریئل ٹیورن میں، جہاں یہ تقریب ہوتی ہے، لوگ بزنس سوٹ پہنے، چشمے لگائے، اور پیراشوٹ تھامے اکٹھے ہوتے ہیں۔۔ بالکل ویسے ہی، جیسے وہ پراسرار ہائی جیکر تھا۔ رات گئے تک یہ محفل چلتی ہے، کہانیوں کے چراغ جلتے ہیں، اور ہر کوئی اپنی اپنی قیاس آرائیاں سناتا ہے: کیا وہ حقیقت میں زندہ بچ نکلا؟ یا وہ آسمان اور زمین کے بیچ کہیں کھو گیا؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close