جانی خیل مظاہرین کا 28 دھرنا دن بعد  ختم، رہنما کی لاش ’امانتاً‘ سپردخاک

خیبر پختونخوا حکومت اور اتمانزئی و احمدزئی وزیر قبائل کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد ضلع بنوں کے علاقے جانی خیل میں دیا گیا دھرنا 28 دن بعد اتوار کو اختتام پذیر ہوگیا، جس کے بعد مظاہرین اپنے مقامی رہنما کی لاش کو ’امانتاً‘ سپرد خاک کرنے پر رضامند ہوگئے

جانی خیل قبیلے کے مقامی رہنما ملک نصیب خان کو رواں برس 30 مئی کو قتل کردیا گیا تھا، جس کے بعد مظاہرین نے جانی خیل کے مقام پر ان کی لاش کے ہمراہ دھرنا دے رکھا تھا

مظاہرین کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ مارچ کے مہینے میں چار نوجوانوں کے قتل اور اس کے نتیجے میں احتجاج کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر عمل نہیں کیا گیا

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے اتوار کو ہونے والے مذاکرات میں صوبے کے وزیر ٹرانسپورٹ شاہ محمد وزیر، فوجی حکام اور ضلعی انتظامیہ شامل تھی جبکہ مظاہرین کی نمائندگی شمالی وجنوبی وزیرستان کے اتمانزئی واحمدزئی قبائل کے گرینڈ جرگے نے کی

خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات کامران بنگش نے مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت اور جانی خیل کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد احتجاج اختتام پذیر ہوگیا ہے

انہوں نے بتایا: ’شاہ محمد وزیر کی سربراہی میں ہونے والے مذاکرات کے دوران مظاہرین اور حکومت کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ ایک سات رکنی جرگہ قائم کیا جائے گا، جو جانی خیل کے مسائل، امن وامان پر ان کے تحفظات اور متاثرین کو امدادی رقم کی ترسیل کے علاوہ جانی خیل اور حکومت کے درمیان مصالحتی کردار ادا کرتے ہوئے دیگر تمام مسائل حل کرے گا جبکہ کسی بھی قسم کی رکاوٹ کی صورت میں متعلقہ جرگہ اسے حل کرنے کا ذمہ دار ہوگا

کامران بنگش نے مزید کہا کہ اگر کبھی آئندہ ایسا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو احتجاج کی بجائے جرگے سے مشاورت کی جائے گی اور جرگہ ارکان اس معاملے کو حل کرنے کے مجاز ہوں گے

جانی خیل احتجاج کے مرکزی رہنما اور کور کمیٹی کے عہدیدار رسول نیاز وزیر نے بھی احتجاج ختم کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت اور وزیر قبائل کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد جانی خیل قوم اپنے مقامی رہنما نصیب خان کو امانتاً دفنانے پرآمادہ ہوئی ہے، تاکہ اگرحکومتی معاہدے پر عمل نہ ہوا تو وہ نہ صرف امانتاً دفنائی گئی لاشیں دوبارہ نکال کر احتجاج کریں گے بلکہ اس بار لاکھوں وزیر بھی احتجاج کے لیے نکلیں گے۔‘

اتمانزئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے رسول نیاز وزیر نے بتایا کہ جانی خیل مظاہرین نے حکومت کے ساتھ ان ہی شرائط پر معاہدہ کیا جو انہوں نے مارچ کے مہینے میں چار نوجوانوں کے اندھے قتل کے بعد صوبائی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں رکھی تھیں

انہوں نے کہا: ’مارچ کے مہینے میں جو معاہدہ ہوا تھا، ہماری شرائط اب بھی وہی ہیں، جس میں ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ ہمارے علاقے میں بدامنی کو ختم کیا جائےگا، جس پر وزیر اعلیٰ محمود خان ہمارے ساتھ رضامند ہوئے تھے۔‘

رسول نیاز نے بتایا کہ انہوں نے 23 جون کو احتجاج کے دوران اسلام آباد جانے کی کوشش میں پولیس کی جانب سے جن حالات کا سامنا کیا اور جس کے نتیجے میں مظاہرین کو جانی ومالی نقصان بھی اٹھانا پڑا، اس کی اعانت کا بھی مذاکرات میں مطالبہ کیا گیا

’ہم نے حکومت کو بتایا کہ ہماری گاڑیوں کو جلایا گیا۔ ایک نوجوان  جان سے گیا، لہذا مصالحتی جرگہ سب سے پہلےوزیر اعلیٰ کے ساتھ کیے گئے معاہدےکو پورا کرے گا اور بعد میں جانی ومالی نقصان کا ازالہ کرے گا، جس پر حکومتی وفد نے آمادگی کا اظہار کیا ہے۔‘

رسول نیاز وزیر نے بتایا کہ حکومت اور مظاہرین کے درمیان گرینڈ جرگے میں حصہ لینے والے شمالی وجنوبی وزیرستان کے سات عمائدین میں ملک عمر حیات، ملک فدا خان، میر شمد خان، ملک محمد ایوب، ملک گل باد خان، ملک گل پاؤزار اور ملک جہان نور شامل ہیں۔

بنوں میں حکومت اور جانی خیل مظاہرین کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی گئی کہ 88 لاپتہ افراد کے ناموں کی فہرست میں شامل چھوٹے جرائم میں ملوث افراد کو ایک ہفتے کے اندر رہا کر دیا جائے گا، جبکہ بڑے جرائم میں شامل ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی کی جائے گی۔

علاقہ ازیں یہ بھی طے پایا کہ رواں برس مارچ میں چار نوجوانوں کے قتل کے واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ کو بھی سامنے لایا جائے گا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تحقیقات کا جائزہ لیاجائے گا۔

جانی خیل علاقے میں امن امان قائم کرنے اور ہر قسم کے طالبان کی نقل وحرکت کو روکنے کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔

صوبائی وفد نے مظاہرین کو یہ بھی باور کروایا ہے کہ ان کے علاقے کے لیے مختص دو ارب روپے کے ترقیاتی فنڈ میں جانی خیل کو پہنچنے والے مالی نقصان اور مرنے والوں کے لواحقین کو مالی امداد دی جائے گی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close