
بچپن کی یادوں کا دھندلا جانا ہم سب کے لیے ایک معمّہ رہا ہے۔ کیوں ہمیں اپنی زندگی کے وہ ابتدائی سال یاد نہیں رہتے، جن میں ہم بولنا سیکھتے ہیں، چلنا سیکھتے ہیں، اور اردگرد کی دنیا سے پہلا تعارف حاصل کرتے ہیں؟ کیا ہماری پہلی مسکراہٹ، پہلا لفظ، پہلی ٹھوکر، اور پہلی خوشی واقعی دماغ سے مٹ جاتی ہے، یا یہ سب کہیں محفوظ ہوتا ہے، بس ہم اسے یاد کرنے سے قاصر ہوتے ہیں؟
یہ سوال صرف عام زندگی کی دلچسپی کا ہی نہیں، بلکہ سائنس کی دنیا میں بھی ایک پیچیدہ معمّہ رہا ہے۔ ییل یونیورسٹی (Yale) کے ماہرین نے ایک نئی تحقیق میں اس راز سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے، اور ان کے نتائج ہماری یادداشت کے نظام کو ایک بالکل نئے زاویے سے سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
بچپن کی یادداشت کا پراسرار خلا: سائنس کیا کہتی ہے؟
اب تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہپوکیمپس (دماغ کا وہ حصہ، جو یادداشت محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے) نوجوانی تک مکمل طور پر ترقی نہیں پاتا، اس لیے ابتدائی یادیں دماغ میں محفوظ نہیں ہو پاتیں، لیکن پروفیسر نک ٹرک-براؤن اور ان کی ٹیم نے اس خیال کو چیلنج کیا ہے۔
ییل یونیورسٹی کے ماہرین نے 26 بچوں پر کی گئی ایک تفصیلی تحقیق میں دریافت کیا کہ نومولود اور شیرخوار بچے یادداشت کے عمل میں کہیں زیادہ مہارت رکھتے ہیں، جتنا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا۔ تحقیق میں چار ماہ سے دو سال تک کے بچوں کو مختلف اشیاء اور مناظر کی تصاویر دکھائی گئیں۔ بعد میں جب انہیں وہی تصاویر دوبارہ دکھائی گئیں، تو معلوم ہوا کہ وہ ان کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
محققین نے بچوں کے ہپوکیمپس کی سرگرمی کو فنکشنل میگنیٹک ریزونینس امیجنگ (fMRI) کے ذریعے جانچا اور پایا کہ جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں، ان کے ہپوکیمپس کی سرگرمی بڑھتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ان کی یادداشت میں محفوظ رکھنے کی صلاحیت بھی بہتر ہوتی جاتی ہے۔
کیا یادداشت واقعی ختم ہو جاتی ہے، یا ہم بس اسے یاد نہیں کر پاتے؟
تحقیق کے نتائج نے یہ نیا امکان پیش کیا کہ شاید ہماری ابتدائی یادیں محفوظ تو ہو جاتی ہیں، لیکن ہم بڑے ہو کر انہیں یاد کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ پروفیسر نک ٹرک-براؤن کے الفاظ میں، ”یہ ممکن ہے کہ وہ یادیں اب بھی ہمارے دماغ میں کہیں موجود ہوں، بس ہم ان تک رسائی حاصل کرنے کے قابل نہیں رہتے۔“
یہ نظریہ نفسیات اور نیوروسائنس کے لیے ایک نیا سوال کھڑا کرتا ہے: کیا ہم اپنی گمشدہ یادوں کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں؟
دماغ کا یادداشت محفوظ کرنے کا طریقہ: ’سٹیٹسٹیکل لرننگ‘ اور ’ایپیسوڈک میموری‘
پہلے کی تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ تین ماہ کے بچے بھی ایک خاص قسم کی یادداشت رکھتے ہیں، جسے ’سٹیٹسٹیکل لرننگ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے اردگرد کی دنیا میں موجود پیٹرنز یا نمونوں کو پہچان سکتے ہیں، جیسے کہ ان کے کمرے کی ترتیب یا روزانہ سنائی دینے والی آوازیں۔
لیکن یادداشت کی وہ قسم، جسے ہم عام طور پر ”یاد“ کرنے سے تعبیر کرتے ہیں، یعنی ’ایپیسوڈک میموری‘ (episodic memory)، اس وقت تک مکمل طور پر کام نہیں کرتی، جب تک بچہ ایک سال یا اس سے زیادہ عمر کا نہ ہو جائے۔ یہ وہ یادداشت ہے جس میں ہم اپنے گزرے ہوئے تجربات، مقامات، اور مخصوص لمحات کو یاد رکھ سکتے ہیں۔
کیا ہم اپنی بھولی بسری یادوں کو واپس لا سکتے ہیں؟
ییل یونیورسٹی کی ٹیم اب یہ تحقیق کر رہی ہے کہ آیا چھوٹے بچے اپنی ہی بنائی گئی ہوم ویڈیوز کو بعد میں یاد رکھ سکتے ہیں؟ ابتدائی نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پری اسکول کی عمر تک کچھ یادیں باقی رہتی ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دھندلا جاتی ہیں۔
یہ ایک دلچسپ سوال اٹھاتا ہے: اگر وہ یادیں واقعی ختم نہیں ہوتیں، تو کیا مستقبل میں ایسا کوئی طریقہ دریافت کیا جا سکتا ہے جس سے ہم انہیں دوبارہ یاد کر سکیں؟
سائنس دان اس پر بھی تحقیق کر رہے ہیں کہ کیا کوئی خاص دماغی تربیت یا نیورل اسٹیمولیشن ایسی گمشدہ یادوں کو واپس لا سکتی ہے۔ اگر یہ ممکن ہوا، تو یہ صرف سائنسی کامیابی نہیں ہوگی، بلکہ یہ ہماری ذاتی شناخت، یادداشت اور ماضی کی یادوں کے تصور کو بھی یکسر بدل کر رکھ دے گی۔
یادوں کی دنیا ابھی تک ایک راز ہے
بچپن کی یادیں محض ماضی کے بوسیدہ ورق نہیں، بلکہ وہ ہماری شخصیت، رویوں اور زندگی کے ابتدائی سالوں کے اثرات کا حصہ ہیں۔ اگر یہ تحقیق ہمیں اپنی گمشدہ یادوں تک رسائی کا کوئی راستہ دکھا سکے، تو یہ سائنس اور نفسیات دونوں کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہوگی۔
شاید وہ بچپن کی دھندلی یادیں، جو کبھی ہماری سوچ کے کنارے پر تھیں، ایک دن پھر سے واضح ہو سکیں۔ لیکن تب تک، ہم یہ سوال ضرور کر سکتے ہیں: کیا ہماری بھولی بسری یادیں واقعی کھو چکی ہیں، یا وہ کہیں ہمارے ہی اندر، ایک سوئے ہوئے خواب کی طرح، ہمارا انتظار کر رہی ہیں؟