سائنسدانوں کا زمین سے باہر زندگی کے ’مضبوط ترین ثبوت‘ ملنے کا دعویٰ

ویب ڈیسک

سائنس کی دنیا سے ایک حیرت انگیز خبر سامنے آئی ہے، جو شاید انسانی تاریخ کے سب سے قدیم سوال کا جواب بن جائے: کیا ہم کائنات میں تنہا ہیں؟

جی ہاں! سائنس دانوں نے زمین سے باہر زندگی کے ممکنہ وجود کا اب تک کا سب سے وزنی، سب سے واضح اور سب سے پرجوش اشارہ دریافت کر لیا ہے

ممکن ہے کہ یہ دریافت مستقبل میں نظام شمسی سے باہر کی زندگی کی پہلی نشانی کے طور پر دیکھی جائے، کیوں کہ سائنس دانوں نے ایسی گیسیں دریافت کی ہیں جو موجودہ معلومات کے مطابق صرف حیاتیاتی عمل سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لیے یہ نتائج ایک ’بایو سگنیچر‘ یعنی ممکنہ زندگی کی علامت دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ٹھہریے۔۔۔ سائنسدان ابھی جشن نہیں منا رہے۔ انہیں ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے تاکہ وہ یقینی طور پر کچھ کہہ سکیں۔

یہ انکشاف ہمیں لے جاتا ہے ایک دور افتادہ سیارے K2-18 b تک، جو نہ صرف زمین سے 124 نوری سال کی دوری پر واقع ہے بلکہ اپنے سورج کے گرد بالکل اُسی علاقے میں گردش کرتا ہے جسے ”قابلِ رہائش“ کہا جاتا ہے۔ ایک ایسی جگہ، جہاں پانی مائع حالت میں موجود رہ سکتا ہے، نہ فوراً جمتا ہے اور نہ ہی بخارات میں تبدیل ہوتا ہے۔

کے ٹو 18 بی ایک Hycean سیارہ سمجھا جاتا ہے، جو ہائیڈروجن سے بھرپور فضا اور ممکنہ طور پر پانی سے ڈھکی سطح رکھتا ہے۔ اس کی کمیت گنا زیادہ اور سائز تقریباً 8.6 زمین سے گنا بڑا ہے ۔ یہ اپنے ستارے کے قابل 2.6 رہائش زون میں گردش کرتا ہے، جہاں درجہ حرارت مائع پانی کی موجودگی کے لیے موزوں ہو سکتا ہے۔

گذشتہ چند برسوں میں یہ سیارہ مزید دلچسپی کا باعث بنا۔ خلائی دور بین جیمز ویب کے سابقہ مشاہدات میں اس سیارے کے فضائی ماحول میں میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیسیں دریافت ہوئیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی ایسے سیارے کی فضا میں کاربن پر مبنی مالیکیولز پائے گئے جو اپنے ستارے کے قابل رہائش دائرے میں موجود ہے۔

اب سائنس دانوں نے اس سیارے کے ماحول میں ایسی کیمیائی علامات دریافت کی ہیں جو ممکنہ طور پر غیر زمینی زندگی کی موجودگی کی طرف اشاره کرتی ہیں۔ یہ دریافت جیمز ویب خلائی دوربین کے ذریعے کی گئی، جس نے سیارے کی فضا میں ڈائی میتھل سلفائیڈ (DMS) اور ڈائی میتھل ڈائی سلفائیڈ (DMDS) جیسی گیسوں کا سراغ لگایا۔

زمین پر یہ مرکبات عام طور پر سمندری مائیکروجنزمز، جیسے فائیٹوپلانکٹن کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی دلچسپ بات یہ ہے کہ زمین پر یہ گیسیں صرف زندہ اجسام، خاص طور پر کائی، کے ذریعے پیدا ہوتی ہیں!

یوں یہ کیمیکل سگنیچر، یہ خاموش گواہان، آسمانوں سے ہمیں شاید یہ پیغام دے رہے ہیں: ”ہم یہاں ہیں!“

اس تحقیق کے مرکزی مصنف کیمبرج یونیورسٹی کے ماہر فلکیات نكو مدهو سدھن کے مطابق: ”خلائی دور بین جیمز ویب سے حاصل ہونے والے تمام سابقہ اور حالیہ ڈیٹا کو جو واحد منظرنامہ مکمل طور پر سمجھا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ کے ٹو۔18 بی پر پانی اور ہائیڈروجن گیس پائی جاتے ہیں اور وہاں زندگی موجود ہے۔“

یعنی جیمز ویب دوربین سے حاصل ہونے والا سارا ڈیٹا ایک ہی کہانی سناتا ہے: K2-18 b پر پانی، ہائیڈروجن اور ممکنہ زندگی موجود ہے!

لیکن نكو مدهو سدھن احتیاط کے ساتھ کہتے ہیں: ”اگرچہ یہ دریافت حوصلہ افزا ہے، لیکن ہمیں کھلے ذہن کے ساتھ سوچتے رہنا چاہے اور دیگر امکانات کا جائزہ لینا بھی جاری رکھنا چاہیے۔“

ٹائم میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق اگرچہ DMS اور DMDS کی موجودگی زندگی کی ممکنہ علامت ہو سکتی ہے، لیکن سائنس دان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ نتائج ابتدائی ہیں اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ موجودہ ڈیٹا میں 0.3 فی صد امکان ہے کہ یہ سگنلز شماریاتی شور کی وجہ سے ہوں، جو کہ سائنسی طور پر کسی دریافت کی تصدیق کے لیے درکار معیار سے کہیں زیادہ ہے۔

کیا اس کائنات میں واقعی ہم اکیلے نہیں۔۔ کیا خلائی مخلوق واقعی موجود ہے؟

تو فی الحال اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت کوئی بھی یقین سے یہ نہیں کہہ سکتا۔ تحقیق میں شامل و دیگر سائنس دان سب کو احتیاط برتنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ فی الوقت حتمی بات یہ ہے کہ دستیاب ڈیٹا صرف ممکنہ حیاتیاتی عمل کی علامت ہے، یہ کسی جاندار مخلوق کی براہِ راست دریافت نہیں۔

اس بارے میں یقینی طور پر کچھ کہنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ یہ کام جلد شروع ہونے والا ہے۔

تو، کیا کائنات ہمیں پکار رہی ہے؟ شاید۔۔ اور یہ پکار صرف دوربینوں کی نہیں، انسانی تجسس کی سب سے خوبصورت بازگشت ہے۔

کیا آپ سن رہے ہیں؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close