ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں، انہیں لانے والوں سے ہے. نواز شريف

نیوز ڈیسک

پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے بلائی گئی اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ہمارا اصل ہدف عمران خان نہیں ہے، بلکہ ہمارا مقابلہ ان کو لانے والوں سے ہے

لندن سے اے پی سی میں بذریعہ ویڈیو لنک شریک ہونے والے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ اے پی سے جو بھی لائحہ عمل طے کرے گی مسلم لیگ ن اس کا بھرپور ساتھ دے گی۔ روایت سے ہٹ کر حقیقی تبدیلی کے لیے لائحہ عمل طے کریں۔

علاج کے لیے لندن روانگی کے بعد پہلی مرتبہ باضا بطہ کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے والے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کہا کہ اختیار چند لوگوں کو دے دینا بددیانتی ہے۔ دکھ کی بات ہے معاملہ ریاست سے اوپر تک پہنچ چکاہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کے ووٹوں سے جمہوری حکومت بننے پر ہاتھ پاؤں باندھ دئیے جاتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں 33 سال کا عرصہ فوجی آمریت کی نذر ہو گیا۔ 73سالہ تاریخ میں ایک بار بھی کسی منتخب وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ ریاستی ڈھانچہ کمزور ہونے کی بھی پروا نہیں کی جاتی، پاکستان کو تجربات کی لیبارٹری اور خارجہ پالیسی کو بچوں کا کھیل بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی ملکی مفادات سے متصادم نہیں ہونی چاہیے

نواز شریف نے کہا کہ ملک بدامنی اور جرائم کا گڑھ بن چکا ہے۔ قوم کی ایک بیٹی کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ دل دہلا دیتا ہے جب کہ حکومت کی تمام ہمدردیاں متاثرہ بیٹی کے بجائے افسر کے ساتھ ہیں

انہوں نے اپنا ایک بار پھر اپنا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ ووٹ کو عزت نہ ملی تو پاکستان معاشی طور پر مفلوج ہی رہے گا۔ آج ملک میں مہنگائی بہت آگے بڑٰھ چکی ہے۔ آج بجلی اور گیس کے بل عوام پر بم بن کر گرتے ہیں ۔ ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسہ دینے والوں نے روزگار چھین لیا۔

نواز شریف نے نیب پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آمر کے بنائے گئے ادارے نیب کو قائم رکھنا ہماری غلطی تھی۔ اس ادارے کا سربراہ جاوید اقبال اپنے اختیارات کا نازیبا استعمال کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور یہ ڈھٹائی سے انتقامی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عمران خان بھی اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ ان کا یوم حساب آئے گا۔ نیب کا ادارہ اپنا جواز کھو بیٹھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کی معاشی ترقی کے ساتھ مسلح افواج کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی ضرورت ہے لیکن ملسح افواج آئین اور قائد اعظم کی تلقین کے مطابق سیاست سے دور رہیں۔

کانفرنس کے شرکا اور ایجنڈا

کانفرنس میں بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کے خطابات بھی اہم ہوں گے، مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی خان، آفتاب شیرپاوٴ بھی خطاب کریں گے۔

کانفرنس میں حکومت کی 2 سالہ کارکردگی پر غور ہوگا ساتھ ہی حکومتی ناکامیوں کو اجاگر کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر تمام جماعتیں حکومت گرانے اور ملک گیر منظم تحریک چلانے کا مطالبہ کریں گی۔

اے پی سی میں گلگت بلتستان الیکشن، گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اور حکومت کی کشمیر پالیسی کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔ مذہبی جماعتیں بھی حالیہ صورتحال پر اپنا موقف سیاسی قیادت کے سامنے رکھیں گی۔

اجلاس میں ایف اے ٹی ایف مسائل، حکومت کی متنازع قانون سازی اور خطے کی بدلتی صورتحال بھی زیر بحث آئے گی۔ جے یو آئی کا چار رکنی وفد مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت کانفرنس میں شریک ہیں۔ جے یوآئی کے وفد میں مولانا فضل الرحمان،اکرم درانی اور عبدالغفور حیدری شامل ہیں۔

تمام 11 جماعتوں سے کم از کم تین تین ارکان کا وفد اے پی سی میں شریک ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کا 13 رکنی وفد اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کررہا ہے۔

یہ پڑھیں : نواز شریف کا ویڈیو لنک کے ذریعے اے پی سی میں شرکت اور خطاب کا فیصلہ

مسلم لیگ ن کے وفد کی قیادت اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کررہے ہیں  جب کہ وفد میں شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور مریم نواز، احسن اقبال، ایاز صادق، پرویز رشید، سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، امیر مقام اور مریم اورنگزیب شامل ہیں۔ مسلم لیگ ن کے وفد میں مزید 2 صوبائی صدور کا اضافہ کیا گیا ہے اوراب مسلم لیگ ن سندھ کے صدر شاہ محمد شاہ اور بلوچستان کے صدر عبدالقادر بلوچ وفد میں شامل ہیں۔

پیپلز پارٹی کے وفد میں بلاول بھٹو زرداری، شیری رحمان، نیر بخاری، راجہ پرویز اشرف، فرحت اللہ بابر،  قمر زمان کائرہ سمیت سینئر ارکان شریک ہیں۔

یہ خبر بھی دیکھیے: سرداراختر مینگل اپوزیشن کی اے پی سی میں شریک نہیں ہوں گے

اے پی سی کے لیے پیپلز پارٹی کی تجاویز تیار

پیپلز پارٹی نے اے پی سی کے لیے اپنی تجاویز تیار کرلیں۔ پارٹی کے ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیراعظم، اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعلی پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تجویز پیش کی جائے گی، پیپلز پارٹی تمام تجاویز اے پی سی کے سامنے رکھے گی، اگر جماعتوں نے حمایت کی تو باضابط تحریک جمع کرائی جائے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ اے پی سی میں رہبر کمیٹی کی طرز پر کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز بھی دی جائے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close