کوپ 28: فوسل فیول ترک کرنے پر اتفاق تو ہو گیا، لیکن کیا اس پر عمل ہو پائے گا؟

ویب ڈیسک

دبئی میں اقوام متحدہ کے کلائمٹ سمٹ (کوپ 28) میں لگ بھگ دو سو ملکوں نے ایک نئے معاہدے کے تحت پہلی بار فوسل فیول کا استعمال ترک کرنے پر اتفاق کیا ہے

کئی ملکوں کا مطالبہ تھا کہ فوسل فیول (کوئلے، تین اور گیس) کے استعمال کو مکمل طور پر مرحلہ وار ترک کیا جائے لیکن اس معاہدے میں متفقہ طور پر ایسا نہیں کہا گیا۔ سب سے زیادہ مہلک گرین ہاؤس گیسز میں سے ایک میتھین کا معاہدے میں ذکر نہیں

تاہم کوپ 28 کے صدر سلطان الجبر نے کہا ”ملکوں نے حقیقت کا سامنا کیا اور دنیا کو صحیح سمت میں بھیجا“

واضح رہے کہ اب اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں رہی کہ فوسل فیول یا حیاتیاتی ایندھن کو جلانا گلوبل وارمنگ کی وجہ بنتا ہے اور اس سے لاکھوں زندگیاں خطرے میں پڑتی ہیں۔ لیکن اس بار اہم بات یہ ہے کہ اس سے قبل عالمی حکومتوں نے کبھی بھی اجتماعی طور پر ان کا استعمال ترک کرنے پر اتفاق نہیں کیا تھا

ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ جزیروں نے اس معاہدے پر تنقید کی ہے۔ سامووا کی نمائندہ نے کہا کہ جب معاہدے پر اتفاق ہوا تو ’وہ کمرے میں نہیں تھیں‘

دوسری جانب ماحولیاتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ ناکافی ہے۔ جیسے گرین پیس نے کہا کہ اس معاہدے سے قابل تجدید ایندھن پر منصفانہ اور برق رفتار منتقلی ممکن نہیں ہوگی

معاہدے میں ترقی یافتہ ملکوں سے یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ فوسل فیول کو ترک کرنے کے عمل کی سربراہی کریں، حتیٰ کہ ماضی میں اس کے استعمال سے سب سے زیادہ فائدہ انھیں ہی ہوا

ماحولیات پر کام کرنے والے بعض سائنسدانوں کی رائے میں یہ ’بے بی سٹیپس‘ ہیں جبکہ کچھ کے مطابق یہ معاہدہ کلائمٹ سائنس کی صحیح عکاسی نہیں کرتا۔

اس اہم معاملے پر اتفاق تو ہو گیا ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کے حوالے سے اب بھی کئی سوالات اور شبہات موجود ہیں

انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (آئی ای اے) کی پیشگوئی ہے کہ چاہے حکومتیں نئی کلائمٹ پالیسی تشکیل دیں یا نہ دیں، 2025 میں فوسل فیول کا استعمال اپنی بلند ترین سطح کو پہنچ جائے گا

کینیڈین سائنسدان واسلو سمیل کے بقول عالمی معیشت میں توانائی کوئی ایک پہلو نہیں جیسے اسٹیل، تجدید یا انفارمیشن ٹیکنالوجی۔ ان کے مطابق ’یہی معیشت ہے۔‘

ان کی رائے ہے کہ ’معیشت سے مراد یہ ہے کہ آپ توانائی کی ایک قسم کو دوسری قسم میں تبدیل کریں۔ توانائی کے بغیر معیشت کا تصور نہیں۔‘

وہ اس حوالے سے اتنے مطمئن نہیں کہ آپ آسانی سے ان فوسل فیولز سے چھٹکارہ حاصل کر لیں گے جو زمین کو گرما رہے ہیں۔ ’ہم فوسل فیول سے بنی سوسائٹی ہیں۔‘

انھوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسی ایندھن کی مدد سے سالانہ ایک ارب ٹن سٹیل، چار ارب ٹن سیمنٹ، چار ارب ٹن مائع ایندھن بنتا ہے۔ یعنی ہم کچھ بھی کریں، اس کے لیے فوسل فیول درکار ہوتے ہیں۔

انسانوں کو زمین پر قریب تین لاکھ سال گزر چکے ہیں اور ان میں سے دو لاکھ 99 ہزار برس سخت محنت اور غربت میں گزرے ہیں۔

یہ چیزیں 19ویں صدی میں تبدیل ہونا شروع ہوئیں جب ہم نے فوسل فیول کے وسائل کا استحصال شروع کیا۔ کوئلے، تیل اور گیس کے استعمال سے صنعتی انقلاب آیا اور معاشی پیداوار میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

گھوڑوں کی جگہ اسٹیم انجن نے لی اور پھر انٹرنل کمبسچن انجن آئے اور پھر جیٹ انجن۔

اسی دوران انسانوں کی آبادی بڑھتی ہی چلی گئی۔ آئس ایج یا برفانی دور کے اواخر میں ہماری تعداد صرف 20 لاکھ تک تھی۔ صنعتی انقلاب کے شروع میں ہم ایک ارب تھے اور اب آٹھ ارب۔

بے انتہا پیداوار کا مطلب تھا کہ ہم میں سے اکثر لوگ خوشحال رہ سکیں گے اور ہمارے بزرگوں کو صحت کی سہولیات ملیں گی۔

پروفیسر سمیل کا اندازہ ہے کہ شکار کرنے والے ہمارے آباواجداد پورے سال میں 10 گیگا جولز توانائی استعمال کرتے تھے۔ ایک اوسط امریکی اس کا 50 گنا استعمال کرتا ہے۔

مختصر یہ کہ ہمارا بنایا گیا توانائی کا پہاڑ کوئی عام پہاڑ نہیں بلکہ ماؤنٹ ایورسٹ ہے۔

فوسل فیول کا استعمال اپنے عروج کو پہنچ رہا ہے اور ہمیں 80 فیصد توانائی انھیں ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔

توانائی کے آئندہ انقلاب کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہے۔ قابل تجدید ذرائع توانائی میں ہمیں سب سے زیادہ امید ہوا اور شمسی توانائی سے ہے۔

آئی ای اے کے اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں ان دونوں ذرائع سے بجلی کی مجموعی پیداوار قریب 12 فیصد تھی۔ یہ بڑا اضافہ اس لیے ہے کیونکہ کچھ دہائیوں قبل تک ان کا وجود اس طرح سے نہیں تھا۔

قریب 50 فیصد بجلی آج بھی کوئلے، تیل اور گیس سے حاصل ہوتی ہے۔ جبکہ بجلی تونائی کے عالمی استعمال کا محض پانچواں حصہ ہے۔

توانائی کی عالمی سپلائی میں سولر اور ونڈ کا قریب دو فیصد حصہ ہے۔

فوسل فیول کے بڑھتے استعمال کی وجہ قابل تجدید ذرائع کی طرف منتقلی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ دنیا کا پاور سٹیشن، سٹیل ورکس، سیمٹ کے بھٹے، فرٹیلائزر پلانٹ، گلاس فیکٹری، جہازوں اور گاڑیوں پر انحصار بہت بڑھ چکا ہے۔

’ہر چیز بجلی پر چلانا ہوگی‘
تو کیا ان سب کے بغیر زندگی ممکن ہے؟ برطانیہ میں ماحول کے نگراں ادارے کے سربراہ کرس اسٹارک اس حوالے سے زیادہ پُرامید ہیں۔

انھوں نے کہا کہ فوسل فیول کا استعمال ترک کرنے پر ہمیں قریب ہر چیز بجلی سے چلانی ہوگی کیونکہ بجلی سے چلنے والی چیزیں توانائی کے اعتبار سے زیادہ کفایت شعار ہوتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آپ کی گاڑیں کے بونٹ سے خارج ہونے والی حرارت کے بارے میں سوچیں۔ یہ توانائی کا ضیاع ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں میں ایسا نہیں ہوتا۔‘

اسی چیز گیس بوائلر سے ہر یونٹ توانائی کے بدلے ایک یونٹ حدت ملتی ہے۔ بجلی سے چلنے والے ہیٹ پمپ تین گنا مؤثر ہیں۔

اسٹارک کا خیال ہے کہ چیزوں کو بجلی پر منتقل کرنے سے آپ فوسل فیول کے پہاڑ کو کچھ کم کر سکتے ہیں اور طلب میں کمی لا سکتے ہیں۔

اسٹارک کے مطابق آج کے دور میں قابل تجدید بجلی اکثر سستی ہے لہذا اس منتقلی سے کافی پیسے بھی بچیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے کسی بڑی سرکاری سبسڈی کی ضرورت نہیں بلکہ نجی کمپنیاں اس کا بوجھ اٹھا سکتی ہیں۔

مگر قابل تجدید توانائی کے ذرائع میں منتقلی کے اخراجات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ جیسے جب آپ سولر پینل کا ونڈ ٹربائن نصب کرتے ہیں۔ پیسے اس لیے بچتے ہیں کیونکہ توانائی کے ذرائع، سورج اور ہوا، مفت ہیں۔

یہی اخراجات غریب ممالک کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہوں گے جو بمشکل مہنگے منصوبوں پر کام کر پاتے ہیں۔

مگر باربیڈوس کی وزیر اعظم میا موٹلی کی کوششوں کی بدولت اس حوالے سے بھی پیشرفت ہوئی ہے۔

ان کی ٹیم کے مطابق جرمنی میں سولر فارم کے لیے سرمایہ کاروں کے چار سے پانچ فیصد سود پر قرض ملتا ہے مگر زامبیا میں یہ 20 فیصد کے قریب ہے۔

مس موٹلی کا خیال ہے کہ شرح سود کو نیچے لایا جاسکتا ہے اور انھیں اس حوالے سے ورلڈ بینک کی حمایت حاصل ہے۔ ورلڈ بینک ہی وہ ادارہ ہے جو ترقی پذیر ملکوں کی مدد کرسکتا ہے۔

ان کے مطابق اگر ورلڈ بینک ترقی پذیر ملکوں میں قابل تجدید ذرائع توانائی پر سرمایہ کاری کرے تو اس سے بینک اور دیگر کمرشل ادارے کھربوں ڈالر کے قرضے جاری کر سکیں گے۔

تو ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی پیشگوئی کے مطابق 2030 سے توانائی کی عالمی سپلائی میں سے فوسل فیول کا حصہ کم ہو کر 73 فیصد پر آجائے گا جو کئی دہائیوں سے 80 فیصد کے لگ بھگ ہے۔

آئی اے ای فاتح بيرول کا کہنا ہے کہ ’کلین انرجی پر منتقلی کے عمل کو روکا نہیں جاسکتا۔ ’یہ سوال ’اگر مگر‘ کا نہیں بلکہ ’کتنی جلدی‘ کا ہے۔ جتنا جلدی ہو اتنا ہمارے لیے بہتر ہوگا۔‘

مگر آپ کو یہ یاد رکھنا پڑے گا کہ یہ پہاڑ بہت بڑا ہے۔ ہمیں زمین پر ہر کسی کے پاس پڑی ہر چیز کو بجلی سے چلانا ہوگا اور یہ سب ایک بار میں ہی کرنا ہوگا۔ سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہمارے پاس محض کچھ دہائیاں باقی ہیں۔

اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ ہم 28ویں کوپ کانفرنس تک اس مسئلے کو حل کیوں نہیں کر سکے، تو یہی آپ کا جواب ہے۔

 

کراچی کی اراضی سے بھی بڑا برفانی تودا تیس سال کے جمود کے بعد حرکت میں کیسے آیا؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close