28 اگست 1963ع کا دِن اس لحاظ سے ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے کہ اس دِن امریکا کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد اجتماع منعقد ہوا تھا
صبح ہی سے واشنگٹن کی سڑکوں پر جگہ جگہ سیاہ فام دکھائی دے رہے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی، اس تاریخی اجتماع کو میڈیا نے بھی کوریج دینے کا آغاز کر دیا۔ چند گھنٹوں میں ہی شرکاء کی تعداد ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی
سیاہ فاموں کا نوجوان رہنما مارٹن لوتھر کنگ جلسہ گاہ پہنچا، تو اس کا بھرپور استقبال کیا گیا۔ امریکی حکومت بھی اس اجتماع کا بغور جائزہ لے رہی تھی، خبروں میں بار بار اس کا تذکرہ ہو رہا تھا اور جب مارٹن لوتھر کنگ نے مائیک سنبھالا تو یہ منظر میڈیا پر براہِ راست دِکھایا جا رہا تھا
لوتھر کنگ نے دھیمے اندازمیں کہا ’’میرا ایک خواب ہے‘‘ اور پھر تیز آواز میں دہرایا: ’’میرا خواب ہے کہ جارجیا کی سرخ پہاڑیوں کے دامن میں ایک دن سفید فام آقاؤں اور سیاہ فام غلاموں کے وارث ایک دوسرے سے گلے ملیں، میرا ایک خواب ہے کہ میرے بچے اپنے رنگ کے بجائے اپنے کردار سے پہچانے جائیں، میرا اک خواب ہے کہ۔۔۔۔‘‘ وہ بولتا رہا اور لوگ پوری توجہ سے اس کو سن رہے تھے۔ لوتھر کنگ جونیئر کی اس تقریر نے سب کو ہلا کر رکھ دیا، ان کی اس تقریر کو امریکی تاریخ کی تیسری عظیم ترین تقریر کہا جاتا ہے
سوال یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب سوشل میڈیا نہیں تھا اور ابلاغ کے دیگر ذرائع بھی تیز رفتار نہیں تھے تو پھر ایک آدمی کی آواز پر ڈھائی لاکھ لوگ کیسے اکٹھے ہوگئے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ مارٹن لوتھر کنگ کا ’’کیوں؟‘‘ (Why) یعنی ان کی جدوجہد کا مقصد بہت واضح تھا۔ ان کی I have a dream کی صدا اگر آج بھی امریکیوں کے ذہنوں میں گونج رہی ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک واضح مقصد اور موقف کی جنگ لڑ رہا تھا، جس میں سیاہ فام انسانوں کو برابری کی سطح پر لانا تھا
2009ء میں برطانوی نژاد امریکی انسپائریشنل اسپیکر اور کئی مقبول کتابوں کے مصنف، سائمن سائنک نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے: “Start with Why” ۔ NDP ریسرچ کمپنی کے مطابق لیڈرشپ کے موضوع پر یہ ایک بیسٹ سیلر کتاب رہی ہے۔ اس کتاب میں سائمن سائنک نے ایک بنیادی نفسیاتی پہلو پر بات کی ہے۔ سائمن سائنک بتاتا ہے کہ کسی بھی انسان کا Why جس قدر واضح ہوتا ہے، اسی قدر وہ اپنے مشن اور موقف میں کامیاب ٹھہرتا ہے۔ کتاب کا اہم ترین نکتہ ’’گولڈن سرکل‘‘ ہے۔ اس سرکل میں تین دائرے ہیں۔ پہلا دائرہ What کا ہے ، اس کے اندر دوسرا دائرہ How کا ہے اور آخر میں Why کا دائرہ ہے
وہ بتاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کوئی شخص جب کوئی کام کرتا ہے، تو وہ What سے آغاز کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ How کے دائرے پر جاتا ہے اور آخر میں Why پر.. مثال کے طور پر ایک نوکری پیشہ شخص سے اگر پوچھا جائے کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ تو وہ کہتا ہے کہ نوکری۔ یہ پہلے دائرے What کاجواب ہے۔ پھر اگر پوچھا جائے کہ کون سی نوکری تو اس میں وہ بتاتا ہے کہ میں فلاں ملازمت کرتا ہوں اور اس میں مجھے یہ یہ کام اس طریقے سے کرنے پڑتے ہیں۔ یہ دوسرے دائرے How کا جواب ہے۔
سائمن سائنک بتاتا ہے کہ ہمارے ہاں بہت سارے لوگ Why کو نظر انداز کر دیتے ہیں، حالانکہ یہ ایک ایسا پہلو ہے کہ اگر اسی کی بنیاد پر کوئی کام شروع کیا جائے، تو وہ بہت جلد مقبول ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال رائٹ برادران کا جہاز ایجاد کرنے کا واقعہ ہے۔ اسی زمانے میں ایک اور شخص سیموئیل بھی تھا اور وہ بھی جہاز ایجاد کرنے کے پراجیکٹ پر کام کر رہا تھا۔ اس کے پاس باقاعدہ ایک کمپنی اور پروفیشنل ٹیم تھی۔ اس کی کمپنی کو فنڈنگ بھی کی گئی تھی، تاکہ ایک ایسی چیز ایجاد کی جا سکے، جس کی بدولت انسان ہوا میں اڑ سکے، لیکن سیموئیل کے پاس اپنے اس کام کے کرنے کا Why نہیں تھا
وہ یہ سب کچھ صرف اس لیے کر رہا تھا کہ وہ اس کریڈٹ کو اپنے نام کر سکے، کہ دنیا میں سب سے پہلے اسی نے ایک ایسی چیز ایجاد کی تھی جس کے ذریعے انسان ہوا میں اڑ سکتا ہے۔ باالفاظ دیگر وہ پیسہ اور شہرت کمانا چاہتا تھا۔ اس کے برعکس رائٹ برادران کے پاس فنڈنگ تھی، نہ ہی بھرپور وسائل اور نہ ہی کوئی پروفیشنل ٹیم۔ لیکن اس کے باوجود وہ جہاز ایجاد کرنے میں کامیاب ہوگئے، کیونکہ ان کا Why بہت واضح تھا۔ یہ ان کا جنون تھا کہ ہم نے ایسی ایک مشین ایجاد کرنی ہے، جس سے انسانیت کو بھرپور فائدہ ہو اور اسی جذبے نے انہیں کامیاب بھی کیا
آپ نے اسٹار بکس کا نام تو سنا ہوگا؟ دنیا کا ایک مشہور کافی برانڈ.. لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کی اصل وجہ شہرت کیا ہے؟ اسٹار بکس کے بارے میں تو سب کو معلوم ہے کہ یہ برانڈ کیا کرتا ہے اور کیسے کرتا ہے، یعنی اس کے What اور How کے بارے میں علم ہے، لیکن بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ ’’اسٹاربکس‘‘ یہ کام کیوں کر رہا ہے۔ ’’اسٹار بکس‘‘ کا مقصد اپنے صارفین کو گھر اور دفتر کے علاوہ ایک ایسا ماحول فراہم کرنا ہے، جس میں بیٹھ کر وہ کافی پیئیں، کتاب پڑھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ کریں۔ یہ اسٹار بکس کا Why ہے اور اسی مضبوط Why کی بدولت وہ دنیا بھر میں مقبول ہوا۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ اسکول کے زمانے میں اساتذہ اپنے طلبہ کو کتاب کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں کہ فلاں فلاں کتاب پڑھیں۔ بچے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ کچھ دِن بعد ٹیچر پھر پوچھتا ہے اور تاکید کے ساتھ کہتا ہے کہ فلاں کتاب ضرور پڑھیں، لیکن طلبہ کے اندر کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ کیوں؟ کیوں کہ استاد یہ تو بتاتا ہے کہ کتاب پڑھیں یعنی وہ What کے بارے میں بتا رہا ہے لیکن Why کے بارے میں نہیں بتا رہا کہ یہ کتاب کیوں پڑھی جائے
اس کے برعکس کسی موٹیویشنل شخصیت کے ایک دفعہ کہنے پر لوگ کتاب پڑھنا شروع کر دیتے ہیں، کیونکہ وہ Why سے آغاز کرتا ہے۔ وہ اپنی تقریر میں بتاتا ہے کہ کیا آپ اپنے آپ کو ایک باوقار شخصیت بنانا چاہتے ہیں؟ کیا آپ ایسی تکنیک جاننا چاہتے ہیں جو آ پ کو ایک بہترین گفتگو کرنے والا بنائے اور لوگ آپ کی باتوں میں دلچسپی لیں اور آپ کو سننا چاہیں؟ اگر آپ یہ چاہتے ہیں توڈیل کارنیگی کی کتاب The Art of Public Speaking پڑھیں اور لوگ اس کتاب کو پڑھنا شروع بھی کر دیتے ہیں
گولڈن سرکل کا اصول ہر آرگنائزیشن میں بھی عمل پیرا ہوتا ہے۔ کسی بھی ادارے میں تین قسم کے افراد ہوتے ہیں: اسٹاف ، مینجرز اور سی ای او۔ اسٹاف ، اس کمپنی کے What والے سرکل پر چلتا ہے۔ اس کو پتا ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کام کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹاف میں سے کوئی فرد چلا جائے، تو اس سے کمپنی کو زیادہ فرق نہیں پڑتا اور بہت جلد اس کا متبادل مل جاتا ہے
منیجرز دوسرے سرکل How پر چلتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اسٹاف سے کام کیسے لینا ہے۔ ان کے جانے سے اگرچہ کمپنی کو وقتی طور پر فرق پڑتا ہے، لیکن اس کمی کو بھی پورا کر لیا جاتا ہے۔ تیسرے نمبر پر CEO ہوتے ہیں، جو کہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ گولڈن سرکل کے تیسرے حصے Why پر کام کرتے ہیں، یعنی وہ جانتے ہیں کہ ہم نے یہ کام کیوں کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر سی ای او کمپنی کو چھوڑ دے تو پھر کمپنی بھی نہیں بچتی
سائمن سائنک بتاتا ہے کہ گولڈن سرکل رول ایڈورٹائزمنٹ کے شعبے میں بھی بھرپور طریقے سے استعمال ہوتا ہے۔آج سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر اشتہارات کی بھرمار ہے۔ ہر کمپنی اپنے اشتہارات پر کروڑوں روپے لگاتی ہے اور ان کی سب سے بڑی کوشش اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ صارفین کی زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کر سکیں، کیونکہ یہ ان کے بزنس کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ بہت ساری کمپنیاں What کے سرکل پر عمل کرتے ہوئے اپنی کمپنی کی ایڈورٹائزمنٹ کرواتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ یہ ہماری کمپنی کا موبائل فون ہے، اس میں اتنے میگاپیکسلز کا کیمرہ، بیٹری اور فلاں فلاں فیچر ہے اور یہ آپ کو دوسرے موبائل سے کم قیمت میں مل سکتا ہے۔ اس کے برعکس کچھ کمپنیاں گولڈن سرکل کے Why والے رول پر اپنی ایڈورٹائزمنٹ کرواتی ہیں
مثال کے طورپر ایک فرنیچر کمپنی اپنے اشتہار میں یہ بتاتی ہے کہ ہماری تیار کردہ کرسی آرام دہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کو کمر کے درد سے بھی بچاتی ہے اور اس کے استعمال سے آپ کمر کے درد کا شکار نہیں ہوں گے۔ تو ایسے اشتہارات لوگوں کے دِلوں کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ وہ ایسی مصنوعات کو پسند کرتے ہیں اور انہیں خریدنا چاہتے ہیں، پھر وہ اس کی بھی پروا نہیں کرتے کہ اس کی قیمت دوسری کمپنی سے زیادہ ہے
سائمن سائنک کتاب میں Manipulate اور Inspiring کا فلسفہ بھی بتاتے ہیں ۔وہ تمام کمپنیاں جو Manipulation سے کام لے کر اپنے صارفین بناتی ہیں، یعنی پراڈکٹ کی قیمت کم کرکے یا کوئی اور لالچ دے کر اپنی چیزیں بیچنا چاہتی ہیں، وہ وقتی طور پر فائدہ تو حاصل کر لیتی ہیں، لیکن بہت جلد وہ نقصان بھی اٹھاتی ہیں اور ان کا روزگار زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا، جبکہ وہ کمپنیاں جو لوگوں میں حقیقی طور پر تحریک پیدا کر کے اپنی مصنوعات بیچتی ہیں، تو ان کا کاروبار کبھی ماند نہیں پڑتا۔ مصنف کہتا ہے کہ اگر آپ نے اپنے بزنس کو پروان چڑھانا ہے تو آپ کو ہیراپھیری سے نہیں، بلکہ اپنی بنیادی اقدار سے کام لینا ہوگا۔ لوگوں کو انسپائر کرنا ہوگا اور یہی لیڈرز کا طریقہ بھی ہے
⬛ اہم نکات
▪️کتاب Start with Why کا بنیادی مقصد یہ ہے، کہ ہر انسان گولڈن سرکل کو اپنی زندگی میں استعمال کرے، لیکن پہلے دائرے (What) اور دوسرے دائرے (How) کی طرف نہ جائے، بلکہ (Why) سے شروع کرے۔ لوگوں میں مقبول ہونے کا یہی راز ہے
▪️آپ نوکری کر رہے ہیں، کاروبار کررہے ہیں یا فری لانسنگ۔ اپنے Why کو ہمیشہ واضح اور بڑا رکھیں۔ آ پ کا Why جتنا بڑا ہوگا، آپ کی اہمیت بھی اتنی ہی بڑی ہوگی
▪️کبھی بھی اپنی چیز بیچنے کے لیے ہیرا پھیری (Manipulation) سے کام نہ لیں۔ یہ چیز شاید وقتی فائدہ دے، لیکن آپ زیادہ دیر تک اپنی کامیابی برقرار نہ رکھ پائیں گے اور دھڑام سے گریں گے
▪️جوش و جذبہ انسان کو متحرک تو کردیتا ہے لیکن یہ بہت جلد ختم بھی ہو جاتا ہے ۔آپ اگر ایک بڑا لیڈر بننا چاہتے ہیں تو اپنے سامعین میں جوش و جذبہ پیداکرنے کے بجائے انہیں ٹھوس اقدامات اور ان کے واضح نتائج بتائیں، تو یہ چیز انہیں لمبے عرصے تک متحرک رکھے گی.
(قاسم علی شاہ کے ایک مضمون سے اقتباس)