ناروے میں مسلمان فاتح صلاح الدین ایوبی کا دن کیوں منایا جاتا ہے؟

ویب ڈیسک

کیا آپ جانتے ہیں کہ ناروے میں، جو کہ ایک عیسائی ملک ہے، آخر کیوں بارہویں صدی کے اس مسلمان فاتح سلطان صلاح الدین ایوبی کا دن منایا جاتا یے، جس نے عیسائیوں کو شکست دے کر یروشلم حاصل کیا تھا؟

ٹھیک 833 برس قبل، وہ دو اکتوبر 1187ع کی تاریخ اور جمعے کا دن تھا، جب شہرِ یروشلم میں تقریباً نو دہائیوں کے وقفے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں ایک بار پھر مسلمانوں کی حکمرانی کا دور شروع ہوا تھا

یروشلم جنگ کے بجائے ایک محاصرے کے بعد شہر کے مسیحی منتظمین اور صلاح الدین ایوبی کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں مسلمانوں کے حوالے کیا گیا تھا۔

دورانِ محاصرہ، شہر کے عیسائی صلاح الدین ایوبی کی طرف سے بدترین مظالم کی توقع کر ریے تھے.. کیونکہ یہ وہی یروشلم تھا، جس پر 1099ع میں جب صلیبیوں نے قبضہ کیا تھا، تو شہر میں ان کے داخلے کے موقع پر یہاں ہر طرف لاشیں تھیں اور مرد، عورتیں اور بچے کوئی فاتحین کی تلواروں سے محفوظ نہیں تھا۔ خود، مصنف جسٹن ماروزی نے اپنی کتاب "اسلامی سلطنتیں: 15 شہر، جو ایک تہذیب کو بیان کرتے ہیں” میں یروشلم کے بارے میں باب میں مسیحی ذرائع کا حوالے دیتے ہوئے صلیبیوں کی فتح کے بعد شہر کے مناظر بیان کیے ہیں۔ انہوں نے صلیبیوں کے رویے کی مثال کے طور پر ان کے ایک عہدیدار کا بیان نقل کیا ہے، "زبردست مناظر تھے۔ ہمارے فوجیوں نے دشمنوں کے سر قلم کر دیے۔۔۔۔۔۔ کچھ کو زیادہ تکلیف دینے کے لیے آگ میں جھونکا گیا۔ گلیوں میں سروں، کٹے ہوئے پیروں اور ہاتھوں کے ڈھیر تھے۔”

لیکن جب صلاح الدین ایوبی نے یروشلم پر فتح پائی، تو عیسائیوں کے دلوں میں مسلمانوں کی طرف سے انتقام لیے جانے کے وہ خدشات یکسر غلط ثابت ہوئے، جو عیسائیوں کے ماضی میں کیے گئے مظالم کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے.

اس بارے میں عیسائی مؤرخ جانتھن فلپس سلطان صلاح الدین کی زندگی پر اپنی کتاب ‘دی لائف اینڈ لیجنڈ آف سلطان سلاڈن’ میں لکھتا ہے "یروشلم کے مسیحی شہریوں کو کچھ ایسا دیکھنے کو نہیں ملا جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔ مسلمانوں کے محاصرے کے دوران یروشلم کی خواتین نے اپنے بال کٹوا دیے تھے کہ وہ فاتح فوج کے سپاہیوں کی نظروں میں نہ آئیں لیکن یروشلم پر مکمل فتح اور غلبہ پانے کے بعد سلطان صلاح الدین نے خاص طور پر عورتوں کے معاملے میں رحم دلی کا مظاہرہ کیا”

یہاں یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے ک کیا ان کا یہ جذبہ واقعی سچا تھا؟
غیر جانبدار مؤرخین کا خیال ہے کہ حالات اس بات کے گواہ ہیں کہ واقعتاً ایسا ہی تھا، کیونکہ وہ چاہتے تو ان کو فروخت یا اپنے فوجیوں کے حوالے بھی کر سکتے تھے

عیسائی مؤرخین یروشلم پر سلطان صلاح الدين ایوبی کی فتح کے بعد کے مناظر یوں بیان کرتے ہیں:
شہر کا ہر باسی معاہدے میں طے کی گئی رقم ادا کر کے آزادی سے کسی دوسرے مسیحی علاقے میں جا سکتا تھا۔ جو لوگ پہلے ہونے والے ممکنہ ظلم کا سوچ کر پریشان تھے اب ان کا خوف ختم ہو چکا تھا. دو اکتوبر کے دن اور آنے والے کئی ہفتوں تک شہر سے لوگ رقم ادا کر کے جاتے رہے۔ جو نہیں ادا کر سکتے تھے وہ مدد مانگتے رہے اور ان میں سے ہزاروں کی مدد خود سلطان صلاح الدین ایوبی اور ان کے بھائی سیف الدین نے ذاتی طور پر ان کی طرف سے رقم ادا کر کے کی اور بہت سے غرباء کو شہر کے سابق مسیحی حکمرانوں کی درخواست پر بغیر رقم  لیے، جانے دیا گیا۔

یروشلم کی فتح کے موقع پر سلطان صلاح الدین ایوبی نے ہر اس اندازے کو غلط ثابت کیا جو شاید ماضی میں اس شہر میں ہونے والے واقعات کی بنیاد پر قائم کیے گئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اسی یورپ میں جہاں انھیں اپنے زمانے میں’خون کا پیاسا’ کہا گیا تھا، وہاں بیسویں اور اکیسویں صدی میں ہیرو کا درجہ بھی دیا گیا۔

سنہ 1187ع میں یروشلم کی فتح سے تیسری صلیبی جنگ میں اس کے کامیاب دفاع کا باب تقریباً پانچ برسوں پر محیط ہے، وہ صلیبی جنگ جس میں مغربی یورپ کے بڑے بڑے بادشاہ خود شریک ہوئے اور یورپ بھر سے لوگوں کو جنگ میں شرکت پر مائل کرنے کے لیے سلطان کی بدترین سے بدترین شبیہ پیش کی گئی، لیکن جنگ کے لیے آنے والے نہ صرف یروشلم حاصل کرنے میں ناکام رہے بلکہ سلطان کی ایک مختلف اور مثبت تصویر لے کر واپس گئے جو تمام تر منفی پراپیگنڈے کے باوجود آج تک قائم ہے۔

مثال کے طور پر ناروے کا ایک ادارہ ہاؤس آف لٹریچر، جو سنہ 2009ع سے مسلسل ‘بین الاقوامی سیلاڈن ڈے’ (یومِ صلاح الدین) منا رہا ہے.

ادارے کی رکن اور صلاح الدین ڈے کی کیوریٹر اشلد لاپےگارد لاہن سے جب پوچھا گیا کہ ناروے میں کسی کو صلاح الدین ڈے منانے کا خیال کیسے آیا؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس خیال کا پہلی بار اظہار سنہ 2008ع میں ناروے کے ایک قومی شاعر ہینریک ویرگے لیند کی 200 سالہ تقریبات کے دوران کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہینریک ویرگے لیند وہ شاعر تھے جنہوں نے ناروے کے آئین میں اس ترمیم کو متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، جس کے بعد یہودیوں کو اس ملک میں آنے کی اجازت ملی تھی۔ وہ مذہبی رواداری کی علامت سمجھے جاتے ہیں

اشلد لاہن نے بتایا کہ سنہ 2008ع میں اس تقریب کے دوران ناروے کے ایک مصنف تھوروالد سٹین نے تجویز پیش کی کہ ویرگے لیند کی سوچ کو آگے بڑھانے کے لیے ہمیں صلاح الدین کی یاد میں بھی ایک دن منانا چاہیے، کیونکہ انہوں نے یروشلم کی فتح کے موقع پر جس کردار کا مظاہرہ کیا تھا وہ یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں کے مل کر رہنے کے بارے میں ایک سبق ہے

اشلد لاہن نے بتایا کہ ‘ناروے کی طرح شاید یورپ میں بھی بہت کم لوگ صلاح الدین کے بارے میں جانتے ہیں اور جو جانتے بھی ہیں، ان کی نظر میں وہ ان کا موازنہ (صلیبی جنگوں کے یورپ میں ہیرو) رچرڈ شیردل سے کرتے ہیں اور ان کے خیال میں صلاح الدین ایک وِلن ہیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ ‘صلاح الدین ڈے’ کے ذریعے ہم پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہر کہانی کے دو رخ ہوتے ہیں۔’

صرف ناروے پر ہی کیا موقوف، اس شخص کو، جس نے 800 سال پہلے مغرب کو شکست دے کر یروشلم کو فتح کیا تھا، برطانیہ میں بھی ایک مثالی کردار کے طور پر یاد کیا گیا۔ برطانیہ کی رائل نیوی نے پہلی عالمی جنگ کے دوران ایک جنگی جہاز کو ’ایچ ایم ایس سیلاڈن‘ کا نام دیا اور پھر سنہ 1959 اور 1994 کے درمیان برطانوی فوج نے ’سیلاڈن‘ کے نام سے ایک بکتر بند گاڑی بھی بنائی۔ یہ وہی برطانیہ ہے جہاں سے انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل نے تیسری صلیبی جنگ میں مسیحی فوج کی قیادت کی تھی۔

سلطان صلاح الدین ایوبی کے اعزاز میں انگلینڈ کی فوجی بکتر بند گاڑی ملک کے نورفوک ٹینک میوزیم میں رکھی ہے۔ میوزیم سے رابطے پر انھوں نے تصدیق کی اس بکتر بند گاڑی کا نام ’سیلاڈن‘ سلطان صلاح الدین کے نام پر ہی رکھا گیا ہے۔

جانتھن فلپس لکھتے ہیں کہ ’میں کہوں گا کہ تاریخ میں کوئی اور ایسی مثال تلاش کرنا ناممکن ہے جس میں ایک شخص نے کسی قوم اور مذہب کے ماننے والوں کو اتنی چوٹ پہنچائی ہو اور پھر بھی وہ ان میں مقبول ہو گیا ہو۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close