”تیزی سے پھیلتے صحرا“ رہنے کے قابل زمین کو کیسے بچایا جا سکتا ہے؟

ویب ڈیسک

کراچی – دنیا بھر میں صحرا تیزی سے پھیل رہے ہیں اور زمین دھیرے دھیرے بنجر ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں صحرائی اور خشک زمین کو ہرا بھرا کرنے اور زرخیز بنانے کے لیے ماہرین مختلف طریقے اختیار کر رہے ہیں

منگولیا اور چین کے شمال مغربے علاقے کا صحرائے گوبی دنیا کا سب سے تیز رفتاری سے پھیلنے والا صحرا ہے۔ اس کا موجودہ رقبہ بارہ لاکھ مربع کلومیٹر ہے لیکن ہر سال اس کی وسعت میں لگ بھگ چھ ہزار مربع کلومیٹر کا اضافہ ہو رہا ہے

جیسے جیسے یہ صحرا پھیل رہا ہے، ویسے ویسے یہ سرسبز علاقے اور زمینوں سے زرخیزی چھینتے ہوئے ہستے بستے دیہات نگلتا جا رہا ہے۔ لاکھوں لوگ اسی وجہ سے اپنے گھربار چھوڑ کر نقلِ مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں اور اس خطے میں بسنے والے افراد کی تعداد اب محض چند ہزار تک محدود ہو چکی ہے

صحراؤں کے پھیلنے کے اس عمل کو ڈیزرٹیفیکیشن یا صحرائیت کہا جاتا ہے، جس میں زرخیز زمین بنجر ریت میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے۔ گوکہ یہ عمل فطری ہے، لیکن اس کے پھیلاؤ اور اس شدت کا ایک بنیادی کردار انسان بھی ہے

ماہرین عالمی سطح پر صحرائیت کے اس عمل کے درپردہ چار اہم محرکات بیان کرتے ہیں، جن میں اول صنعتی زراعت کے لیے پانی کا بہت زیادہ استعمال، دوئم زیادہ تواتر اور شدت کی خشک سالی، سوئم جنگلات کا کٹاؤ اور چہارم مویشیوں اور جانوروں کی طرف سے چراگاہوں کا بے دریغ استعمال شامل ہیں

ماضی کے زرخیز اور سرسبز علاقے اب بنجر اور ریتلے علاقوں میں تبدیل ہو رہے ہیں، جس کی رفتار انتہائی تشویشناک ہے. اس وقت قریب ایک ارب انسانوں اور جانداروں کروڑوں دیگر اقسام کی زندگیاں شدید خطرات سے دوچار ہیں

اندازوں کے مطابق رواں صدی کے وسط تک زمین کا ایک چوتھائی علاقہ صحرایت کا شکار ہو چکا ہوگا

یہ صورت حال انتہائی خوف ناک ہے، تاہم سائنسدانوں کے مطابق اچھی خبر یہ ہے کہ اس صورت حال کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ بارشوں کے ذریعے صحرا میں زندگی پیدا کرنا اس سلسلے میں ایک غیرمعمولی عمل ہو سکتا ہے

سعودی شہر مکہ کے قریب البضا پروجیکٹ کے تحت ماہرین صحرائی زراعت کا نظام پیدا کر چکے ہیں۔ یوں بارشوں کی مدت سے صحرائی علاقوں کی زندگی کی جانب لوٹایا جا سکتا ہے

البیضا پروجیکٹ کے سابق ڈائریکٹر اور ماہر نیل اسپیکمین کے مطابق، سعودی عرب میں عموماﹰ چھوٹے علاقے میں بہت زیادہ بارش ہوتی ہے اور نتیجہ شہریوں کے زیرِ آب آ جانے کی صورت میں نکلتا ہے،

نیل کہتے ہیں”ہم نے سوچا کہ اگر یہ پانی زمین کے اندر پہنچایا جائے، تو یہ پانی کے ذخیرے کا ایک پائیدار اور طویل المدتی راستہ ہوگا۔ تیزی سے بارش ہو تو زمین پانی جذب نہیں کر سکتی اور یوں بہت سا پانی ضائع ہو جاتا ہے“

اسی خیال کے تحت ماہرینِ زراعت نے مقامی دیہاتیوں کے ساتھ مل کر ڈیم اور ٹیرسز کے ذریعے مغربی سعودی عرب میں چٹانی دیوار بنائی تھی

اب یہاں جب بارش ہوتی ہے، تو یہ پانی جمع کیا جاتا ہے اور اسے وہاں پہنچا دیا جاتا ہے، جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے یا جہاں یہ رفتہ رفتہ زمین کے اندر جذب ہو سکتا ہے

یہی طریقہ صدیوں پہلے جنوبی امریکا میں بھی استعمال ہوتا رہا

ماہرین کے مطابق زیرِ زمین پانی کی موجودگی کی وجہ سے تیس ماہ تک کی خشک سالی کے باوجود بغیر پانی ملے مقامی سعودی علاقوں میں پودے اور درخت زندہ رہے

دوسری جانب شمالی افریقہ میں صحرائیت کے عمل کی روک تھام کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کارگر رہا ہے

زمین کا سب سے بڑا صحرائے صحارہ بھی صحرائے گوبی کی طرح پھیل رہا ہے اور بعض جگہوں پر اس کا پھیلاؤ پچاس کلومیٹر سالانہ تک ہے

یہیں سولر پینلز اور ونڈ فارمز کے ذریعے یہ علاقہ صحرائی پھیلاؤ کو روکنے کی راہ بھی دے رہا ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ صحرا میں سولر پینل نصب کیے جائیں، تو وہ ہوا کو گرم کرتے ہیں، یہ گرمی زمین سے کرہ ہوائی میں پہنچتی ہے اور یوں ٹھنڈی ہوا فضا سے زمین کی سطح کی طرف دائرہ بناتی ہے۔ زمین پر آتے ہوئے یہ ٹھنڈی ہوا آبی بخارات ساتھ لاتی ہے اور یوں یہ آبی بخارات بارش کی صورت میں مقامی علاقے پر برس جاتے ہیں

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر صحارہ خطے کے پانچویں حصے میں بھی سولر پینل اور وِنڈ ٹربائن لگائے جائیں تو یہ اس علاقے میں مجموعی طور پر پانچ سینٹی میٹر زیادہ بارش کا باعث بنیں گے

جبکہ صحرا کے پھیلاؤ کی روک تھام کا ایک اور فطری طریقہ چین میں استعمال کیا گیا ہے اور اب تک یہ خاصا کامیاب رہا ہے

1988ع میں بیجنگ کے شمال مغربی حصے میں کوبوڈی صحرا تیزی سے پھیل رہا تھا، تاہم نمک کی کان کے راستے میں ٹرانسپورٹ کے تحفظ کے لیے وہاں درخت لگانے کا کام شروع کیا تھا۔ درخت لگانے کے عمل نے اس علاقے میں صحرا کا پھیلاؤ روک دیا

اسے دنیا کا سب سے کامیاب ‘ری فارسٹیشن پروگرام‘ کہا جاتا ہے۔ اس طریقے میں درخت براہ راست لگانے کی بجائے پانی کے خصوصی جیٹس کے ذریعے زمین میں پودے لگائے گئے

اس طریقے میں فی پودہ شجر کاری کا وقت دس منٹ سے کم ہو کر دس سیکنڈ رہ گیا۔ اس طریقے میں پانی کی دھاروں کے ذریعے زمین میں سوراخ کیا جاتا ہے اور اس سوراخ میں پودا لگا دیا جاتا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close