اسلام آباد کا نام کس نے اور کیسے تجویز کیا؟

ویب ڈیسک

اسلام آباد – ایوب آباد، ایوب پور، ایوب نگر، الحمرا، اقبال پوٹھوہار، پارس، پاک ٹاؤن، پاک مرکز، پاک نگر، جناح، جناح آباد، جناح برگ، جناح پور، جنت نشان، خانہ آباد، دارالامن، دارالامان، دارالسلام، دارالجمہور، دارالفلاح، حسین آباد، ریاض، عادل نگر، فردوس،گلزار، گلستان، مسرت آباد، ملت آباد، منصورہ، ڈیرہ ایوب، عسکریہ، قائداعظم آباد، قائد آباد، کہکشاں، مدینہ پاکستان، استقلال، الجناح، پاک زار، دارالایوب اور نیا کراچی

دراصل یہ وہ سب نام ہیں جو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے لیے پاکستانی شہریوں کی جانب سے تجویز کیے گئے تھے۔ مگر پاکستان کے دارالحکومت کے لیے ’اسلام آباد‘ کا نام کیسے فائنل ہوا اور یہ کس نے تجویز کیا تھا، یہ کہانی کافی دلچسپ ہے

ایوب خان کی فوجی حکومت نے اپنے قیام کے تین ماہ کے اندر ہی 21 جنوری 1959ع کو ایک کمیشن کا تقرر کیا جس کے سربراہ چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل آغا محمد یحییٰ خان تھے

اس کمیشن کو یہ ذمہ داری تفویض کی گئی کہ وہ جائزہ لے کہ جغرافیائی محل وقوع، مواصلات، دفاع، آب و ہوا اور مناسب زرخیز علاقوں سے قربت کے پس منظر میں کراچی (ملک کا پہلا دارالحکومت) پاکستان کے دارالحکومت کے لیے مناسب اور موزوں ہے کہ نہیں

اس کمیشن کو یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی کہ اگر وہ کراچی کو دارالحکومت کی حیثیت سے ناموزوں سمجھے تو وہ وفاقی دارالحکومت کے لیے کسی اور موزوں جگہ کی تلاش کرے

اس کمیشن نے فوری طور پر اپنے کام کا آغاز کیا اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے تمام اہم مقامات کا ہمہ جہتی جائزہ لے کر دو جون 1959ع کو اپنی رپورٹ صدر مملکت کی خدمت میں پیش کر دی، جس میں بتایا گیا کہ کراچی سمیت پاکستان کے کسی موجودہ شہر کی اس طرز پر منصوبہ بندی نہیں ہوئی ہے کہ اسے دارالحکومت بنایا جا سکے

کمیشن نے اپنی اس رپورٹ میں دارالحکومت کی حیثیت سے کراچی کو ’ناموزوں‘ قرار دیا اور تجویز کیا کہ دارالحکومت کے لیے مناسب ترین مقام راولپنڈی کے قریب پوٹھوہار کی سطح مرتفع کا علاقہ ہے، یہ مقام راولپنڈی کے شمال مشرق میں ایک وادی ہے جس کے شمالی سمت پہاڑیوں کا ایک ہلال نما سلسلہ پھیلا ہوا ہے

رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ وادی ’سید پور‘ کے نزدیک ہے اور اس وادی میں شاہ عبداللطیف (بری امام) کا میلہ بھی لگتا ہے

12 جون 1959ع کو صدر مملکت نے اس رپورٹ کا جائزہ لینے کے لیے صوبائی گورنروں، وفاقی کابینہ اور اعلیٰ حکام کا ایک خصوصی اجلاس نتھیا گلی کے پُرفضا مقام پر طلب کیا جس نے کمیشن کی اس تجویز کو اصولاً منظور کرنے کا اعلان کر دیا اور چھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی جس نے 15 جولائی 1959ع کو اپنی حتمی رپورٹ جاری کر دی اور اعلان کیا کہ اس نئے دارالحکومت کا رقبہ ایک سو مربع میل پر محیط ہوگا جس میں چودہ مربع میل میں پارلیمنٹ اور مرکزی دفاتر تعمیر کیے جائیں گے

ابتدائی منصوبے کے مطابق اس نئے دارالحکومت کی کل آبادی تین لاکھ ہونی تھی اور یہ قومی امنگوں کا آئینہ دار ہونا بھی قرار پایا۔ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ یہ نیا دارالحکومت دس سال میں تعمیر ہوگا اور اس کی تعمیر پر ہر سال پندرہ کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے

15 جولائی 1959ع ہی کو اخبارات میں ممتاز کشمیری رہنما چوہدری غلام عباس کا ایک بیان شائع ہوا جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان کے دارالحکومت کو منتقل کرنے کے بارے میں حکومت کا اقدام مستحسن ہے اور بانی پاکستان بھی دارالحکومت کو وادی پوٹھوہار میں منتقل کرنا چاہتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے بانی پاکستان سے منسوب اپنے اس انکشاف کا کوئی دستاویزی حوالہ نہیں دیا

اب ملک کے اس مجوزہ دارالحکومت کا نام رکھے جانے کا مرحلہ درپیش ہوا۔ چند دن بعد اس سلسلے میں مجید نظامی کی ادارت میں لاہور سے شائع والے ہفت روزہ جریدے ’قندیل‘ نے ایک اعلان شائع کیا

اس اشتہار میں کہا گیا کہ ”پاکستان کا نیا دارالحکومت راولپنڈی کے قریب تعمیر کیا جائے گا۔ نئی آبادی ہوگی اور لازمی امر ہے کہ اس کا کوئی نام رکھا جائے گا، آپ اس کا کیا نام تجویز کرتے ہیں، ہم آپ کا تجویز کردہ نام شائع کریں گے، اگر قارئین کرام میں سے کسی صاحب کا تجویز کردہ نام حکومت نے منظور کر لیا یا حکومت کی کمیٹی نے بھی وہی نام رکھا جو قارئین کرام میں سے کسی نے تجویز کیا ہو تو ان صاحب کی خدمت میں ادارہہ قندیل کی جانب سے ایک ہزار روپیہ بطور انعام پیش کیا جائے گا۔ اگر ایک سے زیادہ قارئین نے ایک ہی نام تجویز کیا تو ہم ان صاحب کا نام شائع کریں گے جنھوں نے سب سے پہلے ہمیں یہ نام بھیجا ہو گا“

19 جولائی 1959ع کو ہفت روزہ قندیل میں شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا کہ اس اعلان کے جواب میں قارئین نے جو نام تجویز کیے ہیں ان میں وہ نام شامل ہیں جو اس رپورٹ کی ابتدا میں بتائے گئے ہیں

انہیں ناموں میں ایک نام ’اسلام آباد‘ بھی تھا، جو سب سے پہلے پنجاب کے شہر عارف والا میں رہنے والے ایک سکول ٹیچر قاضی عبدالرحمان نے تجویز کیا تھا

24 فروری 1960ع کو فیلڈ مارشل ایوب خان کی صدارت میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں تمام تجاویز کا جائزہ لیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ وادی پوٹھوہار میں قائم کیے جانے والے پاکستان کے اس مجوزہ وفاقی دارالحکومت کا نام ’اسلام آباد‘ ہوگا

کابینہ کے اس فیصلے کا اعلان جناب ذوالفقار علی بھٹو نے کیا۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسلام آباد کا نام نہ صرف لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور ان کی خواہشات کے مطابق ہے بلکہ اس سے مجوزہ دارالحکومت کو ایک واضح مقصد اور امتیاز بھی حاصل ہوتا ہے

بھٹو صاحب نے مزید کہا کہ نئے دارالحکومت کی منصوبہ بندی نہ صرف پاکستان کی تعمیراتی انفرادیت ملحوظ رکھا جائے گا بلکہ اس کی تعمیر میں ان قدروں کو خاص خیال رکھا جائے گا جو پاکستان کے عوام کو عزیز ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب نیا دارالحکومت تعمیر ہو جائے گا تو پاکستان کے لوگ اس پر بجاطور پر فخر کر سکیں گے

دوسری جانب ہفت روزہ ‘قندیل’ نے اپنا اعلان شائع کیا۔ مجید نظامی نے کوشش کی کہ قاضی عبدالرحمن کو ایک ہزار روپے کی انعامی رقم صدر مملکت یا کیپٹل کمیشن کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کے ہاتھوں دلوائی جائے، مگر جب ایسا ممکن نہ ہو سکا تو خود ادارے نے یہ رقم براہ راست قاضی عبدالرحمن کی خدمت میں روانہ کر دی

11 مارچ 1960 کو قاضی عبدالرحمن نے صدر مملکت فیلڈ مارشل محمدایوب خان کو ایک خط لکھا جس میں بتایا گیا کہ 24 فروری 1960 کو منظور ہونے والا نام ان کا تجویز کردہ تھا

اس کے جواب میں 15 اپریل 1960 کو حکومت پاکستان نے قاضی عبدالرحمن کو ایک خط تحریر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت کے نام ان کا خط موصول ہوا جن کی ہدایت پر ان کا نام پاکستان کے اس مجوزہ دارالحکومت میں ایک پلاٹ پیش کیے جانے کے لیے درج کر لیا گیا ہے

اس خط پر فیڈرل کیپٹل کمیشن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عبداللطیف کے دستخط تھے۔ (کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا قیام یکم جون 1960 کو عمل میں آیا اور اس کے پہلے چیئرمین میجر جنرل یحییٰ خان تھے۔)

قاضی عبدالرحمان یکم اکتوبر 1908 کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی تعلیم کا آغاز گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر سے کیا تھا اور تکمیل اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے کی۔ انھوں نے ضلع ساہیوال کے مختلف سکولوں میں طویل مدت تک تدریس کے فرائض انجام دیے اور 1968 میں بحیثیت ہیڈ ماسٹر ریٹائر ہوئے

ان کا ایک نعتیہ شعری مجموعہ ’ہوائے طیبہ‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ وہ مختلف وقتوں میں اقبال فیروز الدین طغرائی امرتسری، ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور مولانا ظفر علی خان سے اپنے کلام پر اصلاح لیتے رہے تھے۔ ان کی تحریریں زمیندار، اصلاح، چٹان، سیارہ، قندیل، نوائے وقت، سیارہ ڈائجسٹ اور اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوتی رہی تھیں

قاضی عبدالرحمان اس خط کے لکھے جانے کے تیس سال بعد تک زندہ رہے۔ ان کی وفات 25 اپریل 1990 کو ہوئی مگر وہ زندگی بھر اسلام آباد کی انتظامیہ کی جانب سے صدر مملکت کے وعدے کے وفا ہونے کا انتظار کرتے رہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close