اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے 24 مئی کو جاری کردہ سرکلر میں کمرشل بنک سے گاڑی لیز یا قسطوں پر لینے والے صارفین کے لیے شرائط مزید سخت کر دی گئی ہیں
تفصیلات کے مطابق نئی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ آٹو لون یا کار فنانسنگ کروانے والے صارفین جو ایک ہزار سی سی سے زیادہ کی گاڑی لیں گے ان کے لیے کار فنانسنگ کی زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال کی بجائے اب ’تین سال‘ ہوگی
جبکہ ایک ہزار سی سی سے کم طاقت والے انجن کی حامل گاڑیاں سات سال کی بجائے اب زیادہ سے زیادہ پانچ سال کی مدت کے لیے آٹو لون کی صورت میں حاصل کی جا سکیں گی
تاہم حکومت کی جانب سے حالیہ برسوں میں شروع کی گئی”روشن اپنی کار اسکیم“ کو ان قوانین سے استثنیٰ حاصل ہوگا
واضح رہے کہ دو روز قبل اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود بڑھا کر 13.75 فیصد کر دی گئی تھی، جس کی وجہ سے کار فنانسنگ کے صارفین کو پہلے ہی قسطوں کی مد میں پہلے کی نسبت زیادہ رقم ادا کرنی پڑے گی
نیشنل بینک پاکستان کے منیجر کامران ربانی کے مطابق، کار فنانسنگ کی مدت کم ہونے سے بینک اور صارف دونوں کو ہی فائدہ ہوگا۔ بینک کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی ریکوری جلد از جلد ہو جائے گی اور فنانسنگ کی مدت کم ہوگی تو صارف کو مارک اپ کم دینا پڑے گا. پانچ سال اور سات سال کی قسطوں میں صارف اس طرح نقصان میں رہتے تھے کہ کار کی ڈیپریسی ایشن بڑھتی جاتی تھی اور مارک اپ ان کا ویسے ہی بلند ترین شرح پر ہوتا تھا
آٹو سیکٹر ماہرین کے مطابق حکومت پاکستان اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف شعبوں پر پابندیاں عائد کر رہی ہے اور آٹو فنانسنگ کی مدت میں کمی ان میں سے ایک ہے۔ اس کا اثر آٹو سیکٹر کے حجم پر پڑے گا، یعنی مکمل طور پر ناک آؤٹ (CKD) کٹس اور مقامی اسمبلی/ پیداوار کی درآمدات میں کمی ہوگی، جس سے ملک میں ڈالر ریزرو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال آٹو سیکٹر میں ترقی کی شرح 60 فیصد تھی، جو حالیہ اقدامات کے بعد بتدریج سست ہونے کا امکان ہے
سود کی سخت شرحوں اور ریگولیٹری پابندیوں کے باوجود، گذشتہ برس کار فنانسنگ میں دسمبر 2021 میں واضح اضافہ دیکھا گیا۔ سال کے آخری مہینوں کے دوران صارفین منی بجٹ کی منظوری سے قبل ڈیلیوری حاصل کرنے کے لیے کوشش کرتے رہے تاکہ انہیں کم ٹیکس ادا کرنا پڑے
اسٹیٹ بینک (SBP) کے اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2021 میں گذشتہ سال کی نسبت کار فنانسنگ میں 38 فیصد اضافہ ہوا
ماہرین کے مطابق دسمبر 2021 میں غیر متوقع کار ڈیمانڈ نے آٹو فنانسنگ میں بھی اضافہ کیا۔ آٹو فنانسنگ کے ذریعے خریدی جانے والی کاروں کی تعداد ملک میں فروخت ہونے والی کل کاروں کے 30 فیصد سے 40 فیصد کے درمیان رہی
پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PAMA) کے اعداد و شمار کے مطابق، دسمبر 2021 میں گذشتہ سال کی نسبت گاڑیوں کی فروخت 96 فیصد بڑھ کر ستائیس ہزار تین سو یونٹس تک پہنچ گئی
گذشتہ سال کار فنانسنگ کی مد میں اٹھائے گئے اہم اقدامات میں مرکزی بینک کی جانب سے کار ایڈوانس کم از کم ادائیگی کی حد 15 سے بڑھا کر 30 فیصد کر دی گئی تھی۔ قرضوں کے بوجھ کے تناسب کو 50 فیصد سے کم کر کے 40 فیصد کر دیا گیا اور زیادہ سے زیادہ آٹو لون کو تیس لاکھ روپے تک محدود کرنے کی تجاویز بھی سامنے آئیں۔ تاہم، یہ پابندیاں ہزار سی سی انجن کے سائز سے کم گاڑیوں پر لاگو نہیں ہوئیں
موجودہ صورت حال پر پنجاب کارز کے نام سے ملتان میں گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے نجف خان کہتے ہیں ”پہلے تو جیسے تیسے ہمارا کام چل جاتا تھا، گزارا کر لیتے تھے، اب حالیہ اعلانات کے بعد گاڑیوں کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہے۔ جاپانی گاڑیوں کی امپورٹ پر مکمل بین ہے، پچھلے سال بھی شرح سود اور کائبور میں اضافہ ہوا، تیس فیصد اور تیس لاکھ والی روپے شرائط عائد کی گئیں اور اب فنانسنگ کی مدت مزید کم اور شرح سود مزید بڑھ جانے کے بعد ہمارے پاس سروائیول کا بھی کوئی راستہ نہیں رہا۔ یہی حالات رہے تو سڑکوں پر آ جائیں گے۔ نئی گاڑیاں کوئی خریدے گا نہیں اور پرانی جس کے پاس ہوگی وہ اسے فروخت نہیں کرے گا“