اسکاٹ نیل کام سے واپس آ رہا تھا کہ اس کے گھٹنے پر معمولی سی خراش آ گئی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ معمولی سی خراش اس کی زندگی کے لیے خطرہ بن جائے گی
لیکن یہ معمولی سی خراش نہ صرف اس کی ٹانگ سے محرومی کا خطرہ بن گئی بلکہ اس کی جان بھی خطرے میں پڑ گئی
یہ کہانی ہے اکتیس سالہ برطانوی شہری اسکاٹ نیل کی، جن کی، جنن کے گھٹنے پر لگی معمولی خراش ایک جان لیوا مرض میں تبدیل ہو چکی تھی اور اس کے لیے انہیں چھ ہفتوں کے دوران چھ بار سرجری کے تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑا
یہ بیماری ’نیکروٹائزنگ فسائیٹس‘ کے نام سے جا نی جاتی ہے، جس سے برطانیہ میں ہر سال کم و بیش پانچ سو افراد متاثر ہوتے ہیں
نیل نے بتاتے ہیں ”میں یہ سن کر یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک معمولی سی خراش سے ہونے والا بیکٹیریئل انفیکشن میری جان تک لے سکتا تھا“
ڈاکٹروں نے نیل کو بتایا کہ اگر تھوڑی دیر ہو جاتی تو یا تو ان کی ٹانگ کاٹنی پڑتی یا یہ بھی ممکن تھا کہ وہ ان کی جان بچانے میں ناکام ہو جاتے
اسکاٹ کا کہنا ہے یہ بہت ہی عجیب و غریب بات تھی۔ مجھے یاد ہے میں سن کر بہت حیران تھا“
اسکاٹ یاد کرتے ہیں کہ گذشتہ برس مئی میں وہ کام ختم کرنے کے بعد گھر لوٹ رہے تھے جب یہ واقعہ پیش آیا اور اس کے چند روز بعد ہی وہ اتنی شدید تکلیف میں مبتلا ہو گئے کہ درد سے تڑپ کر لوگوں سے التجا کر رہے تھے کہ انہیں ہسپتال لے جائیں
معمولی سی چوٹ کے بعد ان کی ٹانگ سوج کر اپنے سائز سے دو گنی موٹی ہو گئی تھی
ان کی ٹانگ میں ایک خاص قسم کا بیکٹیریئل انفیکشن پھیل گیا تھا، جسے ’نیکروٹائزنگ فسائیٹس‘ کہتے ہیں۔ ایسے معاملات میں فوری علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہسپتال پہنچتے ہی وہ تکلیف سے بے ہوش ہو گئے
بحیثیت ڈی جے اور موسیقار کام کرنے والے اسکاٹ بتاتے ہیں ”مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ ایسی تکلیف تھی جو اس سے قبل میں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی“
ڈاکٹروں نے ان کا آپریشن کیا اور تشخیص کی کہ نیکروٹائزنگ فسائیٹس کی وجہ سے بیکٹیریا ان کے گھٹنے اور ران کے پٹھوں کا بہت سا گوشت کھا چکا تھا
اسکاٹ کا کہنا ہے کہ جب انہیں درد کم کرنے کی دوا دی گئی، تو وہ ایک عجیب بے چینی کا شکار تھے
علاج کے دوران چھ ہفتوں میں اسکاٹ کی ٹانگ کے چھ آپریشن ہوئے، جن میں متاثرہ پٹھوں کو کاٹ کر جسم سے الگ کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ بیکٹیریا مزید پھیلنے سے روکا جا سکے
واضح رہے کہ برطانیہ میں ہر سال ہر ایک لاکھ تیس ہزار افراد میں سے ایک اس مرض سے متاثر ہوتا ہے
اسکاٹ کے گھٹنے سے متاثرہ پٹھوں کو نکالے جانے کے بعد وہاں نئے پٹھوں کی ضرورت تھی۔ ابتدائی آپریشنوں میں یہ پٹھے ان کی پیٹھ سے لیے گئے۔ بعد میں مزید ضرورت پڑنے پر ان کی پنڈلی کے پٹھے استعمال ہوئے
اسکاٹ بتاتے ہیں ”خود اپنے ہی جسم کو ایسے دیکھنا جیسے آپ کسی انجان چیز کو دیکھ رہے ہوں، بہت عجیب ہوتا ہے۔ وہ بہت مشکل وقت تھا اور میں بہت روتا تھا“
نیکروٹائزنگ فسائیٹس کیا ہے؟
طبی ماہرین کے مطابق نیکروٹائزنگ فسائیٹس یعنی انفیکشن ہونے پر بیکٹیریا جلد کے نیچے پٹھوں پر حملہ کرتا ہے۔ اور اگر جلد اس کا علاج نہ ہو تو کوئی معمولی خراش جان لیوا صورت حالت میں تبدیل ہو سکتی ہے
اس بیکٹیریا سے ایک ٹاکسن کا بھی اخراج ہوتا ہے، جس سے آس پاس کی نسوں کو نقصان پہنچتا ہے
اس مرض کی ابتدائی علامات میں فلو جیسی حالت ہوتی ہے۔ ساتھ میں قے ہونا یا جسم کے متاثرہ حصے میں سوجن بھی عام ہے۔ لیکن جب یہ مزید پھیلتا ہے تو تھکان اور بے چینی میں اضافہ ہونے لگتا ہے
اسے جسم میں پھیلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ اس کے سبب خون میں زہر پھیلنے یا جسم کے کسی عضو کے متاثر ہونے کا خطرہ بھی رہتا ہے
ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے معاملات میں زندگی اور موت کے درمیان بس اتنا فاصلہ ہوتا ہے کہ کتنی جلد مریض کو طبی مدد فراہم ہو جائے۔ برطانیہ میں اس بارے میں مزید آگہی پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے
برطانیہ میں رائل ڈیون اینڈ ایکزیٹر ہسپتال میں مائکرو بایولوجی اور انفیکشن کی کنسلٹنٹ ڈاکٹر مرینا مارگن اس معاملے میں اسکاٹ کو بد قسمت قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں ”نیکروٹائزنگ فسائیٹس کے پھیلنے کے لیے ایک خاص قسم کا بیکٹیریا ضروری ہے جو جسم پر حملہ کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہو۔ یہ کسی معمولی سی خراش سے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کا جسم بہت مضبوط نہیں ہے، یا پہلے کبھی اس بیکٹیریا سے متاثر نہیں ہوا ہے، تو جسم میں اس بیکٹیریا کو شکست دینے کے لیے اینٹی باڈیز بھی نہیں ہوں گی“
ٹونسیلائیٹس کا مرض بھی اس قسم کے بیکٹیریا کے خاندان کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ حالانکہ اس صورتحال میں علامات اتنی زیادہ شدید نہیں ہوتیں
اس کے علاوہ اگر بچپن میں کسی کو یہ بیکٹیریا متاثر کر چکا ہوتا ہے، تو ایسے لوگوں کے جسم میں اس کے خلاف اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔ بچپن میں ٹانسل کی تکلیف اسی کی وجہ سے ہوتی ہے
ڈاکٹر مرینا بتاتی ہیں ”وہ لوگ جنہیں کبھی ٹونسلائیٹس کی تکلیف نہیں رہی، وہ اس انفیکشن کا مقابلہ نہیں کر پاتے ہیں۔‘
ڈاکٹر مرینا مارگن کا کہنا ہے ”نیکروٹائزنگ فسائیٹس میں عام طور پر بہت شدید درد ہوتا ہے۔ حالانکہ جلد کے اوپر سے ایسا بالکل نہیں لگتا کہ اندر اتنی شدید تکلیف ہوگی۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ انفیکشن پٹھوں میں ہوتا ہے، کسی برفانی تودے کی طرح۔۔“
وہ بتاتی ہیں ”جب درد کم کرنے کی ادویات بھی مریض کو آرام نہیں پہنچا سکیں تب طبی ماہرین کو سمجھ لینا چاہیے کہ معاملہ نیکروٹائزنگ فسائیٹس کا ہو سکتا ہے۔ ایسے میں مریض کو فوری طور پر اینٹی بایوٹکس دی جانی چاہییں“
ڈورین کارٹلیج نے اسی بیماری کی وجہ سے 1999 میں اپنے 23 سالہ بیٹے لی اسپارک کو کھو دیا تھا۔ انھوں نے بیٹے کی یاد میں ایک فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ یہ فاؤنڈیشن ان لوگوں کو سپورٹ گروپ فراہم کرتی ہے جو اس قسم کے انفیکشنز سے متاثر ہوتے ہیں
ڈورین کے بیٹے لی برطانیہ کے علاقے شیفیلڈ میں بحیثیت پینٹر کام کرتے تھے اور اس روز وہ اپنے کام پر ہی جا رہے تھے جب ان کی طبیعت خراب ہوئی۔ انہیں لگا انھیں فلو ہوا ہے اور تین روز بعد ان کی موت ہو گئی
ڈورین کہتی ہیں ”ڈر پھیلانے اور لوگوں میں آگہی پیدا کرنے میں فرق ہے۔ لوگوں کو پتا ہونا چاہیے کہ نیکروٹائزنگ فسائیٹس کو شکست دینے کے بعد بھی زندگی کس طرح متاثر ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ اس کے بعد پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس کا شکار ہو جاتے ہیں، اس لیے کیا یہ بہتر نہیں کہ لوگوں کو اس کی ابتدائی علامات کا علم ہو اور پتا ہو کہ اس کا علاج کتنا ضروری ہے“
اسکاٹ کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کا ان کی زندگی پر جسمانی کے ساتھ ساتھ ذہنی اثر بھی پڑا ہے، لیکن وہ اس سے نبردآزما ہونے کی کوشش کر رہے ہیں
اسکاٹ کے آپریشن کامیاب رہے۔ ایک سال تک چلنے والی فزیو تھیریپی اور حوصلے کی بدولت اب وہ دوبارہ چل سکتے ہیں
انھوں نے بتایا ”مجھے یاد ہے کہ ہسپتال میں گزری کچھ راتیں بہت خوفناک تھیں۔ میں اسی وارڈ میں تھا جہاں میری نانی کی وفات ہوئی تھا۔ وہ بہت تکلیف دہ تجربہ تھا“
انہوں نے کہا ”میری ذہنی کیفیت بہت نازک تھی۔ میرے پاس اس صورت حال سے باہر نکلنے کا واحد یہی راستہ تھا کہ میں اس کا سامنا کروں“
سکاٹ کہتے ہیں ”مجھے اپنے خاندان والوں کے لیے ہمت کا مظاہرہ کرنا تھا۔ ایک طرح سے میں اس تجربے کے لیے شکر گزار بھی ہوں، اس نے مجھے یہ سکھا دیا کہ کسی مشکل کا سامنا کیسے کرنا ہے۔ اس سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ تھا۔ میرے ساتھ جو کچھ بھی اس سے پہلے برا ہوا تھا، میں نے سب دفن کر دیا تھا“
اسکاٹ کہتے ہیں ”اس تکلیف کا سامنا کر کے ہی آج میں بہت کچھ کر پا رہا ہوں مثال کے طور پر اپنے کتے کے ساتھ چہل قدمی، اسکیٹ بورڈ پر چڑھنا، بھاگنا یا فٹبال کو کک مارنا۔۔۔ اور میں اس سب کے لیے میں شکر ادا کرتا ہوں“