مصری لیجنڈری اداکار عمر شریف ’ان میں کچھ ایسا تھا، جو ابھی تک چمک رہا ہے‘

ویب ڈیسک

مصر کے لیجنڈ عمر شریف عرب سنیما کی تاریخ کے وہ اداکار تھے، جن سے زیادہ عروج کسی کے حصّے میں نہیں آیا

وہ 1962 کی فلم ’لارنس آف عریبیہ‘ کے بعد عرب سنیما کے پہلے بڑے ہمہ جہت اسٹار بن کر ابھرے اور اس فلم نے انہیں بین الاقوامی شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا

دوسری جانب یہ عمر شریف کی جادوئی اور پرکشش شخصیت بھی تھی کہ 2015 میں ان کی موت کے بعد بھی لوگوں کے ذہنوں میں ان کی یاد میں کم نہیں ہوئی۔ ’ان میں کچھ ایسا تھا، جو ابھی تک چمک رہا ہے‘

فلمی دنیا آج تک ان کے حقیقی جانشین کی تلاش میں سرگراں ہے۔
موجودہ عہد میں مصری سپر اسٹار آسر یاسین ان چند اداکاروں میں سے ایک ہیں جنہیں ’اگلا عمر شریف‘ قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ عمر شریف ثانی کی تلاش اب بے سود ہے

آسر یاسین کہتے ہیں ”میرا موازنہ ہمیشہ ان سے کیا گیا اور یہاں تک کہا گیا کہ میں ان کا جانشین بنوں گا۔ حالانکہ میں ہمیشہ جواب دیتا رہا ہوں کہ عمر شریف صرف ایک ہی تھا“

مصر کے شہر سکندریہ میں 1932ع میں پیدا ہونے والے عمر شریف کا اصل نام مائیکل یوسف دیمتری چلوب تھا۔ انہوں نے ’عمر شریف‘ کا نام اپنے فلم سازی کے کرئیر کا آغاز کرتے وقت اختیار کیا تھا

عمر شریف کی پرورش ایسے گھرانے میں ہوئی، جہاں کئی زبانیں بولی جاتی تھیں۔ ان کے والدین ان کی پیدائش سے کئی دہائیاں قبل لبنان کے شہر زہلے سے سکندریہ منتقل ہوئے تھے

عمر شریف کو شروع ہی سے مختلف زبانوں سے لگاؤ ​​تھا۔ وہ نہ صرف عربی، انگریزی اور اپنی والدہ کی فرانسیسی بلکہ اطالوی اور ہسپانوی بھی سیکھتے تھے

عمر شریف نے فلم کی دنیا میں آنے سے قبل قاہرہ یونیورسٹی میں ریاضی اور طبیعیات کی تعلیم حاصل کی۔
بعض رپورٹس میں اکثر یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ انہوں نے لندن کی رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس میں اداکاری کی تعلیم حاصل کی، تاہم خود اس ادارے کے پاس اس دعوے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے

معروف مصری فلم ساز اور قاہرہ انٹرنیشنل فلم فیسٹول کے ڈائریکٹر عامر رمسیس کے مطابق: عمر شریف کی اصل کہانی میں قسمت کا کچھ زیادہ ہی دخل تھا اور مصر کے اس وقت کے سب سے مشہور فلم ساز یوسف شاہین کے ساتھ ان کی ملاقات بھی اہم پہلو تھا

عامر رمسیس کہتے ہیں ”وہ واقعی ایک خوبصورت نوجوان تھا، جس نے شاید سنیما میں کام کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ ان پر ایک نوجوان اور باصلاحیت ہدایتکار کی نگاہ پڑی تو پھر اس نے عمر شریف کو مصر کی سب سے باوقار اداکارہ کے ساتھ ایک دو فلموں میں اسٹار بنا دیا“

یوسف شاہین کو ابھی فلم سازی کریئر میں صرف چند برس ہی گزرے تھے کہ انہوں نے عمر شریف کو 1954ع میں ملک کے اس وقت کی سب سے بڑی اسٹار فاتن حمامہ کے مقابل دو فلموں میں کاسٹ کیا، جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک باکس آفس پر راج کر چکی تھیں

ان کی فلموں میں سے ’دی بلیزنگ سن‘ ایک بہت بڑی کامیابی ثابت ہوئی اور عمر شریف نے پچاس کی دہائی میں بار بار یوسف شاہین کے ساتھ مل کر کام کیا اور جلد ہی ایک اسٹار بن گئے۔ اس دوران ان کی فاتن حمامہ سے شادی بھی ہو گئی

عامر رمسیس کہتے ہیں ”وہ واقعی ایک کرشماتی اور باصلاحیت اداکار ثابت ہوئے۔ اکثر افراد کو کامیابی سے قبل کئی برس تک کام کرنا پڑتا ہے لیکن عمر شریف کے لیے یہ قسمت کا ایک چھکا تھا، جس کی وجہ سے وہ اپنی صلاحیتوں کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے“

عمر شریف کی قسمت نے بھی بین الاقوامی شہرت تک ان کے قدم بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ 1962 میں انگریز ہدایت کار ڈیوڈ لین لارنس آف عریبیہ کی کہانی پر مبنی فلم بنانے کی تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نے کاسٹنگ ڈائریکٹرز سے مطالبہ کیا کہ فلم کو حقیقت کے قریب تر رکھنے کے لیے عرب اداکاروں کو لے کر آئیں

خوش قسمتی سے عمر شریف اپنے بچپن ہی سے اچھی انگریزی بولنا جانتے تھے۔ وہ فلم کے ڈائریکٹر سے ملنے کے لیے ہوائی جہاز سے صحرا کی طرف روانہ ہوئے

اس بارے میں عمر شریف نے برسوں بعد بیان کرتے ہوئے بتایا تھا ”جب ہم نے لینڈ کیا تو ہم نے ڈیوڈ لین کو اکیلے بیٹھے دیکھا۔ ہم اس کے بالکل ساتھ ہی اترے لیکن وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا۔ جب میں جہاز سے اترا تو اس نے ’ہیلو‘ تک نہیں کہا۔ وہ صرف میرا سراپا دیکھنے کے لیے میرے گرد گھومتا رہا۔ آخر میں اس نے کہا ’بہت اچھے۔ عمر! چلو میک اپ ٹینٹ پر چلتے ہیں۔‘

عمر شریف نے بعد میں بتایا کہ ڈائریکٹر ڈیوڈ لین کو دبلے پتلے اداکاروں سے نفرت تھی لیکن میں ایسا وہ واحد اداکار تھا، جسے وہ اپنی ساری زندگی پسند کرتا رہا

اس کے بعد عمر شریف نے معاون کے کردار میں بہترین اداکار کے لیے اکیڈمی ایوارڈ کی نامزدگی حاصل کی۔ اس کے علاوہ دو گولڈن گلوبز جیتنے کے ساتھ ساتھ کولمبیا پکچرز کے ساتھ ایک ان کا طویل مدتی معاہدہ بھی ہو گیا۔ یوں انہوں نے اپنی بعد کی دہائیوں کا بیش تر حصہ ہالی وڈ اور یورپ میں گزارا

اپنی زندگی کے آخری دنوں میں عمر شریف کو ایک بار پھر عرب دنیا میں بھرپور پذیرائی ملی۔ یہ ’دی ٹریولر‘ جیسی مشہور فلمیں تھیں، جن کی بدولت 2009ع میں وینس انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں عمر شریف نے بھرپور داد سمیٹی

معروف مصری اداکار عمرو واکد، جو فلم (دی ٹریولر) میں عمر شریف کے معاون اداکار تھے، وہ عرب نیوز کو اپنے وینس کے سفر کے بارے میں بتاتے ہیں ”ہم ایک ہی فلائٹ میں پیرس جا رہے تھے۔ میں آپ کو بتا سکتا ہوں، کسی بھی ہوائی اڈے پر ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جو عمر شریف کے گزرتے وقت ان کے احترام میں کھڑا نہ ہوا ہو“

لبنانی فلم ساز ڈیزی گیدون، جنہوں نے 1996 میں اپنی فلم ’لبنان… امپریزنڈ سپلینڈر‘ میں عمر شریف کی ہدایت کاری کی تھی اور اس کے بعد برسوں تک ان کے ساتھ دوستی بھی رہی، وہ نہ صرف کیمرے کے سامنے عمر شریف کی صلاحیتوں سے حیران تھیں بلکہ ان روزمرہ کی لاجواب کرشماتی زندگی سے بھی بہت متاثر تھیں

گیدون بتاتی ہیں ”وہ اداکاری سے محبت کرتا تھا اور اس نے عربوں کی شناخت کو اس انداز میں بیان کرنے کا ایک طریقہ تلاش کیا، جسے لوگوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا“

وہ کہتی ہیں ”جب ہم دنیا بھر میں جہاں بھی ملتے تھے، ہر ایک شخص اس کی جانب متوجہ ہو جاتا تھا۔ اور وہ ہر عورت کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لیتا تھا۔ اپنی عمر رسیدگی کے باوجود وہ اب بھی حیرت انگیز طور پر پرکشش دکھائی دیتا تھا“

اگرچہ عمر شریف 2015ع میں 83 سال کی عمر میں انتقال کر گئے، لیکن ان کی میراث ایسی ہے کہ وہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سنیما کی دنیا میں دیر تک انہیں زندہ رکھے گی

عمرو واکد کہتے ہیں ”ان کے اندر کچھ ایسا تھا جو ابھی تک چمک رہا ہے۔ عمر شریف صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ اور ہم خوش قسمت تھے کہ وہ ایک ہمیں ملا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close