ٹوٹا ہوا گھر، ڈوبی ہوئی فصل۔۔ قرض لے کر کپاس، چاول کاشت کرنے والے کسان پریشان

ویب ڈیسک

ٹوٹا ہوا گھر، زیر آب فصل، نہ اولاد اور نہ ہی شوہر کا ساتھ۔۔۔ آنے والا وقت کیسے گذرے گا؟ یہ وہ سوال ہے جو، شہدادکوٹ کی زربخت بروہی کے ذہن میں اٹکا ہوا ہے۔ وہ بیوہ ہیں اور ان کی پانچ ایکڑ زمین ہے، جو ان دنوں جھیل کا منظر پیش کر رہی ہے

زربخت کا واحد ذریعہ معاش یہی پانچ ایکڑ زمین ہے، اور اس کی امید چاول کی فصل سے وابستہ ہے، جو سال میں ایک ہی بار ہوتی ہے

سندھ میں رواں سال غیر معمولی بارشیں ہوئیں اور حکومت سندھ کا دعویٰ ہے کہ یہ معمول سے 700 فیصد زائد تھیں جس کے نتیجے میں صوبے کے 19 اضلاع متاثر ہوئے اور بارش کا تقریبا 100 ملین ایکڑ فٹ تک پانی جمع ہو گیا

اس سیلاب کی وجہ سے جہاں جانی اور مالی نقصان ہوا ہے وہیں صوبے کی پینتیس لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمینوں پر موجود فصلیں بھی تباہ ہو گئیں

شمالی سندھ میں چاول کی فصل وافر مقدار میں کاشت کی جاتی ہے، لیکن شہدادکوٹ ایک طرف بارشوں سے متاثر ہوا تو دوسری طرف بلوچستان سے آنے والے سیلابی پانی نے یہاں تباہی مچا دی

زربخت بتاتی ہیں ”ویسے تو بارش کئی روز جاری رہی لیکن جو بارش دس روز مستقل ہوئی، اس سے سب کچھ درہم برہم ہو گیا“

ان کا کہنا ہے ”یہاں چاول کی فصل ہوتی ہے، میرا سال بھر کا علاج معالجہ، کھانا پینا اسی سے ہوتا ہے۔ اب یہ فصل گئی، جو میں نے سود پر کھاد اور بیج لیا وہ تو ضائع ہو چکا ہے لیکن وہ سود والے مجھے چھوڑیں گے تو نہیں۔۔ میں بیوہ عورت کہاں جاؤں، کیا کروں۔۔“

زربخت کا کچا مکان بھی گر چکا ہے۔ ان کی تین بھیڑیں بھی ہلاک ہو چکی ہیں

فی ایکڑ کاشت پر ان کا ساٹھ ہزار روپے خرچہ آتا ہے۔ خرچہ نکال کر ان کو دو ڈھائی لاکھ روپے بچ جاتے ہیں، جن سے وہ اپنا سال بھر کا خرچہ چلاتی ہیں۔ لیکن اس وقت ان کے پاس کچھ نہیں

سندھ میں جولائی سے اگست تک چاول کا بیج لگایا جاتا ہے۔ اگست میں جب شدید بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ فصل مکمل زیرآب آ گئی

سندھ کے محکمہ زراعت کے مطابق پچیس لاکھ ایکڑ پر چاول کی کاشت کی گئی تھی، جو سو فیصد خراب ہوئی ہے

شکدادکوٹ میں سو سے زائد رائس سیلرز یا چاول کی صفائی کے کارخانے ہیں۔ حالیہ بارشوں سے ان کارخانوں کا ڈھانچہ متاثر ہوا۔ چھتیں ٹپکنے سے گوداموں میں جو چاول موجود تھے، وہ بھی خراب ہو گئے

انیل کمار چاول کی صفائی کے دو کارخانوں کے مالک ہیں۔ ان کے کارخانے کے میدان میں چاول پھیلے ہوئے تھے اور بوریاں کاٹ کاٹ کر انہیں نکالا جارہا تھا۔ ان کی شکل ایسی تھی جیسے پکانے سے پہلے چاول کو پانی میں بھگویا جاتا ہے

انیل کمار نے دھان کے دانے دکھاتے ہوئے بتایا ”کارخانے میں صفائی کے بعد اس کو چاول کی شکل دی جاتی ہے۔ بارش سے جو پانی آیا ہے اس نے یہ شکل اختیار کرلی ہے، اب یہ چاول مرغیوں کی فیڈ وغیرہ میں کام آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ کھانے کے قابل نہیں ہے“

رائس سیلرز کے پاس نومبر سے چاول کی نئی فصل آنا شروع ہو جاتی ہے اور دسمبر اور جنوری اس کا عروج ہوتا ہے

انیل کمار کے مطابق 80 فیصد فصل خراب ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے صرف پانچ فیصد کارخانے ہی بمشکل چل سکیں گے۔ ایک کارخانے میں بیس پچیس مزدور کام کرتے ہیں، جن کا روزگار اسی سے وابستہ ہے

سندھ میں حالیہ بارشوں سے کسانوں اور کاشت کاروں پر بہت ہی زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ قومی شاہراہ پر خیرپور کے کھجور کے درخت زیر آب نظر آ چکے ہیں، رواں سال سب سے پہلے کھجور متاثر ہوئی تھی، جیسے ہی بارش ہوئی تو اس کا پھل کھٹا ہو کر خراب ہو گیا تھا

کاشت کاروں نے اس کو چھوہارا بنانے کو ترجیح دی۔ یہ چھوہارا سوکھنے کے لیے میدانوں اور مارکیٹ میں موجود تھا جب مزید بارش نے اسے بھی خراب کر دیا

یہاں سے آگے بڑھیں تو بارشوں سے ٹوٹی ہوئی سڑکوں سے گذرتے اور راستے میں پانی سے بھری ہوئی فصلوں کو دیکھتے ہوئے وسطی سندھ کے ضلع سانگھڑ پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں بھی سیلاب کے بعد زراعت کی تباہی کے مناظر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں

پاکستان میں 13 لاکھ کسان 6 ملین ایکڑ رقبے پر کپاس کی کاشت کرتے ہیں۔ کپاس کی چنائی خواتین کرتی ہیں جو ان کی آمدنی کا ذریعہ ہے لیکن ان کی زمینیں اس وقت زیر آب ہیں

صادق علی اور ان کے پانچ بھائیوں کے پاس چھتیس ایکڑ زمین ہے، جس پر کپاس کی فصل لگی ہوئی تھی۔ اس وقت بھی یہاں گھٹنوں سے اوپر تک پانی جمع ہے

صادق علی کے مطابق آٹھ دن مسلسل بارش ہوئی اور ساری فصل ڈوب گئی۔ ایک ایکڑ پر ایک لاکھ کے قریب خرچہ آتا ہے اور وہ مقامی سیٹھوں سے قرضے پر کھاد اور بیج لیتے ہیں۔ اب یہ سود بھی ان پر چڑھ چکا ہے

صادق علی دیگر کسانوں کے ہمراہ پانی میں موجود کپاس کے پودوں سے کپاس نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’جو بچ گئی ہے اس کو نکال رہے ہیں تاکہ کچھ تو خرچہ نکل سکے‘

2011ع میں بھی سانگھڑ میں اسی طرح سیلابی صورتحال تھی

صادق علی کے مطابق اُس وقت وہ کپاس کی آدھی فصل لے چکے تھے لیکن اِس بار وہ کچھ نہیں لے سکے ہیں۔ ان دنوں بھی زمین کو قابل کاشت بنانے میں ایک سال کا عرصہ لگ گیا تھا اس وقت بھی اگر پانی نہیں نکلا تو وہ اگلی فصل نہیں لگا سکیں گے

سانگھڑ میں سو کے قریب کاٹن جننگ فیکٹریاں ہیں، جن میں سے کئی تو کاٹن کے بیج بنولہ سے خوردنی تیل بھی نکالتی ہیں۔ بنولہ آئل پاکستان میں زیر استعمال خوردنی تیل کا 75 فیصد ہے

نوابشاہ سانگھڑ روڈ پر ایک رنگ بند باندھا گیا ہے، دوسری طرف پانی ہی پانی موجود ہے

یہاں نیو جھولے لال کے نام سے کاٹن فیکٹری میں سے کشتیوں کے ذریعے کپاس لائی جارہی تھی جبکہ فیکٹری پانی کے گھیرے میں تھی

فیکٹری کے مالک راموں مل نے بتایا ”میں نے 2009ع میں یہ فیکٹری لگائی تھی، جو 2011 کے سیلاب میں ڈوب گئی اور مجھے دس کروڑ کا نقصان پہنچا“

راموں نے بمشکل یہ قرضہ اتارا ہی تھا کہ ایک اور سیلاب آ گیا۔ اس بار فیکٹری میں ان کے پاس پندرہ ہزار من کپاس، دس ہزار بنولہ اور مشینری موجود تھی جو ساری تباہ ہو گئی اور انہیں پندرہ کروڑ کا نقصان پہنچا

رائس سیلرز کی طرح یہ کاٹن فیکریاں بھی مقامی سطح پر روزگار کا ایک بڑا ذریعہ ہیں اور ہر فیکٹری میں بیس پچیس مزدوری دیہاڑی پر کام کرتے ہیں

واضح رہے کہ پاکستان دنیا میں کپاس کی پیداوار کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے۔ سندھ کے محکمہ زراعت کے مطابق ساڑھے چودہ لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر کپاس کی فصل لگائی گئی تھی، جو تقریبا سو فیصد ہی خراب ہو چکی ہے

زیرِ آب فصلوں میں جو کپاس بچ گئی ہے، اس کی کوالٹی معیاری نہیں، جسے فیکٹریوں میں لے جایا تو جا رہا ہے لیکن سات ہزار روپے فی من سے زیادہ قیمت نہیں مل رہی۔ اس صورتحال میں زمیندار، کسان، مل مالکان اور مزدور سب کی آمدنی متاثر ہو رہی ہے

سانگھڑ سے سیلابی پانی کا رخ میرپورخاص اور عمرکوٹ کی طرف ہے، جہاں سے یہ نوکوٹ اور بدین سے ہوتا ہوا سمندر میں جاتا ہے

سانگھڑ سے آگے عمرکوٹ ہے، جہاں زیادہ تر مرچ کی فصل ہوتی ہے ۔سندھ کے محکمہ زراعت کا کہنا ہے کہ ساڑھ چھتیس لاکھ ایکڑ پر مرچ لگائی تھی اور اکیانوے فیصد فصل متاثر ہوئی ہے

عمرکوٹ کی سامارو تحصیل میں ٹریکٹروں کی مدد سے پانی نکالا جا رہا ہے، جس کا خرچہ زمیندار اپنی جیب سے ادا کر رہے ہیں۔ یہاں 2011، اس کے بعد 2020 اور اب 2022 میں بارشوں نے فصلوں میں تباہی مچائی

اشوک کمار دس ایکڑ زمین کے کاشت کار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ”بارشوں سے قبل زرعی پانی کی قلت تھی اور شدید گرمی سے مرچ کی فصل سوکھ رہی تھی“

اس کے بعد بارشیں ہوئیں اور اب وہ صرف سیلابی پانی کی نکاسی کے لیے فی ایکڑ تیس سے چالیس ہزار روپے خرچ کر رہے ہیں جبکہ کاشت کے دوران فی ایکڑ پر ایک لاکھ لاگت آئی تھی

اشوک کمار کہتے ہیں ”حکومت کو ریلیف دینا چاہیے۔ کھاد اور بیج پر سبسڈی دی جائے اور اس سے پہلے پانی کی نکاسی کو یقینی بنایا جائے۔“

ایک جانب زرعی ملک میں اپنی فصلوں کی تباہی کے بعد بے یار و مددگار کسان اپنی جیب سے خرچ کر کے سیلابی پانی کی نکاسی کر رہے ہیں تو دوسری جانب محکمہ آبپاشی سندھ نے یہ دعویٰ کر کے اپنا فرض پورا کر لیا ہے کہ 15 اکتوبر تک پانی کی نکاسی مکمل ہو جائے گی اور اگلی فصل لگ سکے گی۔ لیکن بدقسمتی سے زمینی حقائق اس کے برعکس حالات کی عکاسی کر رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close