گزشتہ برس برطانیہ میں شراب کی وجہ سے ہونے والی اموات ریکارڈ سطح پر پہنچ گئیں، جن کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ کورونا کی وبا کے دوران شراب نوشی میں اضافہ ہے
برطانیہ کے دفترِ شماریات کے مطابق سنہ 2021ع میں ملک میں شراب سے مرنے والے افراد کی تعداد نو ہزار 641 تھی۔ اس کے مقابلے میں سنہ 2019ع میں سات ہزار 565 اموات ریکارڈ کی گئیں، یعنی شراب سے ہونے والی اموات میں 27 فی صد اضافہ دیکھا گیا
برطانیہ کے قومی دفترِ شماریات کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں ایسے لوگ جو پہلے ہی بہت زیادہ شراب پیتے تھے، کووڈ کے دوران انہوں نے شراب نوشی میں مزید اضافہ کر دیا
دوسری جانب شراب نوشی کے نقصانات کے بارے میں آگاہی پھیلانے والی خیراتی تنظیم ’ڈرنِک اوّیئر‘ نے کہا ہے کہ شراب نوشی سے ہونے والی اموات میں یہ اضافہ ’تباہ کن‘ اور ’ناقابلِ قبول‘ ہے
یاد رہے کہ دفترِ شماریات نے سنہ 2021ع کی اموات کے جو اعداد وشمار دیے ہیں، ان میں صرف ان اموات کی بات کی گئی ہے، جو براہِ راست شراب کی وجہ سے ہوئیں۔ ان میں زیادہ تر وہ اموت ہیں، جو زیادہ شراب نوشی کی وجہ سے گردوں میں پیدا ہونے والی خرابی کے باعث ہوتی ہیں
یہ تعداد ان اموات کا ایک تہائی ہیں، جن کا تعلق شراب سے ہوتا ہے، یعنی باقی دو تہائی اموات کے پیچھے بھی شراب نوشی کا ہاتھ ہوتا ہے، تاہم انہیں شراب نوشی کا بالواسطہ سبب سمجھا جاتا ہے
برطانیہ کے تمام علاقوں، یعنی اسکاٹ لینڈ، شمالی آئرلینڈ، انگلینڈ اور ویلز کے مجموعی اعداد وشمار کے مطابق سنہ2021ع میں شراب نوشی سے ہونے والی ہر ایک لاکھ اموات میں اسکاٹ لینڈ کا تناسب سب سے زیادہ جبکہ انگلینڈ کا سب سے کم رہا
دفترِ شماریات سے منسلک ماہر، جیمز ٹکر کے مطابق ”تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے لوگ جو کورونا کی وبا سے پہلے ہی زیادہ شراب پی رہے تھے، انھوں نے وبا کے دوران شراب کے استعمال میں مزید اضافہ کر دیا تھا“
وبا سے پہلے کے برسوں میں دیکھا گیا تھا کہ مردوں میں شراب نوشی سے مرنے کے امکانات خواتین سے دوگنا ہوتے ہیں۔ سنہ 2019ع تک کے سات برسوں میں برطانیہ میں شراب نوشی سے ہونے والی اموات کی شرح ایک خاص سطح سے اوپر نہیں گئی تھی، تاہم سنہ 2020ع اور 2021ع میں اس شرح میں اضافہ ہو گیا
تازہ ترین اعداد وشمار پر تبصرہ کرتے ہوئے ’ڈرِنک اّویئر‘ کی کیرن ٹائرل کا کہنا ہے ”یہ اعداد وشمار نہایت پریشان کن ہیں، اس میں دیے گئے ہرعدد کے پیچھے دراصل ایک پورے خاندان کا المیہ پوشیدہ ہے“
انہوں نے کہا ”یہ بات قبول نہیں کی جا سکتی کہ دنیا کے ایک امیر ترین ملک (برطانیہ) کے پسماندہ علاقوں میں شراب نوشی سے مرنے والے مردوں کا تناسب امیر علاقوں کے مقابلے میں چار گنا ہے“
کیرن ٹائرل کا مزید کہنا تھا کہ ان خبروں کو نظر انداز کیا گیا کہ کووِڈ کے دوران زیادہ شراب پینے والوں نے اس میں مزید اضافہ کر دیا ہے، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں کو حکومت کی طرف سے شراب نوشی کم کرنے میں مدد نہیں فراہم کی جا رہی تھی
ان کی تنظیم نے زور دیا ہے کہ برطانیہ بھر میں ایک ایسی ہمہ جہت حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، جس سے معاشرے اور سرکاری سہولیات پر شراب نوشی کے اثرات کو کم کیا جا سکے
ماہرین کا خیال ہے کہ شراب نوشی کم کرنے کا ایک طریقہ اس پر ٹیکس میں اضافہ ہو سکتا ہے، تاکہ سَستی اور زیادہ نشہ آور شراب کی پیدوار کی حوصلہ شکنی ہو سکے
شراب نوشی پر تحقیق کرنے والے ادارے ’انسٹیٹیوٹ آف الکوحل اسٹڈیز‘ کی سربراہ ڈاکٹر کیتھرین سیویری کا کہنا ہے ”کاروباری طبقے کی مخالفت کے باوجود، ہم اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ شراب نوشی کے حوالے سے اپنی اس حکمتِ عملی کو نرم کر دیں جس سے لوگوں کی زندگی بچانے میں مدد ملتی ہے“
دوسری جانب برطانوی حکومت کا کہنا ہے وہ الکوحل پر ٹیکس کے موجودہ پیچیدہ اور پرانے نظام کو تبدیل کرنے کے عزم پر قائم ہے۔