رواں برس پاکستان چھوڑنے والوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ، کیا یہ ’برین ڈرین‘ ہے؟

ویب ڈیسک

پاکستان کی ابتر معاشی صورتحال اور روزگار کے کم ہوتے ذرائع کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور ہے۔ رواں سال روزگار کے لیے بیرون ملک جانے والوں کی تعداد میں تین گنا سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان سے رواں سال میں اب تک سات لاکھ پینسٹھ ہزار افراد روزگار کے مواقعوں کے لیے ملک چھوڑ چکے ہیں

اتنی بڑی تعداد میں ترک وطن کی خبروں نے معاشی اور سماجی امور کے ملکی ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بر وقت اقدامات نہ کیے گئے تو ملک میں سے ذہین اور ہنرمند افراد کے انخلا یا ”برین ڈرین‘‘ کا مسئلہ مزید شدت اختیار کر لے گا

مقامی انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک چھوڑ کے جانے والوں کی یہ تعداد 2021 میں دو لاکھ پچیس ہزار اور 2020 میں دو لاکھ اٹھاسی ہزار تھی

خیال کیا جاتا ہے اس بار بیرون ملک کا رخ کرنے والوں میں انتہائی تعلیم یافتہ ڈاکٹرز اور انجینئرز کی ایک بڑی تعداد نے مشرق وسطیٰ کا رخ کیا، جبکہ کچھ رومانیہ سمیت مختلف یورپی ریاستوں میں گئے، حتیٰ کہ کچھ نے تو افریقہ کا بھی رخ کیا

تعلیم یافتہ نوجوانوں میں 5534 انجینئرز، اٹھارہ ہزار ایسویسی ایٹ الیکٹریکل انجینئرز، 2500 ڈاکٹرز، دوہزار کمپیوٹر ماہرین، چھ ہزار پانچ سو اکاؤنٹنٹس، دوہزار چھ سو زرعی ماہرین اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد تھے

عام خیال ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال ان بنیادی عوامل میں سے ایک ہے، جو نوجوانوں کو دوسرے ممالک کا رخ کرنے پر مجبور کر رہی ہے

پلاننگ کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئرمین اور پاکستان انسٹیٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اکنامکس کے سربراہ ڈاکٹر ندیم الحق کہتے ہیں ”پاکستان میں ڈاکٹر محبوب الحق سے لے کر ڈاکٹر عبدالسلام تک کسی کی قدر نہیں کی گئی۔ ہم نے حال ہی میں ایک سروے کیا، جس میں 60 فیصد سے زیادہ نوجوان ملک چھوڑ کے جانے کا سوچ رہے ہیں۔ پاکستان میں تئیس سال سے کم عمر نوجوانوں کی تعداد تقریباً ایک سو تیس ملین کے قریب ہے۔ ہم 1992ع سے یہ لکھتے چلے آرہے ہیں اور حکومت کی توجہ اس مسئلے کی طرف کرا رہے ہیں کہ لوگ پاکستان کو چھوڑ کے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یقیناً بے روزگاری ہے۔ چونتیس فیصد کے قریب گریجویٹس پاکستان میں بے روزگار ہیں‘‘

ڈاکٹر ندیم الحق کے مطابق ”اس کے علاوہ ملک میں نوجوانوں کو یہ بھی شکوہ ہے کہ ان کی کوئی عزت نہیں ہے۔ ‘سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر نوجوان کریں تو کیا کریں۔ ان میں سے کچھ سی ایس ایس کر کے سول سروس کا حصہ بن جائیں گے لیکن بقیہ اتنی بڑی تعداد کیا کرے گی؟ ہماری افسر شاہی، ججوں اور سیاستدانوں کو نوجوانوں کے مستقبل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ صرف اپنے مفادات کی نگرانی کر رہے ہیں۔‘‘

معاشی امور کی ایک ماہر ڈاکٹر شاہدہ وزارت کہتی ہیں ”ملک میں معاشی بدحالی کی ذمہ داری آئی ایم ایف کا پروگرام ہے۔ جب پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جاتا ہے، تو وہ تقاضا کرتا ہے کہ روپے کی قدر کم کریں، جس کی وجہ سے آپ صنعتی خام مال جب دوسرے ممالک سے منگواتے ہیں یا مشینری درآمد کرتے ہیں تو وہ آپ کو مہنگی پڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ سود کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے، جس کی وجہ سے آپ کی پیداواری لاگت میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس اضافے کی وجہ سے آپ کی صنعتیں بند ہوتی ہیں اور صنعتیں بند ہونے کی وجہ سے بے روزگاری پھیلتی ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں کو دوسرے ممالک کا رخ کرنا پڑتا ہے‘‘

ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے ”باصلاحیت نوجوانوں کی بے قدری بھی نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے“

تاہم کچھ ناقدین ’برین ڈرین‘ (ذہین، باصلاحیت اور قابل افراد کے ملک چھوڑنے) کے اس تصور پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ’برین ڈرین‘ کی اصطلاح یہاں غلط استعمال ہو رہی ہے

اس حوالے سے سابق سیکرٹری پلاننگ کمیشن فضل اللہ قریشی کا کہنا ہے ”پاکستانیوں کا دوسرے ممالک روزگار کے لئے جانا ملک کی معیشت کے لئے بہتر ہے۔ برین ڈرین کی اصطلاح اس وقت استعمال ہوتی ہے، جب آپ کے ملک سے ہنر مند افراد چلے جائیں اور آپ کے اپنے ملک میں قلت ہوجائے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ہمارے پاس سرپلس آبادی ہے۔ اس لیے اگر سعودی عرب ہم سے کہتا ہے تو ہم وہاں بھیجتے ہیں۔ ہم قطر، متحدہ عرب امارات اور دوسرے ممالک بھی بھیجتے ہیں‘‘

فضل اللہ قریشی کے مطابق ”پاکستان کے سپاہی اور فوجی بین الاقوامی امن مشنز میں فرائض سرانجام دیتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس سرپلس افرادی قوت ہے۔ ملک میں روزگار کے مناسب ذرائع نہیں ہیں، تو ایسے میں ہمارے لوگوں کا دوسرے ملک جا کر زرمبادلہ بھیجنا ملک کے لئے مثبت ہے‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close