پاکستان: جبری گمشدگیوں اور سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں اضافہ ہوا: رپورٹ

ویب ڈیسک

ہیومن رائٹس کمیشن (ایچ آر سی پی) نے گزشتہ برس پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں جبری گمشدگیاں اور سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں اضافہ ہوا ہے۔ تنظیم کے مطابق مذہبی اقلیتوں اور خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد کے واقعات، توہینِ مذہب کے مقدمات اور اشتعال انگیزی بھی بڑھ گئی ہے

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے یہ تفصیلات 2022 میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال سے متعلق بدھ کو جاری ہونے والی رپورٹ میں جاری کی ہیں

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی حالیہ رپورٹ میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں میں اضافے کی نشان دہی کے بعد یہ معاملہ ایک بار پھر موضوعِ بحث ہے

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں لاپتا افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا، دہشت گردی کے واقعات میں سیکیورٹی فورسز پر حملے بڑھے اور گوادر میں سیاسی بنیادوں پر حق دو تحریک کے قائد اور کارکنوں پرایک درجن سے زائد مقدمات قائم کیے گئے

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2022ع سیاسی عدم استحکام اور بے چینی کا سال تھا، جب ملک کی مقننہ اور انتظامیہ اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے کوشاں رہے

ایچ آر سی پی کے مطابق ملک کو درپیش آئینی اور سیاسی بحران کو عدالت کے ذریعے حل کرنے کےمعاملے نے صورتِ حال کو مزید خراب کر دیا

یا د رہے کہ گزشتہ برس سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے پاکستان کے حالات عدم استحکام کا شکار ہیں۔ عمران خان جلد انتخابات کرانے پر اصرار کر رہے ہیں جب کہ حکمراں اتحاد فوری انتخابات کے حق میں نہیں ہے۔ ملک کے دو بڑے صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بعد وہاں انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔

انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ گزشتہ سال پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے عام لوگوں کو شدید متاثر کیا

یاد رہے کہ پاکستان میں گزشتہ سال غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے ملک بھر میں تین کروڑ تیس لاکھ افراد متاثر ہوئے جب کہ 17 سو سے زئد افراد ہلاک ہو گئے تھے

جبری گمشدگی کے واقعات

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بھی جبری گمشدگی کے واقعات کا سلسلہ جاری رہا جب کہ لاپتا ہونے والے افراد کو اپنے عزیزوں کی بازیابی کی کوششوں کے دوران بھی مبینہ طور پر ڈرایا دھمکایا جاتا رہا

جبر ی طور پر لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے قائم سرکاری کمیشن کے اعداد وشمار کے مطابق لاپتا ہونے والے 2,210 مقدمات ابھی تک حل طلب ہیں

ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ کہ گزشتہ سال کراچی میں ہونے والے ایک خود کش حملے کے بعد بلوچستان اور دیگر علاقوں سے جبری گمشدگی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ اس واقعے کے بعد متعدد بلوچ شہری مبینہ طور پر لاپتا ہو گئے جں میں سے کچھ بازیاب ہو چکے ہیں لیکن اب بھی کئی لاپتا ہیں

یاد رہے کہ اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں ایک بلوچ خاتون شاری بلوچ کی جانب سے چینی اساتذہ پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد بعض بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگی اور انہیں ہراساں کرنے کے واقعات سامنے آئے تھے

خیال رہے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور لوگوں کو لاپتا کیے جانے کے الزامات کی سختی سے تردید کرتے رہے ہیں۔ ریاستی اداروں کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ قانون کے مطابق صوبے میں شر پسندی پھیلانے والے عناصر کے خلاف حرکت میں آتے ہیں

اداروں کے مطابق جبری گمشدگیوں کے الزامات بیرونِ ملک بیٹھے بلوچ علیحدگی پسند رہنما عائد کرتے ہیں، جب کہ جن افراد کو لاپتا ظاہر کیا جاتا ہے اُن میں سے بیشتر پاکستان سے جا چکے ہیں

حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان پر مقدمات

بلوچستان میں حال ہی میں گوادر کو حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان کی گرفتاری کا معاملہ بھی موضوعِ بحث بنا ہوا تھا

ناقدین یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ مولانا ہدایت الرحمان کو سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا ہے۔ تاہم حکومتی ادارے اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔

حق دو تحریک کے ترجمان حفیظ کیازئی کا کہنا ہے کہ حق دو تحریک شروع کرنے کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ گوادر اور بلوچستان کے عوام کو ان کے حقوق دلوائے جائیں۔

حفیظ کیازئی نے کہا ”ہم نے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے گوادر کے ماہی گیروں کے حقوق کی بات کی، ہم نے ریاست سے گوادر کے لیے گیس، بجلی، صحت، تعلیم اور پانی جیسے بنیادی حقوق کا مطالبہ کیا۔ ہمارے پر امن دھرنے کو سبوتاژ کرنے کے لیے پانچ ہزار کے قریب پولیس اہلکاروں کو گوادر لایا گیا اور پانچ روز کے دوران پولیس نے حق دو تحریک کے 1300 کارکنوں کو گرفتار کیا۔“

انہوں نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ مولانا ہدایت الرحمان کی زندگی کو جیل میں شدید خطرات لاحق ہیں انہیں بلا جواز کیوں جیل میں رکھا گیا ہے

خواجہ سراؤں کے خلاف امتیازی سلوک

ہیومن رائٹس کمیشن کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کو تحفظ فراہم کرنے کے عزم کے باوجود خواجہ سراؤں کو سماج میں امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ گزشتہ سال مختلف واقعات میں 19 خواجہ سراؤں کو ہلاک کر دیا گیا، جب کہ سینکڑوں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا

دوسری جانب پولیس ریکارڈ کے مطابق گزشتہ سال ملک میں توہینِ مذہب کے 35 مقدمات درج کیے گئے تھے جب کہ ایک غیر سرکاری تنظیم سینٹر فار سوشل جسٹس کے مطابق 171 افراد پر توہین مذہب کے الزامات عائد کیے گئے اور ان میں سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں رونما ہوئے

تشدد کے واقعات میں اضافہ

گزشتہ سال پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ریکاڑد کیا گیا، جو گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں رونما ہو نے والے سب سے زیادہ واقعات تھے

سن 2022 میں ملک بھر میں ہونے والے 376 دہشت گرد حملوں میں 533 افراد ہلاک ہوئے جب کہ 832 زخمی ہوئے۔ ان میں مہلک ترین حملہ پشاور کی جامع مسجد پر ہونے والا خود کش حملہ تھا جس میں 63 افراد ہلاک ہوئے

پاکستان میں گزشتہ سال 98 افراد کو مختلف جرائم میں عدالتوں کی طرف سے سزائے موت سنائی گئی جب کہ 2021 میں یہ تعداد 129 تھی ۔

‘جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی’

رپورٹ میں پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی صورتِ حال کا ذکر کیاگیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی مختلف جیلوں میں بند قیدیوں کی تعداد 88 ہزار 687 ہے جو گنجائش سے کہیں زیادہ ہے

رپورٹ میں قیدیوں سے روا رکھے جانے والے مبینہ ناروا سلوک پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے

‘آڈیو ، ویڈیو لیکس پر تشویش کا اظہار’

رپورٹ میں پاکستان میں گزشتہ سال سے سامنے آنے والی بعض سیاسی اور غیر سیاسی افرد کی آپس میں ہونے والی گفتگو کے بارے میں آڈیو اور ویڈیو لیک ہونے پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے ایچ آر سی پی نے اسے عام لوگوں کی پرائیویسی اور وقار کے حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے

ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ پر تاحال حکومت کے کسی عہدیدار کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ ملک میں تمام شہریوں کے انسانی اور بنیادی حقوق کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close