مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) کے مالک ایلون مسک نے منگل کے روز اعلان کیا کہ ان کی کمپنی نیورالنک پہلی مرتبہ انسانی دماغ میں وائرلیس برین چپ نصب کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
ایلون مسک نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ پہلے انسان میں نیورالنک کا برین چپ امپلانٹ کر دیا گیا ہے اور مریض اب ٹھیک ہو رہا ہے۔
مسک نے دماغ کی جسم کو سگنل بھیجنے کی صلاحیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ابتدائی نتائج ’امید افزا‘ ہیں، جن میں نیوران سپائکس کا پتہ چلا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پروڈکٹ کا نام ’ٹیلی پیتھی‘ (ذہنی طور پر بات چیت کرنے کی صلاحیت) کے نام پر رکھا گیا ہے۔
ایکس پر ایک اور پوسٹ میں مسک نے وضاحت کی کہ اس چپ کی مدد سے لوگ اپنے خیالات کے ذریعے موبائل فون، کمپیوٹر سمیت تمام الیکٹرونک ڈیوائس کو استعمال کر سکیں گے
ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں یہ چپ ہاتھوں پیروں کو استعمال کرنے سے معذور افراد کے دماغ میں نصب کیا جائے گا۔
ایلون مسک نے اس تجربے کے بارے میں مزید تفصیلات ظاہر نہیں کیں اور نہ ہی یہ بتایا کہ پہلی چپ لگوانے والا شخص کون تھا یا ٹیکنالوجی کیا تھی، تاہم انہوں نے بتایا کہ نیورالنک کا پہلا پروڈکٹ ٹیلی پیتھی ہے۔
نیورالنک سے قبل کئی حریف کمپنیاں پہلے ہی ایسے آلات مریضوں کے دماغ میں لگانے کے تجربات کر چکی ہیں۔
واضح رہے کہ ’نیورا لنک‘ ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک کی کمپنی ہے، جسے 2016 میں بنایا گیا تھا، اس کمپنی کا مقصد ایسی کمپیوٹرائزڈ چپ تیار کرنا ہے، جنہیں انسانی دماغ اور جسم میں داخل کرکے انسان ذات کو بیماریوں سے بچانا ہے۔
اسی کمپنی نے 2020 میں تیار کردہ کمپیوٹرائزڈ چپ کو جانوروں کے دماغ میں داخل کر کے اس کی آزمائش بھی کی تھی اور پھر کمپیوٹرائزڈ چپ والے جانوروں کو دنیا کے سامنے بھی پیش کیا گیا تھا۔
کمپنی نے مذکورہ چپ کی انسانوں پر آزمائش کے لیے امریکی محکمہ صحت سے اجازت طلب کی تھی اور مئی 2023 کو نیورا لنک کو آزمائش کی اجازت دے دی گئی تھی۔
نیورالنک کی ویب سائٹ کے مطابق، کمپنی کا مشن ایک ’عمومی دماغی انٹرفیس‘ بنانا ہے، تاکہ ان لوگوں کی خودمختاری بحال کی جا سکے، جن کی طبی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔
برین امپلانٹ کے پرائم نامی تحقیقاتی ٹرائل میں quadriplegic مریضوں کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہوں گے، جو ریڑھ کی ہڈی کی چوٹوں اور یہاں تک کہ امیوٹروفک لیٹرل سکلیروسیس (ALS) کا شکار ہیں۔
اس سے قبل ٹیلی پیتھی کو حقیقت بنانے کی مسک کی کوشش تحقیقات کی زد میں آ چکی ہے، جب کمپنی کو اس ماہ ٹرائل سیفٹی پروٹوکول کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ کیا گیا تھا۔
پانچ بلین ڈالر کی اس کمپنی پر یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ٹیکنالوجی کی حفاظت سے متعلق سرمایہ کاروں کو گمراہ کر رہی ہے، جبکہ اس کے ٹیسٹ ٹرائلز کے نتائج میں جانوروں میں فالج، دورے اور دماغ کی سوجن ظاہر ہوئی تھی۔
انسانی دماغ میں نصب کی گئی کمپیوٹر چپ کیا ہے؟
نیورا لنک کی جانب سے بنائی گئی مذکورہ چپ کسی چھوٹے سکے کی سائز کی ہے اور وہ انتہائی پتلی ہے، جسے کسی بھی جاندار کے دماغ میں نصب کرکے اسے وائرلیس سسٹم کے ذریعے اسمارٹ فون سے منسلک کیا جا سکے گا۔
مذکورہ چپ فالج، انزائٹی، ڈپریشن، جوڑوں کے شدید درد، ریڑھ کی ہڈی کے درد، دماغ کے شدید متاثر ہوکر کام چھوڑنے، نابینا پن، سماعت گویائی سے محرومی، بے خوابی اور بے ہوشی کے دوروں سمیت دیگر بیماریوں اور مسائل کو فوری طور پر حل کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔
مذکورہ چپ کو موبائل فون کے سم کارڈ کی طرح ایسے سسٹم سے بنایا گیا ہے، جو سگنل کی مدد سے اسے اسمارٹ فون سے منسلک کرے گا اور پھر فون کے ذریعے مذکورہ چیزیں شامل کی جا سکیں گی اور چپ سے چیزیں نکالی بھی جا سکیں گی۔
مذکورہ چپ انسانی خیالات کا ریکارڈ بھی جمع کرے گی، جب کہ انسان کی یادداشت کو بھی محفوظ رکھ سکے گی۔
چپ میں محفوظ انسانی یادداشت کو کمپیوٹر یا موبائل کے ذریعے کسی بھی وقت ری پلے کیا جا سکے گا یا کسی بھی وقت ماضی میں گزرے دنوں کو اسکرین پر ڈیٹا کی صورت میں لایا جا سکے گا۔
نیورالنک کا کہنا ہے کہ ان کا بنایا گیا امپلانٹ بیٹری سے چلتا ہے، جس کو وائرلیس طریقے سے چارج کیا جا سکتا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ تھریڈز اس تجرباتی امپلانٹ کو دماغی سگنلز وائرلیس طور پر بھیجتا ہے جو ایک ایپ میں منتقل کردیے جاتے ہیں۔ یہ ایپ ان پیغامات کو ڈی کوڈ کرتا ہے کہ متعلقہ شخص کس طرح حرکت کرنا چاہتا ہے۔
نیورالنک کی آزمائش اور ’ٹیلی پیتھی‘
نیورلنک کو ماضی میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ روئٹرز نے دسمبر 2022 میں رپورٹ کیا تھا کہ کمپنی ٹیسٹنگ میں مصروف ہے جس کے نتیجے میں تقریباً 1,500 جانور ہلاک ہوئے، جن میں بھیڑ، بندر اور خنزیر شامل ہیں۔
جولائی 2023 میں امریکی محکمہ زراعت کے سربراہ نے کہا کہ اسے کمپنی میں جانوروں کی تحقیق کے قواعد کی کوئی خلاف ورزی نہیں ملی۔
تاہم ایجنسی کی جانب سے الگ سے تفتیش جاری ہے۔ مسک کی کمپنی کو مئی 2023 میں ایف ڈی اے کی طرف سے انسانوں پر چپ کی جانچ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
برٹش نیورو سائنس ایسوسی ایشن کی صدر پروفیسر تارا اسپائرز جونز نے کہا کہ ’اس میں مستقبل میں اعصابی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کی مدد کرنے کی بڑی صلاحیت ہے اور یہ اس بات کی ایک بہترین مثال ہے کہ طبی ترقی کے لیے بنیادی نیورو سائنس کی تحقیق کو کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
’تاہم ان میں سے زیادہ تر انٹرفیس کو ناگوار نیورو سرجری کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ابھی تک تجرباتی مراحل میں ہیں۔ اس لیے ان کے عام طور پر دستیاب ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔‘
2018 میں وفات پانے والے برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کا حوالہ دیتے ہوئے مسک کا کہنا تھا کہ ‘تصور کریں کہ اگر اسٹیفن ہاکنگ کسی تیز رفتار ٹائپسٹ یا نیلام کرنے والے سے زیادہ تیزی سے اپنی بات سمجھا سکتے۔’
اگرچہ نیورالنک سے ایلون مسک کے منسلک ہونے کی وجہ سے اس کو زیادہ اہمیت مل رہی ہے، مگر ان کا مقابلہ ایسی درجنوں کمپنیوں سے ہے جو سالوں سے اس شعبے میں کام کر رہی ہیں۔
امریکی ریاست یوتاہ میں قائم بلیک روک نیورا ٹیک نے اس طرز کا پہلا دماغی کمپیوٹر انٹرفیس 2004 میں لگایا تھا۔
نیورالنک کے ایک سابقہ بانی کی قائم کردہ کمپنی پریسیشن نیوروسائنس نے بھی فالج کے شکار افراد کی مدد کے لیے ایک ایسا آلہ بنایا ہے۔
پریسیشن نیوروسائنس کا بنایا گیا آلہ ایک باریک سے ٹیپ کر طرح ہے جسے دماغ کی اوپری سطح پر لگایا جاتا ہے۔ کمپنی کا کہنا کہ اس کو نصب کرنا انتہائی آسان ہے کیونکہ اس کے لیے ایک معمولی آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے۔
موجودہ آلات سے بھی مثبت حاصل ہوئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں کیے گئے دو الگ الگ امریکی سائنسی مطالعات میں، ان امپلانٹس کا استعمال کر کے بولتے وقت دماغ میں ہونے والی سرگرمیوں کی نگرانی کی گئی۔ بعد ازاں اس ڈیٹا کو ان افراد کو بات چیت میں مدد دینے کے لیے ڈی کوڈ کیا جا سکتا ہے۔
کنگز کالج لندن کی پروفیسر این نے کہا ہے کہ ’طبی آلات بنانے والی کسی کمپنی کے لیے انسانوں پر اس کی پہلی آزمائش بڑی کامیابی ہے۔
’اس پر کئی کمپنیاں دلچسپ پراڈکٹس پر کام کر رہی ہیں تاہم چند ہی ان آلات کو انسانوں کے دماغ میں نصب کرنے میں کامیاب ہوئیں۔‘
تاہم انھوں نے کہا کہ اس معاملے میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کیونکہ اصل کامیابی کا جائزہ طویل مدت میں لگایا جاسکے گا۔ ’ہمیں معلوم ہے کہ ایلون مسک کو اپنی کمپنی کی پبلیسیٹی کرنا آتا ہے۔‘
ایلون مسک کے دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں ہوسکی اور نہ ہی نیورالنک کی فراہم کردہ معلومات منظر عام پر لائی گئی ہے۔
اس شعبے میں سوئٹزر لینڈ کی ایک کمپنی نے بھی اس وقت کامیابی حاصل کی تھی جب ایک معذور شخص کو چلنے کے قابل بنایا گیا تھا۔ یہ دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں الیکٹرانک اپلانٹس کی مدد سے ممکن ہوا جو ٹانگوں اور پیروں کو پیغام بھیج پائے۔