حال ہی میں ذرائع ابلاغ نے گزشتہ اکیس برسوں میں اب تک کے سب سے طاقت ور شمسی طوفان کے زمین سے ٹکرانے کو رپورٹ کیا، اس طوفان کے سبب زمین پر آنے والی مقناطیسی لہروں سے قطب شمالی کی روشنیاں جنوب تک پھیل گئیں۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی، سوئٹزرلینڈ میں روشنی کے حیرت انگیز نظارے دیکھے گئے۔
لیکن کیا اس کے اثرات محض اس حد تک ہی محدود ہیں۔۔ نہیں، شمسی طوفان ہماری زندگی کو مختلف انداز میں متاثر کرتے ہیں
لیکن آئیے آج ہم آپ کو معلوم تاریخ کے سب سے زیادہ طاقتور شمسی طوفان کے بارے میں بتاتے ہیں، جسے ’سورج کے زمین کو چھونے والے ہفتے‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم اس حوالے سے سائنسی پیش رفت اور شمسی طوفان سے مرتب ہونے اثرات کے بارے میں بھی بات کریں گے۔
زمین کے مقناطیسی ریکارڈ 19ویں صدی کے وسط سے موجود ہیں۔ ان کے مطابق تقریباً ہر سو سال کے بعد خلا میں ایک انتہائی شدید موسمیاتی واقعہ ہو سکتا ہے تاہم چھوٹے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
یہ ستمبر 1859 کی بات ہے، جب دو ٹیلی گراف آپریٹرز نے سو میل کے فاصلے پر موجود اپنے اپنے اسٹیشنز کی بجلی بند کر دی تاکہ غیر معمولی برقی مقناطیسی سرگرمی کے ختم ہو سکے۔
لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اگلے دو گھنٹوں تک انہوں نے صرف اس برقی کرنٹ کا استعمال کرتے ہوئے اپنی گفتگو جاری رکھی، جو پندرہ کروڑ کلومیٹر دور سورج سے نکل کر خلا میں گزر رہا تھا۔
یہ ریکارڈ شدہ تاریخ کا سب سے شدید شمسی طوفان تھا کیونکہ اس نے شمسی توانائی سے چلنے والی پہلی مواصلات کو فعال کر دیا تھا لیکن یہ اتنا شدید ثابت ہوا کہ کچھ آپریٹرز کو بجلی کے باقاعدہ جھٹکے محسوس ہوئے، حتیٰ تک کہ ایسی رپورٹس بھی ہیں کہ ٹیلی گراف کے کھمبوں سے نکلنے والی چنگاریوں نے آگ پکڑ لی۔
مقناطیسی طوفان ’کیرینگٹن ایونٹ‘ کی وجہ سے اب تک باضابطہ طور پر تسلیم شدہ اس واقعے میں میکسیکو کے جنوب تک آسمان پر اورورا (ناردرن لائٹس) کو دیکھا گیا۔
یہ سورج سے نکلنے والے ایک بڑے کورونل ماس ایجیکشن (سی ایم ای) کا نتیجہ تھا جو زمین کے مقناطیسی کرہ سے ٹکرا گیا تھا۔
ناردرن لائٹس مزید ایک سو پینسٹھ سالوں تک اتنی دور جنوب میں دوبارہ نظر نہیں آئیں لیکن کیٹیگری پانچ کے جیو میگنیٹک طوفان نے 10 مئی 2024 کو میکسیکو کے علاقوں سینالووا اور چیہواہوا کے آسمانوں کو روشن کر دیا۔
اس وقت کوئی ٹیلی گراف نیٹ ورک موجود نہیں تھا، جس میں خلل پیدا ہوتا لیکن شمسی توانائی کے فعال خطے سے خارج ہونے والی تابکاری جو کہ AR 13664 کے نام سے جانی جاتی ہے، بہت شدید تھی، جو زمین پر دیگر مسائل کا باعث بن سکتی تھی۔
اس شمسی طوفان کی وجہ سے قطر اور امارات کی پروازوں کو قطبی خطوں پر آنے والے بدترین جیو میگنیٹک طوفانوں سے بچنے کے لیے اپنے راستے تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑا، علاوہ ازیں جی پی ایس بلیک آؤٹ کے بعد کینیڈا اور امریکہ کے کچھ حصوں میں کسانوں نے اپنے آلات میں خرابی کا مشاہدہ کیا۔
ماہرین کے مطابق کیرینگٹن ایونٹ سے زیادہ شدت کے مقناطیسی طوفان نہ صرف پروازوں اور جیوپوزیشننگ سیٹلائٹس بلکہ پورے برقی گرڈ کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ مواصلات اور اہم بنیادی ڈھانچے کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔
اگرچہ یہ طوفان کئی نسلوں بعد رونما ہوتے ہیں لیکن شمسی سرگرمی کی موجودہ مدت ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔
رواں ہفتے اے آر 13697 سن سپاٹ کی واپسی کے بعد کچھ خلائی موسمی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس سے بھی زیادہ شدید شمسی طوفان زمین سے ٹکرا سکتے ہیں۔
شمسی طوفان کیا ہے اور ہم اس سے کیسے متاثر ہو سکتے ہیں؟
سورج ایک ستارہ ہے، برقی ہائیڈروجن کا ایک ابلتا ہوا انبار۔۔ جب یہ مادہ حرکت کرتا ہے، تو اپنی انتہائی پیچیدہ مقناطیسی فیلڈ میں توانائی بھی جمع کرتا جاتا ہے۔
یہ مقناطیسی توانائی روشنی کی شدید چمک یا شمسی شعلوں کی صورت میں اور بڑی مادی اور مقناطیسی فیلڈز کی شکل میں خارج ہوتی ہے، جنہیں شمسی طوفان کہا جاتا ہے۔
اگرچہ یہ شعلے زمین پر ریڈیو کے مواصلاتی نظام کو درہم برہم کرتے ہیں، لیکن شمسی طوفان سے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
ہر شمسی طوفان میں دنیا کے تمام جوہری ہتھیاروں کے مجموعے سے ایک لاکھ گنا زیادہ توانائی ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ خلا کے وسیع حصے میں پھیل جاتی ہے۔
سورج ایک وسیع گھومتی ہوئی آتشبازی کی طرح گھومتا ہے، جہاں سے وہ خلا میں ہر طرف اخراج کرتا رہتا ہے۔
اگر ان میں سے ایک ہمارے سیارے کی طرف رخ کرتی ہے، جس کی مقناطیسی فیلڈ زمین کی مقناطیسی فیلڈ کے ساتھ موافق ہے تو دونوں فیلڈز ایک دوسرے کے ساتھ مل بھی سکتی ہیں۔ جب شمسی طوفان قریب سے گزر جاتا ہے تو زمین کی مقناطیسی فیلڈ ایک لمبی دم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
اور جب یہ مقناطیسی فیلڈ واپس ٹھیک ہوتی ہے تو وہ زرات جو چارج ہو چکے ہیں، وہ بڑھتی ہوئی رفتار کے ساتھ زمین کا رخ کر لیتے ہیں۔ جب یہ زرات زمین کی فضا سے ٹکراتے ہیں تو وہ جلنے لگتے ہیں، جس سے معروف شمالی اور جنوبی لائٹس کا منظر سامنے آتا ہے۔
تاہم زمین کی مقناطیسی فیلڈ میں اس خلل کے اور بھی زیادہ سنگین اثرات ہوتے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ 1972 میں سمندری بارودی سرنگیں اسی وجہ سے پھٹی تھیں۔ ان بارودی سرنگوں کو اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ وہ آنے والی کشتیوں کے مقناطیسی فیلڈ کو جانچ سکیں۔ مگر ان کو بنانے والوں نے یہ نہیں سوچا کہ شمسی طوفان سے بھی یہ ہو سکتا ہے۔
آج کے دور میں خلائی سیٹلائٹس ہمارے مواصلاتی اور نیویگیشن نظام کا اہم ترین حصہ ہیں۔ طیارے برِاعظموں کو ملاتے ہیں اور بجلی کی ترسیل کا نظام دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ شدید شمسی طوفان میں یہ سب درہم برہم ہو سکتا ہے۔
شمسی طوفان کے بعد چارجڈ ذرات خلائی گاڑیوں اور طیاروں کے انتہائی چھوٹے برقی نظام کو تباہ کر سکتے ہیں۔
ماضی میں خلا میں شدید موسمی واقعات میں اتنی سیٹلائٹس اور پاور گرڈز تباہ ہو چکی ہیں کہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ ہمیں سورج پر نظر رکھنی ہوگی اور نظام شمسی کے زمین پر اثرات کے بارے میں پین گوئی کرنے کے لیے سورج کا گہرا مشاہدہ ضروری ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سورج پر اگر کبھی شدید طوفان آئے تو وہ زمین پر مواصلاتی نظام کو تباہ کر سکتا ہے، جس کی ہمیں بہت بڑی معاشی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ شمسی طوفان سے اس قدر خطرہ کیوں ہے؟
1972 میں ویتنام کے ساحل کے قریب درجنوں سمندری بارودی سرنگیں بظاہر بلاوجہ پھٹ گئی تھیں۔ بعد ازاں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ شمسی طوفان کی وجہ سے ہوا تھا۔ شمسی طوفان زمین کے مقناطیسی میدان میں خلل ڈال سکتے ہیں۔
مگر آج کے دور میں اس طرز کے واقعے کے زیادہ سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں، جیسے کہ سیٹلائٹوں سے لے کر بجلی کی ترسیل کے نظام تک ہمارے روز مرہ سسٹمز میں خرابی پیدا ہوجانا۔
شمسی طوفان اور سائنسی پیش رفت
واضح رہے کہ سورج اس وقت اپنے گیارہ سالہ ایکٹیوٹی سائیکل کے عروج کے قریب پہنچ رہا ہے، جس کے مقناطیسی میدان مکمل طور پر پلٹ جانے کے بعد یہ شمالی یا جنوبی قطب پر منتقل ہو جائیں گے۔
اسے سورج کی سطح پر نظر آنے والے مقناطیسی میدانوں کے سن سپاٹس اور تاریک علاقوں کی تعداد میں اضافے یا کمی سے ناپا جا سکتا ہے۔ (ان دنوں گوگل ٹرینڈز کے ذریعے ’سولر اسٹارم‘ جیسی اصطلاحات کے لیے ویب سرچز کی تعداد سے بھی شمسی سائیکل کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔)
اب تک کا معلوم آخری پیک یا سولر میکسیمم اپریل 2014 میں ہوا، جو اصل پیشن گوئی سے کچھ تاخیر سے تھا۔
سولر منیمم یعنی جب سورج کی سرگرمی اپنی کم ترین سطح پر ہوتی ہے، دسمبر 2019 میں توقع سے کچھ پہلے ظاہر ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے اس میں اضافہ دیکھا گیا ہے جب کہ مئی کے وسط میں ایک اضافہ بھی دیکھا گیا۔
نارتھ امبریا یونیورسٹی کے شمسی سائنس دان ڈاکٹر سٹیف یارڈ لی کہتے ہیں ”اس شمسی سائیکل کی زیادہ سے زیادہ شدت جولائی 2025 کے قریب وقوع پذیر ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے حالانکہ سائنس دانوں کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ پیک کے بعد سولر میکسیمم ہوا ہے یا نہیں۔“
ان کا کہنا ہے ”یہ دیکھتے ہوئے کہ سولر منیمم توقع سے پہلے ہوا تھا تو ایسا سولر میکسیمم کے بارے میں بھی سچ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ارورا (ناردرن لائٹس) شمسی سائیکل کے دوران کسی بھی وقت ہوسکتا ہے، سولر میکسیمم کے دوران اس کے مظاہرے بار بار اور اکثر مضبوط ہوتے ہیں۔‘“
شمسی سائیکل کے ذریعے شمسی طوفانوں کی پیشین گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔ خلائی پیشن گوئی کے حوالے سے برطانیہ اس میدان میں بہت آگے ہے، جس نے شمسی شعلوں کی مسلسل نگرانی کے لیے سیٹلائٹ امیجز کے لیے دنیا کا پہلا خودکار ریئل ٹائم سسٹم قائم کر رکھا ہے۔
بریڈ فورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر رامی قاہواجی کی قیادت میں ’اسپیس ویدر پریڈکشن گروپ‘ ناسا کے سولر ڈائنامکس آبزرویٹری سیٹلائٹ کے ساتھ مل کر شدید شمسی طوفانوں کی پیشین گوئی کرنے کے لیے تازہ ترین تصاویر کا جائزہ لیتا ہے۔
پروفیسر قاہواجی کے مطابق شمسی سرگرمی اپنی زیادہ سے زیادہ حد تک پہنچ چکی ہے اور اگلے چند ماہ سرگرمی کا شدید دور لے کر آئیں گے۔
وہ کہتے ہیں ”ہمارے سسٹم نے کامیابی کے ساتھ اس تازہ ترین شمسی طوفانوں کی پیشین گوئی کی ہے جو پورے برطانیہ میں ناردرن لائٹس کا سبب بنے۔ اب ہم سولر میکسیمم سے گزر رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ 2025 میں سولر میکسیمم ہو جائے گا لیکن ایسا لگتا ہے کہ سورج توقع سے پہلے اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے۔“
دوسری جانب امریکہ میں اسپیس ویدر پریڈیکشن سینٹر کی تازہ ترین پیشین گوئی سے پتہ چلتا ہے کہ رواں سال جنوری اور اکتوبر کے درمیان سولر میکسیمم ہو گا جس میں سن اسپاٹس کی تعداد 137 اور 173 کے درمیان ہوگی جو 2014 کے دوران ریکارڈ کیے گئے 114 سن اسپاٹس سے کہیں زیادہ ہے۔
مئی میں برطانوی اسپیس ایجنسی نے اعلان کیا ہے کہ شمسی طوفانوں کو تلاش کرنے کے لیے یورپ کا پہلا آپریشنل سیٹلائٹ سٹیونیج میں بنایا جائے گا جو خلائی موسم کے شدید واقعات کی پیش گوئی کرنے کی ہماری صلاحیت کو نمایاں طور پر بڑھا دے گا
یہ ممکنہ طور پر خلل ڈالنے والے طوفانوں کے بارے میں اہم اضافی انتباہ فراہم کر سکتا ہے، جس سے زمین کی طرف آنے والی شمسی لہروں کا چار سے پانچ دن پہلے پتہ چل سکتا ہے۔
پیشگی انتباہ شمسی طوفان کے اثرات کے لیے تیاری کے لیے وقت دے گی۔ اس سے کمزور ڈیوائسز کو ان پلگ یا گراؤنڈ کیا جا سکتا ہے جبکہ پاور گرڈ آپریٹرز اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ کرنٹ کو مخصوص حد تک ریگولیٹ کیا گیا ہے تاکہ کوئی اضافی ان پٹ اسے اوورلوڈ نہ کرے۔
چونکہ تازہ ترین شمسی سرگرمی کے لیے ذمہ دار سورج کا مخصوص حصہ گھوم کر ایک بار پھر زمین کی جانب ہونے والا ہے اس لیے جلد ہی مزید مقناطیسی طوفان زمیں سے ٹکرا سکتے ہیں۔
نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں بی بی سی میں شائع یونیورسٹی آف ریڈنگ کے پروفیسر کرس ا سکاٹ اور انڈپینڈنٹ میں شائع انتھونی کتھبرٹسن کے آرٹیکل سے مدد لی گئی۔