حال ہی میں انڈیا کے سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کے دعوے نے ایک دلچسپ بحث کو جنم دیا ہے، جس میں کینسر کے علاج میں دیسی غذا کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سدھو کا کہنا ہے کہ اُن کی اہلیہ، جو آخری مرحلے کے کینسر میں مبتلا تھیں، نے دیسی غذاؤں اور ایک خاص ڈائٹ پلان کی مدد سے صحتیابی حاصل کی۔ انہوں نے اپنی اہلیہ کی غذا سے گندم، چینی، دودھ، اور ریفائنڈ آئل جیسی اشیاء کو نکال کر انار، نیم کے پتے، کچی ہلدی، اور دیسی مسالہ جات جیسی اشیاء شامل کیں۔
سدھو کا دعویٰ ہے کہ ان غذاؤں اور وقفے وقفے سے کھانے کے معمول نے کینسر کے خلیوں کو ختم کرنے میں مدد کی۔ تاہم، یہ بات قابل غور ہے کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کے علاج میں کیموتھراپی اور ریڈیئیشن جیسے جدید طبی طریقے بھی استعمال کیے۔ انہوں نے ڈاکٹروں اور ماہرین سے مشورے کے علاوہ اپنی تحقیق کے ذریعے اپنی اہلیہ کے لیے یہ خاص غذا ترتیب دی۔
نوجوت سنگھ سدھو کا دعویٰ کہ ان کی اہلیہ نے خوراک کے ذریعے اسٹیج فور کینسر کو شکست دی، ایک حیران کن اور بحث طلب معاملہ ہے۔ یہ دعویٰ اگرچہ عوام کے لیے امید کا باعث بن سکتا ہے، لیکن طبی ماہرین اس دعوے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔
سابق انڈین کرکٹر نوجوت سنگھ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی اہلیہ نے صرف 40 دن میں سخت ڈائٹ کی وجہ سے کینسر فری ہو گئیں، جب کہ وہ خود بھی اسی ڈائٹ سے مزید جوان ہو گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ نوجوت کور کو چوتھے اسٹیج کا کینسر تھا اور ڈاکٹرز نے ان کے زندہ بچنے کے صرف 5 فیصد امکانات ظاہر کیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے ایک دوست کے بیٹے امریکا میں کینسر کے ڈاکٹر ہیں، انہوں نے بھی انہیں اہلیہ کے بچنے کے صرف تین فیصد امکانات بتائے تھے، جس کے بعد انہوں کچھ تحقیق کی اور پھر بیٹی کو بھی مزید تحقیق کرنے کا کہا۔
نوجوت سنگھ سدھو نے دعویٰ کیا کہ بعد ازاں انہوں نے تحقیق کرکے ڈائٹ پلان ترتیب دیا، جس پر عمل کرکے انہوں نے اہلیہ کو صرف 40 دن میں کینسر سے صحت یاب کرایا۔
انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں متعدد غیر روایتی دعوے کیے اور بتایا کہ اگر کینسر کے مریضوں کی غذا میں زیادہ وقفہ دیا جائے تو مریض میں کینسر کے جراثیم خود بخود مرنے لگتے ہیں۔
ان کے مطابق لوگ کہتے ہیں کہ کینسر کے مریضوں کا علاج کروڑوں روپے میں ہوتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہلدی، نیم کے پتوں، کھوپرے کے تیل، بادام کی روٹی میں کتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے؟
نوجوت سنگھ کا کہنا تھا کہ وہ اہلیہ کو شام 6 بجے کھانا دینے کے بعد کوئی غذا نہیں دیتے تھے اور دوسرے دن کا آغاز میں ہی اہلیہ کو نیم گرم پانی میں لیموں، کچی ہلدی اور سیب کا سرکہ ملا دیا جاتا تھا پھر کچھ دیر بعد انہیں نیم کے پتے اور تلسی کا استعمال کروایا جاتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ نے چائے پینا چھوڑ دی تھی، ان کو چائے کے بجائے دار چینی، کالی مرچ ، لونگ، چھوٹی الائچی میں ہلکا سا گڑ ملا کر قہوہ بنا کر دیا جاتا تھا،
انہوں نے ڈائٹ پلان بتاتے ہوئے بتایا کہ ان کی اہلیہ کو کچھ میوہ جات، بلیو بیریر، انار، سبزیوں کے جوس میں چقندر، گاجر اور آملے کے جوس بھی دیے جاتے رہے، رات کے وقت بادام کے آٹے کی روٹی، سبزی اور سلاد دیا جاتا تھا۔
نوجوت سنگھ سدھو کا کہنا تھا کہ اہلیہ کا کھانا ریفائنری تیل کے بجائے کھوپرے، زیتون یا پھر بادام کے تیل میں تیار کیا جاتا تھا اور ایسے ہی ڈائٹ پلان کی وجہ سے صرف چالیس دن کے اندر ان کی اہلیہ نے کینسر کو شکست دی۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اگر مذکورہ ڈائٹ جگر کی چربی سمیت دوسری بیماریوں میں مبتلا افراد پر آزمائی جائے تو وہ بھی صحت یاب ہوجائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھی مذکورہ ڈائٹ پر عمل کیا اور ان کا بھی 25 کلو وزن کم ہوا، ان کے جگر کی چربی ختم ہوئی اور وہ جوان ہو گئے۔
اس کے باوجود، طبی ماہرین کی اکثریت ان دعووں سے متفق نہیں ہے۔ ان کے مطابق، کینسر ایک پیچیدہ مرض ہے، جس کے علاج میں صرف غذا کا کردار محدود ہوتا ہے۔ سدھو کا تجربہ کسی عام اصول کے بجائے ایک ذاتی واقعہ ہو سکتا ہے، اور ڈاکٹروں کے بقول، اس قسم کے دعوے بغیر سائنسی تحقیق کے عام لوگوں کو گمراہ کر سکتے ہیں۔
بہرحال یہ بحث اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ دیسی علاج اور غذا کو جدید طبی علاج کے ساتھ کس حد تک یکجا کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ سدھو کے تجربے نے امید کی ایک کرن پیدا کی ہے، ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کینسر کے علاج میں مستند طبی مشورے اور سائنسی تحقیق کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
کیا واقعی ہلدی، لیموں پانی، اور نیم کے پتوں جیسی اشیاء کے استعمال سے کینسر کا علاج ممکن ہے؟ انڈیا کے ٹاٹا میموریل ہسپتال کے 262 موجودہ اور سابق کینسر ماہرین اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان دعوؤں کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔
ٹاٹا میموریل کے ماہرین نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ غیر مصدقہ علاج پر عمل کرنے سے بیماری کی شدت بڑھ سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی کو کینسر کی علامات محسوس ہوں تو فوراً کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے، بجائے اس کے کہ سوشل میڈیا پر موجود غیر مستند معلومات پر انحصار کیا جائے۔
ڈاکٹر کنوپریا بھاٹیہ، جو موہن دائی اوسوال ہسپتال میں کینسر کے علاج کی ماہر ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کے کلینک میں تیس سے چالیس فیصد ایسے مریض آتے ہیں جو طویل عرصے سے کینسر میں مبتلا ہیں لیکن ابتدائی علاج جڑی بوٹیوں اور گھریلو نسخوں سے کرتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ رجحان خاص طور پر ان لوگوں میں زیادہ ہے جو کم تعلیم یافتہ ہیں اور سوشل میڈیا پر غلط معلومات پر جلدی یقین کر لیتے ہیں۔
ڈاکٹر بھاٹیہ نے زور دیا کہ کینسر ایک قابل علاج بیماری ہے، بشرطیکہ اس کی بروقت تشخیص اور صحیح علاج ہو۔ تاہم، ان کے مطابق، خود علاج یا غیر مستند معلومات پر عمل کرنے سے بیماری مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کینسر جیسی پیچیدہ بیماری کا علاج ہمیشہ مستند طبی طریقوں سے کروانا چاہیے۔ غیر مستند علاج سے پرہیز کریں اور کسی بھی نئی غذا یا علاج کے طریقے کو اپنانے سے پہلے ماہرین سے مشورہ کریں۔ بروقت تشخیص اور مناسب علاج ہی کینسر پر قابو پانے کا درست راستہ ہے۔
فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی کے آنکولوجسٹ ڈاکٹر محمد طاہر بشیر کا کہنا ہے کہ نوجوت سنگھ سدھو کے دعوے زیادہ تر کہانیوں پر مبنی لگتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ صحت مند طرز زندگی اور متوازن غذا کینسر سے بچاؤ میں مددگار ہو سکتی ہے، لیکن کینسر کی تشخیص کے بعد علاج میں تاخیر یا متبادل علاج آزمانا خطرناک ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق، جڑی بوٹیوں اور قدرتی اجزاء کا استعمال بعض صورتوں میں علامات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے، لیکن انہیں کسی سائنسی طبی علاج کا متبادل سمجھنا غلط ہے۔
ڈاکٹر طاہر بشیر نے خبردار کیا کہ طبی ماہرین کی ہدایات کو نظرانداز کرنا یا مستند علاج سے گریز کرنا مریض کی زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ متوازن غذا کینسر کے علاج میں ایک معاون کردار ادا کر سکتی ہے، لیکن یہ مرض صرف غذا اور طرز زندگی میں تبدیلی سے ٹھیک نہیں ہو سکتا۔
دوسری جانب انڈین پنجاب کے محکمہ صحت کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر جسبیر اولکھ کے مطابق، نوجوت سنگھ سدھو کی خوراک اور ملاوٹ سے متعلق باتیں مکمل طور پر غلط نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں لوگ سادہ غذا کھاتے تھے اور غروب آفتاب کے بعد کھانے سے پرہیز کرتے تھے، جو آج کے دور میں انٹرمیٹنٹ فاسٹنگ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ تاہم، ان عادات کو کینسر کے علاج کے طور پر پیش کرنا درست نہیں۔
ڈاکٹر کنوپریا بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ کینسر کے زیادہ تر کیسز میں اس کی وجہ معلوم نہیں ہو پاتی۔ کچھ مطالعات نے یہ اشارہ دیا ہے کہ کینسر کا تعلق آنتوں کی صحت سے ہو سکتا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ کینسر کے علاج کو چار بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: سرجری، کیموتھراپی، ریڈیئیشن، اور امیونو تھراپی۔ ان کے مطابق، دوران علاج غذائی رہنمائی صرف کینسر کے ماہرین سے لینی چاہیے۔
ڈاکٹر بھاٹیہ نے زور دیا کہ سماجی رویوں یا غیر مستند معلومات پر عمل کرنے کے بجائے مستند طبی مشورے پر عمل کریں۔ خود سے کسی مخصوص غذا یا جڑی بوٹیوں کا استعمال علاج کے دوران نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
ماہرین صحت اس بات پر متفق ہیں کہ صحت بخش خوراک کینسر کے خطرے کو کم کر سکتی ہے اور علاج کے دوران جسمانی قوت کو بہتر بنا سکتی ہے۔ ایسی غذائیں جو اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوں، جیسے کہ ہلدی، انار، یا اخروٹ، جسمانی صحت پر مثبت اثر ڈال سکتی ہیں۔ تاہم، یہ کہنا کہ صرف خوراک کینسر کے علاج کے لیے کافی ہے، ایک غیر حقیقت پسندانہ دعویٰ ہے۔
سدھو کا دعویٰ عوام میں صحت مند زندگی کے بارے میں شعور بیدار کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے، لیکن ماہرین صحت کے مطابق، اس کے ساتھ یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ لوگ سوشل میڈیا یا غیر مستند معلومات پر انحصار کرکے اپنے طبی علاج کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کینسر کے علاج میں تاخیر یا غیر سائنسی علاج اپنانا جان لیوا ہو سکتا ہے۔
یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سدھو کے دعوے کو عوام کو شعور دینے کے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس کے ساتھ سائنسی تحقیق اور ماہرین کی رہنمائی کو بھی ترجیح دی جائے۔