ہوشیار بُڑھیا (امریکی ادب سے منتخب افسانہ)

سیلی جینز (ترجمہ: ابوالفرح ہمایوں)

کام شروع کرنے سے پہلے اس نے اپنے تینوں ساتھیوں کو ڈنر پر بلایا۔ الزامور خوب اچھی طرح جانتا تھا کہ ساتھیوں کو خوش کیے بغیر ان سے کام لینا کس قدر مشکل ہے۔

”دوستو!“ اس نے اپنا جام اٹھایا، ”ہم لوگوں نے اپنے پلان کا ہر زاویے سے جائزہ لیا ہے، کہیں جھول نہیں ہے۔۔ پھر بھی مجھے خوشی ہوگی اگر تم میں سے کوئی اس پلان میں کوئی کمزور پہلو دریافت کر سکے۔ کیا تم میں سے کسی کو کوئی سوال پوچھنا ہے؟“

ٹونی نے کہا، ”باس! صرف ایک سوال۔۔ ہم لوگ کب تک سڑک کھودتے رہیں گے؟“

”بس دو دن تک۔۔ صبح سے شام آٹھ گھنٹے، بلکہ ضرورت ہوئی تو زیادہ بھی۔۔۔“

”اور کیا کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہوگا؟ آخر ہم لوگ نہ تو میونسپل کمیٹی کی طرف سے کھدائی کریں گے، نہ واٹر بورڈ کی طرف سے، نہ گیس کمپنی کی طرف سے اور نہ ٹیلیفون کی طرف سے۔۔ آخر ہمیں سڑک کھودنے کا کیا حق ہے؟“

”تم نے ایک اچھا سوال اٹھایا ہے ٹونی“ الز امور نے کہا، ”مگر تم نے ابھی فطرتِ انسانی کو نہیں پہچانا۔ کیا تم سڑک پر سے کبھی گزرے ہو، جب کہ چند مزدور سڑک کھود رہے ہوں؟ کیا تم نے بھی ان سے پوچھا ہے کہ تم لوگ کون ہو اور تمہیں کیا حق ہے؟ کیا تم نے اس قسم کا سوال کسی اور شخص کو پوچھتے ہوئے دیکھا ہے؟ ہرگز نہیں۔۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ اپنا کام چھوڑ کر اس قسم کے فضول سوالات میں اپنا وقت ضائع کرے۔ سب اپنا اپنا راستہ لیتے ہیں۔ بہر کیف اگر پھر بھی کسی نے پوچھا تو جواب دینے کے لئے میں موجود رہوں گا، فورمین کے لباس میں۔“

”باس !“ بل جیک پہلی بار بولا، ”یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ تم صرف کھڑے ہو کر ہم لوگوں کو کام کرتے ہوئے دیکھتے رہو جب کہ اصل محنت ہم لوگ کریں، یہ انصاف نہیں ہے۔“

”اصل کام دماغ کا ہے۔ بہرحال اگر پچاس ہزار پونڈ کے لیے تمہیں دو دن کھدائی کرنا پڑے گی تو آخر اس میں کیا حرج ہے۔ تھوڑی سی ورزش ہے اور کیا؟ لو یہ انگور کھاؤ۔“

اور پھر اس نے میز پر ایک مکہ مارا۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب محفل برخاست ہوئی۔۔۔ اور کل سے کام شروع ہو جائے گا۔

کرزن اسٹریٹ کے وسط میں انٹر نیشنل بینک کا بیرونی کرنسی برانچ تھا۔ الزامور نے سڑک کی کھدائی کے لئے تمام ضروری سامان فراہم کر لیا تھا۔ وہاں سڑک کے دونوں طرف دو بورڈ بھی لگے ہوئے تھے، جن پر لکھا تھا: ’خطرہ یہاں مزدور کھدائی کر رہے ہیں۔‘ متاثرہ علاقے کے گرد دو ریلنگ لگا دی گئی تھیں اور چار لال بتیوں کا بھی بندوبست تھا۔

”یاد رکھو!“ الزامور نے مزدوروں کو مخاطب کیا۔ چھ فٹ کی کھدائی کے بعد ایک پائپ نظر آئے گا۔ تمہارا کام یہ ہے کہ اس پائپ کے ساتھ ساتھ کھدائی کرتے چلے جاؤ کیونکہ یہ راستہ بینک کے خزانے کے فرش تک پہنچتا ہے۔۔ ہمیں کل شام چھ بجے تک اسی جگہ پر پہنچ جانا چاہیے۔ اس وقت تک بینک بند ہو چکا ہوگا اور عمارت بالکل خالی ہوگی۔“

دوپہر کے کھانے کے بعد ہی ’مزدور‘ تھک گئے ۔ انہوں نے آرام کے لیے وقت مانگا لیکن الزامور نے سختی سے انکار کر دیا۔ کام جاری رکھنا بے حد ضروری تھا۔۔ اور پھر شام ہو گئی۔ الزامور نے چھٹی کا اعلان کر دیا: ”ہمیں آج جہاں تک کھدائی کرنا تھی، نہیں کر سکے۔ اس لیے کل تم لوگوں کو سخت محنت کرنا پڑے گی۔اب تم لوگ گھر جاؤ اور آرام کرو۔“

دوسری صبح سب لوگ اپنے کام پر موجود تھے۔ کھدائی بے حد سخت تھی کیونکہ پتھریلی زمین کی کھدائی کرنا آسان کام نہیں ہے۔ بینک کی بلڈنگ کی بنیادیں کافی گہری تھیں۔ بہرحال شام پانچ بجے تک پلان کے مطابق کھدائی مکمل ہو چکی تھی۔ اب صرف انہیں انتظار تھا کہ بینک بند ہو اور اسٹاف کے لوگ چلے جائیں۔

ساڑھے پانچ بجے شام تک اسٹاف کا آخری آدمی بھی جا چکا تھا۔ بینک کے تمام دروازوں میں تالے لگ گئے۔ ایک مرتبہ پھر کھدائی شروع ہوئی۔ بینک کے فرش کے نیچے الزامور نے سرخ بتیوں کو روشن کر دیا تا کہ ٹریفک دوسری طرف سے گزرتی رہے۔ سوا چھ بجے فرش میں اتنا سوراخ ہو گیا تھا کہ ایک شخص با آسانی گزر سکے۔ سب سے پہلے اس سوراخ میں ٹونی کو داخل کیا گیا۔ اس کے پاس تالا توڑنے کے اوزار موجود تھے۔ اس کے پیچھے جیک ولن اور پھر سب سے آخر میں الزامور بھی داخل ہو گیا۔ الزامور کے دونوں ہاتھوں میں تیز پاور کے برقی ٹارچ جگمگا رہے تھے۔

لیکن چاروں کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ پولیس نے انہیں گھیرے میں لے لیا تھا۔ پولیس کے ساتھ وہ بڑھیا بھی موجود تھی، جو سڑک کے ایک طرف بیٹھ کر بچوں کے لیے کھانے پینے کی چیزیں اور کھلونے فروخت کیا کرتی تھی۔

الزامور نے نہایت حیرت سے سپاہیوں کی طرف دیکھا لیکن کسی سپاہی کے جواب دینے سے قبل بڑھیا آگے بڑھ آئی۔ اس نے مسکرا کر چاروں مجرموں کی طرف دیکھا اور نہایت فاتحانہ انداز میں گویا ہوئی، ”میں نے ہی ان کو ٹیلیفون کیا تھا کہ یہاں کوئی شدید گڑ بڑ معلوم ہوتی ہے۔ اس شبہ کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ عام مزدورں کے مقابلے میں بے حد چست و چالاک دکھائی دیتے ہیں۔ تم نے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔ تم میں سے کسی نے ایک سگریٹ تک نہیں پیا۔ لنچ کے لیے بھی کام بند نہیں کیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ تمہارا فورمین ہر آدمی سے بڑی نرمی اور شائستگی سے گفتگو کر رہا تھا، چنانچہ یہ بات ظاہر تھی کہ تم لوگ کسی ذاتی فائدے کے لئے کام کر رہے تھے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close