خلائی مخلوق کے ہاتھوں اغوا ہونے کے دعوے اور ان کا سائنسی تجزیہ

امر گل

ایک طرف لوگ اب تک یہ طے نہیں کر پائے کہ خلائی مخلوق واقعی موجود ہے یا نہیں، اور دوسری طرف کچھ افراد دہائیوں سے ان کے ہاتھوں اغوا ہونے کی حیرت انگیز داستانیں سناتے آئے ہیں۔ ایسی ہی پہلی مشہور کہانی ہے برنی اور بیٹی ہل کی، جو 1961ء میں نیو ہیمپشائر کے وائٹ ماؤنٹینز میں کار میں سفر کے دوران مبینہ طور پر اغوا ہو گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک پراسرار روشنی ان کا پیچھا کر رہی تھی، پھر اچانک سب کچھ دھندلا گیا۔ جب انہیں ہوش آیا، تو ان کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، گھڑیاں رکی ہوئی تھیں اور کئی گھنٹے بیت چکے تھے۔ بعد ازاں ہپنوسس کے ذریعے یادداشت واپس لائی گئی، تو انکشاف ہوا کہ انہیں ایک ’ڈسک نما‘ خلائی جہاز میں لے جایا گیا تھا، جہاں عجیب الخلقت مخلوق نے ان کا معائنہ کیا۔

اگرچہ کئی ناقدین نے اسے ایک پرانی فلم کی نقل قرار دیا، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ہپنوسس کے تحت دونوں نے بالکل ایک جیسی تفصیلات بیان کیں، جس نے بہت سوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔

1973 میں امریکی ریاست میسیسیپی کے شہر پاسکاگولا میں نوجوان کیلون پارکر اور ان کے ساتھی نے دعویٰ کیا کہ وہ دریا کنارے خلائی مخلوق کے ہاتھوں اغوا ہوئے۔ ان کے مطابق انہیں اڑن طشتری میں لے جایا گیا، جہاں عجیب مخلوق نے ان کا معائنہ کیا۔ ان کے ساتھ موجود ایک عینی شاہد خاتون اور پولیس کی خفیہ ریکارڈنگ نے ان کے بیان کو اور بھی پراسرار بنا دیا۔

سالوں بعد، تحقیق کار فلپ مینٹل نے انکشاف کیا کہ پارکر صرف دو نہیں بلکہ تین بار خلائی مخلوق سے رابطے کا تجربہ کر چکے تھے۔ آخری بار 1992 میں جب وہ ایک دوست کے ساتھ گاڑی میں جا رہے تھے، اچانک گاڑی بند ہو گئی اور قریب کے جنگل میں پراسرار روشنی نے انہیں اپنی جانب کھینچ لیا۔ اس بار وہ اپنی مرضی سے خلائی جہاز میں گئے اور 1973 والی ہی مخلوق سے دوبارہ ملے، مگر اس بار وہ خوفزدہ نہیں بلکہ پُرسکون اور ہمدرد محسوس کر رہے تھے۔

تحقیق کار مینٹل کہتے ہیں، ”کیلون نے اس ملاقات کا مجھ سے کبھی ذکر نہیں کیا، اگر وہ پرانی ویڈیو نہ ملتی، تو یہ راز ہمیشہ راز ہی رہتا۔“

خلائی مخلوق کے ہاتھوں اغوا کا دعویٰ کرنے والوں میں برطانیہ کے شہر بریڈفورڈ سے تعلق رکھنے والی 50 سالہ پاولا اسمتھ سب سے آگے رہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں اب تک 52 مرتبہ خلائی مخلوق نے اغوا کیا ہے۔ ان کا پہلا تجربہ 1982 میں ہوا جب وہ صرف 6 سال کی تھیں۔ پاؤلا کے مطابق، انہوں نے خلائی جہازوں میں جدید ٹیکنالوجی دیکھی، جیسے ٹچ اسکرینز، جو زمین پر اس وقت موجود نہیں تھیں۔ انہوں نے اپنے جسم پر موجود خراشوں اور نیلوں کو اغوا کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے۔

پاؤلا کا کہنا ہے کہ ان اغوا کے واقعات میں انہیں زمین کی تباہی کے مناظر دکھائے گئے، جو انسانی لالچ کا نتیجہ تھے۔ انہوں نے خلائی مخلوق کی تصاویر بھی شیئر کیں، جنہیں انہوں نے خود بنایا ہے۔

ایسا ہی دعویٰ کرنے والے ایک اور شخص مارک ایچ کا کہنا ہے کہ اسے خلائی مخلوق نے اغوا کیا۔ وہ واضح طور پر یاد کرتا ہے کہ ایک رات وہ اچانک جاگا لیکن اپنی آنکھوں کو حرکت دینے کے علاوہ کچھ بھی حرکت نہ کر سکا۔ اس نے چمکتی روشنی دیکھی، بھنبھناہٹ کی آواز سنی، ہوا میں معلق ہونے کا احساس ہوا، اور بجلی کے جھٹکوں جیسی سنسناہٹ محسوس کی۔ اس کے دعوے کے مطابق سب سے زیادہ خوفناک منظر وہ غیرانسانی مخلوق تھی جو اس کے بستر کے قریب کھڑی تھی!

مارک کا ماننا ہے کہ وہ خلائی مخلوق تھی۔

بعد میں، مارک نے یہ جاننے کے لیے ہپناسس کروایا کہ اس کے ساتھ اصل میں کیا ہوا تھا۔ ہپناسس کے دوران، اسے یاد آیا کہ اسے ایک کھلی کھڑکی سے باہر لے جایا گیا اور ایک بڑی خلائی جہاز میں پہنچایا گیا۔ وہاں وہ بہت خوفزدہ ہوا جب خلائی مخلوق اسے ایک طبی معائنے کے کمرے میں لے گئی، جہاں اس کا ان میں سے ایک کے ساتھ جنسی تعلق قائم ہوا۔

اس کے بعد خلائی مخلوق نے اسے واپس زمین پر لاکر بستر پر رکھ دیا۔

مارک اس تجربے کو انتہائی خوفناک قرار دیتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی ہوا؟ یا اس طرح کے دعوے کرنے والے دیگر لوگوں کی باتوں میں واقعی کوئی سچائی ہے؟

خلائی اغوا کے دعووں کا تجزیہ

ہارورڈ یونیورسٹی کے کچھ محققین نے یہ جاننے کے لیے ایک تجربہ ترتیب دیا کہ کیا خلائی اغوا کی یادیں وہی جسمانی ردِ عمل پیدا کرتی ہیں جو جنگ کے تجربات یا مہلک حادثات سے گزرنے والے افراد میں دیکھے جاتے ہیں۔

نفسیات کے پروفیسر رچرڈ مک نالی اور ان کے ساتھیوں نے چھ خواتین اور چار مردوں کو اس تحقیق میں شامل کیا جنہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ خلائی مخلوق کے ہاتھوں اغوا ہو چکے ہیں، کچھ تو کئی بار۔۔ ان میں سے سات افراد نے ہپناسس کے دوران بتایا کہ ان کا نطفہ یا انڈے افزائشِ نسل کے لیے حاصل کیے گئے، یا ان کا خلائی مخلوق سے جنسی تعلق قائم ہوا!

مک نالی یا ان کی ساتھی پروفیسر سوسن کلینسی نے ان افراد کے انٹرویو کیے۔ ہر ایک نے اپنے اغوا کی کہانی ایک اسکرپٹ کی صورت میں لکھی، جسے ایک غیرجذباتی آواز میں آڈیو ٹیپ پر ریکارڈ کیا گیا۔ پھر ان افراد نے یہ ٹیپ ویٹرنز افیئرز میڈیکل سینٹر، مانچسٹر (نیو ہیمپشائر) کی تجربہ گاہ میں سنیں، اور محققین نے دل کی دھڑکن، ہاتھوں کی پسینہ خارج کرنے کی شرح جیسے عوامل سے ان کے جذباتی ردعمل کا مشاہدہ کیا۔

یہی تجربہ ان آٹھ افراد پر بھی کیا گیا جنہوں نے کوئی اور صدمہ (جیسے جنسی زیادتی یا مہلک حادثہ) جھیلا تھا لیکن خلائی اغوا کا دعویٰ نہیں کیا۔

جب دونوں گروہوں کے نتائج کا موازنہ کیا گیا تو حیران کن بات سامنے آئی: خلائی اغوا کا دعویٰ کرنے والوں کے جسمانی ردعمل اتنے ہی شدید تھے جتنے جنگ، زیادتی یا موت کے قریب تجربات سے گزرنے والوں کے۔

مک نالی نے ڈینور میں منعقدہ امریکی سائنسی تنظیم کے اجلاس میں کہا: ”نتائج جذباتی یقین کی طاقت کو واضح کرتے ہیں۔ جو لوگ اخلاص سے یقین رکھتے ہیں کہ انہیں اغوا کیا گیا، ان کے جسمانی اور جذباتی ردعمل بالکل اُن لوگوں جیسے ہوتے ہیں، جنہوں نے واقعی زندگی میں صدمہ جھیلا ہو۔“

کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنا

بہرحال مک نالی اور ہارورڈ کے دیگر محققین کا کہنا ہے کہ وہ ان دعووں کو سچ نہیں مانتے کہ واقعی خلائی مخلوق نے ان افراد کو اغوا کیا۔ تو پھر یہ پائیدار اور شدید یادیں کہاں سے آئیں؟

ان کے مطابق، ان تجربات کو ایک مظہر سے جوڑا جا سکتا ہے جسے وہ ”کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنا“ کہتے ہیں۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص نیند سے جاگتا ہے لیکن اس کی مکمل جسمانی حرکت واپس نہیں آتی۔ نیند کے دوران مکمل جسمانی مفلوجی (sleep paralysis) ایک فطری حفاظتی عمل ہے جو ہمیں خوابوں میں حقیقت میں حرکت کرنے سے روکتا ہے۔

جاگتے وقت اگر جسم ابھی تک مفلوج ہو اور دماغ بیدار ہو جائے تو وہ شخص چمکتی روشنی، سایے، یا مخلوق جیسی ہالوسینیشنز (وہم/خواب نما مظاہر) دیکھ سکتا ہے۔

یہ کیفیت عام ہے اور دماغی بیماری کی علامت نہیں، مگر جب فالج اور وہم بیک وقت ہوتے ہیں تو اکثر لوگ اسے خوفناک سمجھتے ہیں اور اس کا مطلب تلاش کرنے لگتے ہیں۔

کچھ لوگ ماہرینِ نفسیات سے رجوع کرتے ہیں، جو ہپناسس کے ذریعے یادیں واپس لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان نشستوں میں اکثر جھوٹی یادیں بھی جنم لے سکتی ہیں جن میں خلائی جہاز، طبی تجربات اور جنسی تعلقات شامل ہوتے ہیں۔

محققین کی جانچ سے پتا چلا کہ ان افراد میں دماغی بیماری کا کوئی خاص ثبوت نہیں، لیکن وہ خیالی دنیاؤں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ موسیقی سنتے یا فلم دیکھتے وقت خود کو اس کہانی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ مک نالی کے مطابق، عام اغوا کا دعویٰ کرنے والا فرد ”نیو ایج عقائد جیسے تناسخ، روحانی سفر، ٹیلی پیتھی، متبادل علاج اور علمِ نجوم“ میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ خلائی اغوا کے عقیدے کی بنیاد چند عوامل کے امتزاج پر ہے: نیو ایج عقائد، نیند کی مفلوجی، ہالوسینیشن، اور ہپناسس کے دوران پیدا ہونے والی جھوٹی یادیں۔

 بھوت، چڑیلیں اور شیطانی جنات

مک نالی کہتے ہیں کہ ان تجربات کی مختلف ثقافتوں میں مختلف تعبیریں کی جاتی رہی ہیں۔ ہر وہ شخص جس نے یہ کیفیت محسوس کی، لازماً خلائی اغوا کی بات نہیں کرتا۔

کبھی اسے شیطان یا بھوت کا سایہ سمجھا گیا۔ نیو فاؤنڈ لینڈ میں لوگ اسے ”اولڈ ہیگ“ کہتے ہیں، ایک چڑیل جو بستر پر آ بیٹھتی ہے۔ یورپ میں یہ ”انکیبس“ نامی بدروح کے طور پر جانا جاتا تھا جو سوتے انسان پر بیٹھ جاتا، یا ”سکیبس“ ، ایک عورت کی شکل میں آنے والا شیطان جو مردوں سے خواب میں جنسی تعلق قائم کرتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جن افراد نے خلائی مخلوق کے ہاتھوں اغوا ہونے کا دعویٰ کیا، وہ اکثر اپنے تجربے کو روحانی تبدیلی سے تعبیر کرتے ہیں۔ کچھ کو خوشی ہے کہ انہیں بین النوع افزائش پروگرام کے لیے چُنا گیا۔

مک نالی کے مطابق: ”اکثر افراد بالآخر اس تجربے کو روحانی طور پر بامقصد سمجھتے ہیں۔“

 سوزن اے کلینسی اپنی کتاب میں کیا لکھتی ہیں؟

سائنسی ثبوتوں کی عدم موجودگی کے باوجود، بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خلائی مخلوق موجود ہے۔ ان میں سے ایک خاصی تعداد یہ بھی مانتی ہے کہ ان مخلوقات نے زمین کا دورہ کیا ہے، اور کچھ تو اس حد تک یقین رکھتے ہیں کہ انہیں خود ان خلائی مخلوقات نے اغوا کیا۔ یہ وہ موضوع ہے جس پر ایک نئی کتاب لکھی گئی ہے: "اغوا: لوگ کیسے یقین کرنے لگتے ہیں کہ انہیں خلائی مخلوق نے اغوا کیا” ۔ یہ کتاب ہارورڈ یونیورسٹی کی ماہر نفسیات سوزن کلینسی نے لکھی ہے۔

یہ کتاب ایک سائنسی اور نفسیاتی تحقیق ہے جس میں سوزن کلینسی اُن افراد کے دعوؤں کا تجزیہ کرتی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہیں خلائی مخلوق نے اغوا کیا۔ کلینسی کا مقصد اس بات کا سائنسی و نفسیاتی جائزہ لینا ہے کہ لوگ ایسے غیر معمولی واقعات پر یقین کیوں اور کیسے کرتے ہیں، نہ کہ ان واقعات کی سچائی یا جھوٹ کا فیصلہ کرنا۔۔

ایک انٹرویو میں سوزن کلینسی بتاتی ہیں، ”دراصل، میں اس شعبے میں اس لیے نہیں آئی کہ مجھے خلائی مخلوقات یا UFOs (اڑن طشتریوں) میں دلچسپی تھی، بلکہ میں اس لیے آئی کیونکہ مجھے انسانی یادداشت میں بگاڑ اور جھوٹی یادداشتوں کے بننے میں دلچسپی تھی۔ یعنی یہ جاننا کہ لوگ کیسے ان چیزوں پر یقین کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں یاد رکھنے لگتے ہیں جو ان کے ساتھ کبھی پیش ہی نہیں آئیں۔“

کلینسی کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ زیادہ تر لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں خلائی مخلوق نے اغوا کیا، ان کے پاس اس واقعے کی کوئی واضح یادداشت نہیں ہوتی۔ وہ صرف کچھ تجربات یا علامات کی بنیاد پر شک کرتے ہیں، جو ان کے خیال میں اغوا کے واقعات سے میل کھاتے ہیں، جنہیں انہوں نے پڑھا، ٹی وی پر دیکھا یا فلموں میں مشاہدہ کیا۔

ذیل میں ہم سنگت میگ کے قارئین کے لیے اس کتاب کا جامع خلاصہ پیش کر رہے ہیں۔

1. یادداشت ناقابلِ اعتبار اور بگڑنے کے قابل ہے:
کلینسی بتاتی ہیں کہ انسان کی یادداشت ایک ریکارڈنگ مشین نہیں، بلکہ ایک تعمیر شدہ عمل ہے جو وقت، جذبات، ماحول، اور معاشرتی اثرات کے تحت بدل سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ ایسے واقعات کی ”یاد“ رکھتے ہیں جو حقیقت میں کبھی پیش ہی نہیں آئے۔

2. نیند میں فالج (Sleep Paralysis)، ہپناسس اور صدماتی تجربات:
اغوا کے بہت سے دعوے نیند کے دوران ہونے والے فالج، ماضی کے دبے ہوئے صدمات، یا ہپناسس کے تحت پیدا ہونے والی جعلی یادوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ ایسے تجربات اکثر ”حقیقی“ لگتے ہیں، مگر ان کی بنیاد سائنسی طور پر قابلِ وضاحت ہوتی ہے۔

کلینسی نے اس بات کی وضاحت اپنے انٹرویو میں یوں کی ”ایسے عام لوگوں سے میری جو بات ہوئی، ان میں اکثر نے نیند کے دوران کچھ عجیب تجربات کا ذکر کیا۔ مثلاً نیند کے دوران جسم کا مفلوج ہو جانا، یعنی ”سلیپ پیرالیسس“ یہ ایک عام تجربہ ہے۔ آپ رات میں اچانک بیدار ہوتے ہیں، لیکن حرکت نہیں کر سکتے۔ یہ ایک خوفناک تجربہ ہوتا ہے، جو تقریباً ایک منٹ جاری رہتا ہے۔ میرے بات چیت کرنے والے بعض افراد نے ایسے ہی تجربے کے بعد سوچا کہ ”یا خدا، یہ کیا ہوا؟“ بعد میں، جب انہوں نے اس موضوع پر کچھ پڑھا یا ٹی وی پر کچھ دیکھا، تو انہیں لگا کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہوا وہ ’کلوز انکاؤنٹرز آف دی تھرڈ کائنڈ‘ یا ’بڈ ہاپکنز‘ کے تحقیقی کیسز جیسا تھا۔ بڈ ہاپکنز ایک محقق ہیں جنہوں نے ان افراد پر کتابیں لکھی ہیں جو ہپناسس کے دوران اپنے اغوا کی یادیں بیان کرتے ہیں۔

3. میڈیا اور ثقافتی اثرات:
خلائی مخلوق کے اغوا کے بیانیے زیادہ تر 1960ء کے بعد سامنے آنا شروع ہوئے، جب سائنس فکشن فلمیں، ٹی وی شوز، اور دیگر ثقافتی ذرائع میں aliens کے قصے عام ہونے لگے۔ کلینسی اسے ”مقامی اساطیری روایات“ (Domestic Mythology) قرار دیتی ہیں۔

4. اغوا کا یقین: ایک نفسیاتی تسکین اور شناخت کا ذریعہ:
بعض افراد کے لیے یہ عقیدہ کہ انہیں خلائی مخلوق aliens نے اغوا کیا، ان کی زندگی کے مسائل کو سمجھنے اور ایک نئی شناخت حاصل کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ وہ خود کو ”منتخب شدہ“ محسوس کرتے ہیں، اور یہ احساس انہیں روحانی اور جذباتی تسکین دیتا ہے۔

5. سچائی بمقابلہ عقیدہ:
کلینسی تسلیم کرتی ہیں کہ ان دعوؤں کا سائنسی بنیادوں پر رد ممکن ہے، لیکن ان افراد کے لیے یہ تجربات ایک ”روحانی حقیقت“ بن جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ”یہ جھوٹے تو ہوتے ہیں، مگر جھوٹ محسوس نہیں ہوتے۔“

6. تحقیقی احتیاط اور اخلاقیات:
کلینسی نے اپنے سائنسی مؤقف کے باوجود ان افراد کی جذباتی کیفیت کو سمجھنے اور عزت دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کی تحقیق کا مقصد ان لوگوں کو جھٹلانا یا مذاق اڑانا نہیں، بلکہ انسانی ذہن کی پیچیدگی کو سمجھنا ہے۔

کلینسی کی یہ کتاب ایک اہم سائنسی تحقیق ہے جو یہ بتاتی ہے کہ خلائی مخلوق کے اغوا کے بیانیے دراصل انسانی ذہن، یادداشت، جذباتی ضروریات، اور ثقافتی اثرات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اگرچہ سچائی کا کوئی مادی ثبوت موجود نہیں، لیکن یہ عقائد لوگوں کے لیے ”نفسیاتی حقیقت“ بن جاتے ہیں۔

انٹرویو میں جب کلینسی سے پوچھا گیا کہ یہ جنسی اور جسمانی تجربات کا معاملہ کیا ہے؟ سب ایسا ہی کیوں کہتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا، ”دیکھیں، میں اس کا جواب یوں دوں گی کہ فلموں اور ٹی وی میں خلائی مخلوقات کے اغوا اور ان تجربات کو پہلے دکھایا جا چکا ہے، اس سے پہلے کہ لوگ خود کہیں کہ یہ ان کے ساتھ ہوا۔ لوگ اکثر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ "میں چھ سال کا تھا جب مجھے اغوا کیا گیا، اور میں اب 81 کا ہوں، اور اُس وقت تو میں نے کوئی ٹی وی شو نہیں دیکھا تھا” — مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ انہیں وہ واقعہ بعد میں زندگی میں، ہپناسس کے دوران یاد آیا۔ میں صرف یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ کسی نے بھی اس قسم کا اغوا ہونے کی بات اُس وقت نہیں کی جب تک انہوں نے پہلے کہیں اس کا تصور یا کہانی نہ دیکھی ہو، مثلاً 1960 کی دہائی میں ٹی وی سیریز ’دی آؤٹر لِمٹس‘ میں کئی اقساط تھیں جن میں خلائی مخلوق آتی ہے اور انسانوں پر طبی تجربات کرتی ہے۔“

اس سوال پر کہ جب آپ ان لوگوں کو سائنسی وضاحتیں دیتی ہیں، جیسے کہ نیند کی فالج جیسی حالت، تو ان کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟ سوسن کلینسی کا کہنا تھا ”زیادہ تر ناراض ہو جاتے ہیں۔ کتاب میں بھی یہی بات لکھی ہے۔ وہ یہ سننا چاہتے تھے کہ میں کہوں، ’ہاں، میں نے تحقیق کی اور یہ سچ ہے۔‘ لیکن میں ایسا نہیں کہہ سکتی۔ کیونکہ میرے پاس بہتر سائنسی وضاحتیں ہیں۔ مگر میں ان کی کہانیوں کو مکمل طور پر رد بھی نہیں کر سکتی، کیونکہ سائنس خلائی مخلوق کے اغوا کو مکمل طور پر جھٹلا نہیں سکتی۔“

ماخذ:
1۔ نیشنل پبلک ریڈیو (NPR)
2۔ ہارورڈ ایجوکیشن گزیٹ
3۔ سوزن اے کلینسی کی کتاب: ”اغوا: لوگ کیسے یقین کرنے لگتے ہیں کہ انہیں خلائی مخلوق نے اغوا کیا“ Abducted: How People Come to Believe They Were Kidnapped by Aliens

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button