سرکاری ٹی وی کی اینکر مہتاب چنا، جنہوں نے ضیا الحق کو ’نہ‘ کہا

عماد احمد

مہتاب چنا جب سنہ 1976 میں اپنا ماسٹرز مکمل کرنے کے لیے امریکہ کے ایمہرسٹ کالج جا رہی تھیں تو وہ جس پاکستان کو چھوڑ کر جا رہی تھیں، وہاں اس وقت نوزائیدہ جمہوریت تھی۔ جب دو برس بعد سنہ 1978 کی گرمیوں میں وہ وطن واپس آئیں تو ملک میں آمریت کا راج تھا۔
انہوں نے اپنے اردگرد رونما ہونے والی تبدیلیوں کو محسوس کیا۔ لوگوں کے لباس زیب تن کرنے میں تبدیلی آ گئی تھی اور اب شام کو نیوز اینکرز کا خبریں پڑھنے کا انداز بھی بدل گیا تھا۔ چھوٹی چھوٹی لیکن عجیب تبدیلیاں، انہیں سادہ انداز میں بیان نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ ملک مارشل لا کے زیرِتسلط تھا۔

29 سالہ مہتاب امریکہ میں تھیں جب انہیں پانچ جولائی 1977 کو ایک منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹا کر آرمی چیف جنرل ضیا الحق کے اقتدار سنبھالنے کی خبر ملی۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد ضیا الحق نے ٹی وی پر آ کر 90 روز میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا: ’میرا واحد مقصد شفاف انتخابات کا انعقاد ہے جو رواں برس اکتوبر میں منعقد ہو گے۔ انتخابات کے بعد عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل کر دیا جائے گا۔‘

لیکن اس برس کوئی انتخابات نہ ہوئے اور ستمبر 1978 میں ضیا الحق خود ہی صدر بن گئے جبکہ بھٹو جیل میں تھے۔

مہتاب چنا امریکہ میں بین الاقوامی امور میں ڈگری لینے سے قبل ریڈیو اور ٹیلی وژن میں شو کرتی تھیں اور سندھ یونیورسٹی میں پڑھاتی تھیں۔ ان کا تعلق ایک متوسط طبقے سے تھا اور چھ بہن بھائیوں میں سے وہ سب سے چھوٹی تھیں۔

ان کے والد ایک روشن خیال استاد تھے اور چاہتے تھے کہ ان کے سبھی بچے اعلٰی تعلیم حاصل کریں۔ لیکن لاڑکانہ کے قریب نوڈیرو کے اس چھوٹے سے گاؤں میں لڑکیوں کی ثانوی تعلیم کے لیے کوئی سکول موجود نہیں تھا، اس لیے وہ اپنے خاندان کے ساتھ حیدرآباد منتقل ہو گئے۔
مہتاب چنا کسی طرح اعلٰی تعلیم کے لیے امریکہ جانے میں کامیاب ہو گئیں، اور گھر والوں کی حمایت کے ساتھ اس تجربے نے ان کے ذہنی افق کو جلا بخشی۔

ڈچ نژاد لبنانی صحافی كيم غطاس کی کتاب ’بلیک ویو‘ کے مطابق سنہ 1970 کی دہائی کے وسط میں پاکستانی یونیورسٹیوں کے طلبہ میں 50 فیصد سے زائد خواتین تھیں۔ پردہ، ورکنگ کلاس خواتین، کھیتوں میں کام کرنے والیں یا گھروں تک محدود عورتوں کا انتخاب نہیں تھا۔

مہتاب کی دادی نے کبھی باقاعدہ پردہ نہیں کیا تھا اور ان کی والدہ بھی بس گاؤں جاتے ہوئے برقع پہنتی تھیں۔ ان کی بڑی بہن نے ابتدا میں برقع پہنا اور پھر چھوڑ دیا کیونکہ پہلے وہ استاد اور پھر اسکول پرنسپل بن گئی تھیں۔
یہ پانچ بہنیں اپنے شوخ رنگ کے ڈوپٹوں کے ساتھ سائیکلیں چلاتی تھیں اور ان کی اس اڑان پر ان کے والد کو فخر تھا۔

كيم غطاس کے مطابق جب ضیا الحق نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے خود کو ’اسلام کا سپاہی‘ قرار دیا، ایک مسلم اکثریت والے ملک میں بہت کم ہی افراد نے غور کیا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔
مہتاب چنا کو اس وقت حیران و پریشان ہو گئیں جب انہوں نے سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور مشہور شاعر ایاز شیخ کو پینٹ شرٹ کی بجائے کرتا شلوار پہنے دیکھا۔ انہیں فوری طور پر محسوس ہوا کہ کچھ تو غلط ہے۔

شیخ ایاز ایک مشہور رومانوی اور انقلابی شاعر تھے اور اپنی جوانی میں برطانوی راج کے خلاف نظمیں لکھتے رہے تھے۔ اس دن وہ کچھ شرمندہ شرمندہ سے تھے۔ وہ کبھی یونیورسٹی شلوار قمیض پہن کر نہیں آئے تھے لیکن ضیا الحق نے سرکاری حکام، طلبہ اور اسکول جاتے بچوں کے لیے شلوار قمیض کو قومی لباس قرار دے دیا تھا، اور ’باغی‘ ایاز اس نئے فیشن سے ہم آہنگ ہونے کی تگ و دو کر رہے تھے۔

اس واقعے کے حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مہتاب چنا نے بتایا کہ ’شیخ ایاز کی پہچان ایک ترقی پسند اور باغی شاعر کی تھی لیکن سرکاری حکم نامے کے بعد وہ شلوار قمیض پہننے لگے۔ ہم نے تو انہیں امامت کرتے بھی دیکھا۔‘

شیخ ایاز کے اس حکم نامے پر احتجاج یا کوئی مزاحمت نہ دکھانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’شیخ ایاز کو وائس چانسلر ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا تھا لیکن ضیا الحق کے اقتدار سنبھالنے کے بعد انہوں نے استعفیٰ نہ دیا بلکہ بھٹو کی پھانسی پر بھی استعفیٰ نہ دیا۔ شاید ان میں اتنی ہمت نہیں تھی۔‘

ضیا دور میں شیخ ایاز کی قلب ماہیت کے بارے میں نامور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے بھی اپنی خود نوشت ’در در ٹھوکر کھائے‘ میں لکھا ہے۔

’جب ضیا الحق صدر بنے اور اس کے کچھ مہینوں بعد ہی انہوں نے اسلامی نظام کے نفاذ کی جو کوششیں کیں، تو اس کا سب سے پہلا اثر شیخ ایاز پر ہوا۔ شیخ صاحب کی مدت ملازمت پوری ہو رہی تھی لیکن وہ ہر حالت میں وی سی رہنا چاہتے تھے۔ اس لیے حکومت کی خوشنودی کے لیے انہوں نے اپنے کمرے سے باہر نماز باجماعت کا انتظام کیا، چونکہ ان کا پیٹ کافی نکلا ہوا ہے اس لیے ان کے لیے علیحدہ سے چوکی رکھی گئی جہاں شیخ صاحب سب کے سامنے نماز باجماعت ادا کرتے تھے۔‘

ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد ضیا الحق نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے رجعت پسند اور مذہبی عناصر کے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔ انہوں نے مذہب کو اپنے اقتدار کے لیے استعمال کیا۔ معاشرے میں دکھاوا معتبر ٹھہرا، گھٹن بڑھنے لگی اور روشن خیالی جرم ٹھہری۔
ایسے ماحول میں مہتاب چنا کو کہا گیا کہ انہیں ٹی وی سکرین پر ڈوپٹہ پہن کر آنا ہو گا، انہیں جھٹکا سا لگا، ضیا الحق ملک کو واقعی بدل رہا تھا۔

سنہ 1980 کے ابتدائی مہینوں میں اسلام آباد سے احکامات آئے کہ پی ٹی وی پر اب خواتین اینکرز کو سر پر ڈوپٹہ لینا ہوگا۔

مہتاب چنا ایک نیک دل مسلمان خاتون تھیں۔ وہ مزاجاً سیکولر تھیں اور جس ماحول میں ان کی پرورش ہوئی تھی وہاں مذہب کو ایک ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے۔
كيم غطاس کے مطابق انہوں نے اپنی ساتھی کوپریزینٹر کو کہا کہ ’میں ایک ڈکٹیٹر کے کہنے پر اپنا سر نہیں ڈھانپوں گی۔‘

اس انکار کے بعد پرائم ٹائم کے بعد سندھی زبان میں ہونے والے پروگرامز انہیں مل گئے اور وہ اس معاملے سے کچھ عرصہ دور رہیں۔

ایک دن مہتاب کو پی ٹی وی کے کراچی سے نشر ہونے والے ایک پروگرام کی میزبانی کے لیے کہا گیا۔ انہوں نے پروڈیوسر کو انتباہ کی کہ ’میں سر نہیں ڈھانپوں گی۔‘ اس نے رضامندی ظاہر کی۔
اس وقت ملک میں اس قدر خوف نہیں تھا اور کہی نہ کہی چھوٹے یا بڑے پیمانے پر مزاحمت دکھائی جاتی تھی۔
ضیا الحق نے جب خواتین نیوز کاسٹرز کے میک اپ کرنے پر پابندی عائد کی تو انہوں نے احتجاجاً ایک ہفتے تک خبریں نہ پڑھیں اور نتیجتاً پابندیوں کو نرم کر دیا گیا۔

سنہ 1980 کے آخر تک مہتاب اکیلے پروگرام کرتی تھیں، وہ قومی ٹیلی وژن پر لوگوں کے خطوط پڑھتی اور ان کے جوابات دیتی۔ کچھ مہینوں تک وہ سر پر ڈوپٹہ اوڑھے بغیر پروگرام کرتی رہیں لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے اور وہ وقت آ گیا جب انہیں کیریئر یا اپنی شخصیت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔

ایک دن صدر کے دفتر سے فون آیا کہ مہتاب کو سر پر دوپٹہ اوڑھنا ہو گا ورنہ انہیں ہٹا دیا جائے۔

ان کے پروڈیوسر نے انہیں حیدرآباد ان کے گھر فون کیا اور کہا کہ ’ہم مصیبت میں ہیں۔۔۔یہ ہدایات ہیں، برائے مہربانی ہماری مدد کرو۔‘
مہتاب چنا نے سوچ میں پڑے بغیر جواب دیا کہ ’میں تمہاری مدد کرتی ہوں، میں مزید پروگرام نہیں کروں گی۔‘
ایک آمر کے حکم کو ماننے سے انکار کرنے والی مہتاب چنا نے اپنے اس فیصلے کے حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میرا جو خاندانی پس منظر تھا، والدین اور استاتذہ کی تربیت تھی وہ مجھ میں آج بھی زندہ ہے۔ میرے والد نے کہا تھا کہ کسی بڑے عہدے یا امیر شخص سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں۔‘

’پی ٹی وی سے مجھے 40 ہزار ماہانہ ملتے تھے جبکہ یونیورسٹی میں پڑھانے کے مجھے ساڑھے تین ہزار ملتے تھے۔ لیکن میرے اس فیصلے پر گھر والوں نے میرا ساتھ دیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’شہرت، دولت اور منصب آپ کو کمزور کرتا ہے لیکن میرے لیے یہ ثانوی چیزیں تھیں، میرے لیے میری شخصیت، میرا اعتماد اور اپنے مذہب پر میرا یقین زیادہ اہم تھے۔‘
مہتاب کا جواب سن کر ان کے پروڈیوسر نے سُکھ کا سانس لیا۔ کسی میں انہیں نکالنے کی ہمت نہیں تھی لیکن ایک آمر کے احکامات نہ ماننے کا بھی کسی میں حوصلہ نہ تھا۔

پی ٹی وی کی جانب سے ان کے اچانک پروگرام چھوڑ کر جانے کی کوئی وجہ نہ بتائی گئی اور کئی ہفتے تک ناظرین کی نگاہیں انہیں ڈھونڈتی رہیں۔

ایک دن ایک صحافی نے کراچی سے مہتاب کو فون کیا اور حیدرآباد ان سے ملنے آیا۔ مہتاب نے اسے چائے پلائی اور اپنی ساری کہانی سنائی۔
اگلے دن کراچی سے شائع ہونے والے اخبار ایونگ ٹائمز نے مہتاب کی تصویر کے ساتھ فرنٹ پیج پر اس سرخی کے ساتھ خبر شائع کی: LA DUPATTA—no dupatta
مہتاب چنا اب پاکستان میں ایک ایسی خاتون کے طور پر جانی جاتی تھیں جس نے ’نہ‘ کہا تھا۔ ان کے خاندان خاص طور پر ان کے والد کو ان پر بہت فخر تھا۔

انہوں نے تدریس کا عمل جاری رکھا اور یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بھی انہیں سر پر ڈوپٹہ لینے کو کہا گیا پر انہیں بھی انکار سننا پڑا۔

ضیا الحق کو نہ کہنے والی مہتاب چنا نے سنہ 1981 میں اپنی محبت اکبر راشدی کو ہاں کہہ دی۔ اکبر کا تعلق لاڑکانہ کے ایک بڑے سندھی گھرانے سے تھا۔ ان کی شادی ایک بڑی تقریب تھی اور سندھ بھر سے لوگوں نے اس میں شرکت کی۔

شادی میں شرکت کرنے والوں میں بھٹو خاندان بھی تھا جو ضیا کی آمریت میں اس وقت تنہائی کا شکار تھا۔

مہتاب چنا اب مہتاب راشدی بن چکی تھیں اور تقریب کی مناسبت سے ایک خوبصورت لال رنگ کا ڈوپٹہ سر پر اوڑھا ہوا تھا۔ انہوں نے روایت کے آگے سرتسلیم کیا لیکن ’ضیا کے اسلام‘ کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کی قیمت بھی انہیں چکانی پڑی اور پی ٹی وی نے ان کے پروگرامز کا تمام ریکارڈ ختم کر دیا۔

بشکریہ: اردو نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close