بھارت: مالیگاؤں میں 9 دن میں سوا کروڑ کی اردو کتابیں فروخت

ویب ڈیسک

مہاراشٹر – بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شمال مشرق میں واقع چھوٹے سے قصبے مالیگاؤں میں منعقد ہونے والے ایک اردو کتاب میلے میں ایک کروڑ پچیس لاکھ بھارتی روپے سے زائد مالیت کی اردو کتابیں فروخت ہوئیں

18 سے 26 دسمبر تک منعقد ہونے والے اس نو روزہ کتاب میلے کا انعقاد بھارت میں اردو زبان کے فروغ کے لیے کام کرنے والے سرکاری ادارے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل) کی جانب سے کیا گیا تھا

این سی پی یو ایل 2001 سے بھارت کے مختلف شہروں اور قصبوں میں ’قومی اردو کتاب میلوں‘ کا انعقاد کرتا آ رہا ہے اور مالیگاؤں کا یہ میلہ اسی سلسلے کی چوبیسویں کڑی تھی

ادارے کا کہنا ہے کہ مالیگاؤں کا میلہ اب تک بھارت میں ہونے والے اردو کتاب میلوں میں سب سے زیادہ کامیاب ثابت ہوا، جس میں رکارڈ تعداد میں کتابیں فروخت ہوئیں

دلچسپ بات یہ ہے کہ مالیگاؤں نے اردو کتابوں کی فروخت کے معاملے میں اپنا ہی رکارڈ توڑ دیا ہے۔ اس سے قبل 2014 میں یہاں منعقد ہونے والے پہلے ’قومی اردو کتاب میلے‘ میں ستاسی لاکھ روپے کی اردو کتابیں فروخت ہوئی تھیں

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عقیل احمد نے اس کی وجہ مالیگاؤں کے لوگوں کی جنون کی حد تک اردو سے محبت کو قرار دیا

ڈاکٹر عقیل احمد کا کہنا ہے کہ مالیگاؤں ایک چھوٹی سی جگہ ہے لیکن اس کے باوجود یہاں ایک سو سے زیادہ اردو میڈیم اسکول ہیں۔ اکثر اسکولوں میں ہزاروں بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ جس علاقے میں بچیوں کی تعلیم پر اس قدر توجہ دی جاتی ہو، اس علاقے کا مستقبل یقیناً روشن ہے۔ جس علاقے میں اتنی بڑی تعداد میں بچیاں پڑھتی ہوں تو ظاہر سی بات ہے کہ وہاں اردو کا بول بالا ہو گا ہی

انہوں نے بتایا کہ اردو میڈیم سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی ان بچیوں کے لیے میرے دل میں بہت عزت و احترام ہے اور مستقبل قریب میں ہم مالیگاؤں میں خواتین اور بچیوں کی خدمات کا اعتراف کرنے کے لیے سیمینار کروائیں گے

مالیگاؤں اردو کتاب میلے کے انچارج اجمل سعید کا کہنا ہے کہ میلے میں اردو کتابیں خریدنے کے لیے آنے والے لوگوں میں 60 فیصد سے زیادہ خواتین تھیں

انہوں نے کہا کہ میں پچھلے دس دنوں سے مالیگاؤں میں ہی ڈیرہ زن ہوں۔ میں نے یہاں کی خواتین میں تعلیم کو لے کر جتنی بیداری دیکھی، شاید ہی ملک کے کسی دوسرے حصے میں ہو۔ ہم نے 24 دسمبر کا دن خواتین کے لیے مخصوص کیا تھا۔ اس دن مرد حضرات کو میلے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ اس دن کی سیل باقی دنوں کے مقابلے میں دوگنی تھی۔ میلے میں کتابوں کی خریداری کے لیے ہر دن خواتین کا تانتا بندھا رہا

ڈاکٹر عقیل احمد نے بتایا کہ میلے میں اردو کتابوں کے شیدائیوں کی بھیڑ کا یہ عالم تھا کہ ہر ایک یا ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ایک بچہ کھو جاتا تھا. میں نے پبلک ایڈریس سسٹم کے ذریعے یہ اعلانات تقریباً ہر ایک گھنٹے یا ڈیڑھ گھنٹے کے بعد سنا کہ فلاں محترمہ کا بچہ ان سے الگ ہو گیا ہے یا فلاں اسٹال پر ایک بچہ ملا ہے جو اپنی والدہ سے الگ ہونے کی وجہ سے رو رہا ہے

انہوں نے کہا کہ میں مالیگاؤں کے لوگوں کی اردو زبان اور کتابوں سے غیر مشروط محبت دیکھ کر حیرت زدہ ہوں۔ میلے کے انعقاد سے پہلے حالات کچھ ناگفتہ بہ تھے، مگر ہم نے طے کر لیا تھا کہ میلہ کرنا ہے اس لیے ہر ممکن کوشش کی گئی. یہ میلہ نہ صرف منعقد ہوا بلکہ تاریخ ساز کامیابی حاصل کی

ڈاکٹر عقیل نے بتایا کہ میرے پاس بک اسٹال لگانے کے لیے تین سو درخواستیں آئی تھیں۔ ان سب کو اکاموڈیٹ کرنے کی ہمارے پاس جگہ نہیں تھی۔ پھر بھی ہم نے 171 سٹال بنوائے۔ یہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ اب تک منعقد کیے جانے والے کسی بھی اردو کتاب میلے میں اسٹالوں کی تعداد سو سے زیادہ نہیں رہی

انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نے میلے کے دوران 30 کے قریب ثقافتی پروگرام منعقد کرنے کا پروگرام بنایا تھا لیکن مقامی انتظامیہ سے ان کے انعقاد کی اجازت نہ مل سکی

ڈاکٹر عقیل نے بتایا کہ مالیگاؤں میں ہندوؤں اور مسلمان کی آبادی تقریباً برابر ہے۔ میلے میں ہندو مذہب کے متعلق بے شمار کتابیں موجود تھیں۔ اردو کتاب میلے کے دوران دیکھا گیا کہ مالیگاؤں کے مسلمان ہندو مذہب کے بارے میں پڑھنے میں اچھی خاصی دلچسپی رکھتے ہیں، رامائن اور مہا بھارت جیسی مذہبی کتابیں بڑی تعداد میں فروخت ہوئیں

بڑی تعداد میں مقامی لوگوں کی ٹیکسٹائل صنعت سے وابستگی کے سبب مالیگاؤں بھارت کا ’ٹیکسٹائل ٹاؤن‘ کہلاتا ہے۔ یہاں رہنے والے اکثر لوگ اس صنعت کے کاریگر ہی نہیں بلکہ اردو زبان و ادب کے بڑے شیدائی بھی ہیں

ڈاکٹر عقیل کہتے ہیں ”مالیگاؤں کے تقریباً ہر گھر میں پاور لوم لگا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان پاور لومز میں کام کرنے والے کاریگروں کو اردو سے بے انتہا محبت ہے

اجمل سعید کا کہنا تھا کہ مالیگاؤں کے لوگ روزی روٹی کے لیے پاور لوم چلانے کے ساتھ ساتھ اردو کی سرگرمی سے آبیاری کر رہے ہیں. یہاں لوگوں کی اکثریت مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں ادبی انجمنیں بنا رکھی ہیں۔ ان انجمنوں میں سے کوئی افسانوں تو کوئی غزلوں پر کام کر رہی ہے. یہاں کی اکثر سڑکیں اور چوکوں کے نام اردو کے مشہور ادیبوں اور شعرا کے ناموں سے منسوب ہیں

کتب میلے میں اسٹال لگانے والے الحسنات بکس پرائیویٹ لمیٹڈ کے انچارج شہزاد عالم کا کہنا ہے کہ مالیگاؤں کے لوگوں نے اردو کو سنبھال رکھا ہے۔ اس علاقے کا نام اگر مالیگاؤں کی بجائے اردو گاؤں ہوتا تو زیادہ مناسب رہتا۔ یہاں ہر کوئی اردو پڑھنا لکھنا جانتا ہے۔ میں کئی ایسے ڈاکٹروں اور انجینئروں سے ملا، جنہوں نے اپنی پڑھائی اردو میڈیم اسکولوں سے حاصل کی ہے

رحمانی پبلی کیشنز مالیگاؤں کا ایک پبلشنگ ادارہ ہے جو بچوں کی کتابیں شائع کرتا ہے، اس کے مالک رحمانی سلیم احمد نے بتایا کہ میلے میں جتنے بھی پبلشرز نے حصہ لیا وہ سب خوش ہیں۔ بڑی تعداد میں بچے اپنے والدین یا اپنے اسکولوں کے اساتذہ کے ساتھ میلے میں آئے اور ہم سے کتابیں خریدیں۔ مالیگاؤں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں بچوں سے لے کر بوڑھوں تک سبھی اردو پڑھتے ہیں

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت اور دنیا کے دوسرے ممالک میں مالیگاؤں اردو سے دوستی کے بجائے دھماکوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اس ٹاون میں سنہ 2006ع اور سنہ 2008ع میں ہونے والے دھماکوں میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔ ان دھماکوں میں مبینہ طور پر ہندو شدت پسند تنظیمیں ملوث تھیں جن کے کئی رہنماؤں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی تھی۔ جبکہ حال ہی میں مسلمانوں کو جمعے نماز کے اجتماعات منعقد کرنے سے روکنے کے حوالے سے بھی مالیگاؤں کا نام خبروں میں گردش کرتا رہا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close