نئی دہلی – مغربی بنگال کے سابق وزیر اعلیٰ بدھا دیب بھٹاچاریہ اور گلوکارہ سندھیا مکھرجی کی جانب سےایوارڈ لینے سے انکار کے بعد بھارت کا اعلیٰ ترین سویلین ”پدَم” ایوارڈ تنازعے کا شکار ہوگیا ہے
جبکہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس کے سینیئر رہنما غلام نبی آزاد کو ایوارڈ دینے پر بھی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں
واضح رہے کہ بھارت میں یوم جمہوریہ کے موقع پر بھارتی حکومت مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کے اعتراف میں اعلیٰ سویلین پدَم ایوارڈز کا اعلان کرتی ہے، جس کے تحت تین درجات میں باالترتیب ”پدم وبھوشن“ ، ”پدم بھوشن“ اور ”پدم شری“ ایوارڈ دیے جاتے ہیں
مودی سرکار نے بھارت کی 73ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر منگل کے روز مختلف شعبہ حیات سے وابستہ ایک سو اٹھائیس افراد کو ”پدم“ ایوارڈ زدینے کا اعلان کیا، لیکن یہ ایوارڈز تنازعے کا شکار ہوگئے ہیں
ایوارڈ یافتگان کی فہرست میں مغربی بنگال کے سابق وزیر اعلیٰ اور کمیونسٹ رہنما بدھا دیب بھٹاچاریہ کا نام بھی شامل ہے۔ انہیں دوسرے اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ ”پدم بھوشن“ کے لیے نامزد کیا گیا تھا، لیکن ایوارڈز کے اعلان کے کچھ دیر بعد ہی سابق وزیر اعلیٰ نے یہ کہتے ہوئے ایوارڈ لینے سے انکا کر دیا کہ ”وہ ایوارڈ نہیں لیں گے“
بدھا دیب بھٹاچاریہ کو عوامی خدمات کے شعبے میں نمایاں کارکردگی کے لیے پدم بھوشن ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا تھا
حیران کن امر یہ ہے کہ بی جے پی کے سابق رہنما اور بابری مسجد کے انہدام کے وقت اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز آنجہانی رہنما کلیان سنگھ کو بھی اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ ‘پدم وبھوشن‘ کے لیے منتخب کیا گیا ہے
77 سالہ بزرگ کمیونسٹ لیڈر بدھا دیب بھٹاچاریہ نے ایک بیان میں کہا، ”مجھے اس ایوارڈ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ کسی نے مجھے اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ اگر انہوں نے مجھے پدم بھوشن دینے کا فیصلہ کیا تو میں اسے قبول کرنے سے انکار کرتا ہوں۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کی سب سے بڑی وجہ نظریاتی اور سیاسی اختلافات ہیں
اس حوالے سے بنگالی زبان کے سینیئر صحافی گوتم ہورے کا کہنا ہے کہ نظریاتی لحاظ سے بدھا دیب بی جے پی کے سخت مخالف ہیں۔ وہ ماضی میں بی جے پی کی سخت نکتہ چینی کرتے رہے ہیں اور ان کی پارٹی کے دیگر اراکین کی بھی رائے تھی کہ مودی حکومت کا ایوارڈ قبول نہ کیا جائے۔‘‘
گوتم ہورے نے مزید کہا کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا، جب بائیں بازو کی جماعت مارکسی کمیونسٹ پارٹی نے سویلین ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کیا ہو۔ یہ پارٹی کا دیرینہ موقف ہے
انہوں نے بتایا ”جب ڈاکٹر من موہن سنگھ حکومت نے مغربی بنگال میں سب سے زیادہ تقریباً چوبیس برس حکومت کرنے والے سابق وزیر اعلیٰ جیوتی باسو کو ملک کا اعلیٰ ترین اعزاز ”بھارت رتن“ دینے کا اعلان کیا تھا تو باسو نے اور ان کی پارٹی دونوں نے ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ ملک کے سویلین ایوارڈز کو قبول نہ کرنا کتنا درست ہے، گوتم ہورے کہتے ہیں ”یہ بحث کا موضوع ہے لیکن یہ بہرحال ہر شخص کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے کہ اسے ایوارڈ قبول کرنا ہے یا نہیں، کیونکہ ایوارڈ حکومت دیتی ہے اور جو لوگ اس کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں وہ اس پہلو کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔‘‘
دوسری جانب بنگال کی معروف گلوکارہ نوے برس کی سندھیا مکھرجی نے بھی ایوارڈ قبول کرنے سے منع کر دیا ہے، تاہم اس کی وجہ نظریاتی اختلاف نہیں ہے
سندھیا مکھرجی کو ”پدم شری“ کے لیے منتخب کیا گیا تھا، جسے جونیئر سطح کا ایوارڈ سمجھا جاتا ہے
سندھیا مکھرجی ”بلبلِ بنگال‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ جدید بنگلہ موسیقی میں ان کا اپنا ایک مقام ہے۔ انہوں نے بنگلہ کے علاوہ ایک درجن سے زائد دیگر زبانوں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے
اس ضمن میں سندھیا مکھرجی کی بیٹی سومی سین گپتا نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”نوے برس کی عمر میں شہرہٕ آفاق گلوکارہ کو پدم شری ایوارڈ دینا ان جیسی اعلیٰ فنکار کی توہین ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ کل سہ پہر ایک سرکاری افسر نے فون کر کے ایوارڈ دیے جانے کی اطلاع دی ”بھلا یہ بھی ایوارڈ دینے کا کوئی طریقہ ہے؟‘‘
انہوں نے واضح کیا کہ ایوارڈ قبول نہ کرنے کی وجہ سیاسی نہیں ہے
تاہم مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ جو کچھ ہوا ہے، اس میں سیاست واضح ہے۔ سندھیا مکھرجی کو پدم شری دینے کا اعلان بنگال کی بے عزتی کرنا ہے، یہ شرم کی بات ہے
واضح رہے کہ سندھیا مکھرجی کو مغربی بنگال کا اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ ”بنگ وبھوشن“ سن 2011ع میں مل چکا ہے، انہیں 1970ع میں بہترین خاتون پلے بیک سنگر کا قومی فلم ایوارڈ بھی ملا تھا
ماضی میں بھی کئی نامور شخصیات مختلف اسباب کی بنا پر پدم ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کر چکی ہیں۔ ان میں مصنفہ گیتا مہتا، صحافی ویریندر کپور، ادیب اور فلم ہدایت کار باہولیان جے موہن اور گلوکارہ سستلا جانکی شامل ہیں
ادہر جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس کے سینیئر رہنما غلام نبی آزاد بھی پدم بھوشن ایوارڈ یافتگان کی فہرست میں شامل ہیں
اپنی پارٹی قیادت سے ناراض کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد کو مودی حکومت کی جانب سے ایوارڈ دینے کے اعلان کے بعد چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں ہیں. کہا جا رہا ہے کہ کہ آیا وہ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کا پرچم تھامنے والے ہیں؟ سوشل میڈیا پر یہ افواہ بھی گردش کرنے لگی کہ انہوں نے ایوارڈ کے اعلان کے بعد اپنا ٹوئٹر بایوڈیٹا تبديل کر دیا ہے
جبکہ غلام نبی آزاد نے ان ‘افواہوں‘ کی سختی سے تردید کی ہے
انہوں نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا ”بعض شرپسند پروپیگنڈا کے ذریعے لوگوں میں کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے ٹوئٹر پروفائل سے نہ تو کچھ حذف کیا ہے اور نہ ہی کچھ اضافہ کیا ہے۔ پروفائل پہلے جیسا ہی ہے۔‘‘
سابق مرکزی وزیر غلام نبی آزاد کانگریس کے ”جی۔23 ‘‘ گروپ کے ان اراکین میں سے ایک ہیں، جنہوں نے سن 2020 میں سونیا گاندھی کو مشترکہ طور پر خط لکھ کر پارٹی میں جامع اصلاحات اور ”دوراندیش اور کل وقتی قیادت‘‘ کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی وہ حکمراں بی جے پی سے قربت بڑھانے کے الزامات کی زد میں ہیں
ایوارڈ کے اعلان کے بعد کانگریس کے سینیئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر جے رام رمیش نے بدھا دیب کے فیصلے کے پس منظر میں ٹوئٹ کر کے طنز کیا ”انہوں نے درست فیصلہ کیا، وہ آزاد رہنا چاہتے تھے غلام نہیں۔‘‘
تاہم ایک اور سینیئر کانگریسی رہنما، سابق وزیر اور جی23 کے رکن کپل سبل نے ”بھائی جان“ غلام نبی آزاد کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا، ”یہ المیہ ہے کہ کانگریس ان (آزاد) کی خدمات کی ضرورت محسوس نہیں کرتی جبکہ قوم عوامی زندگی میں ان کی خدمات کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔‘‘