لاہور – پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے علاقے احمد پارک، موہنی روڈ کی اس نسبتاً کھلی گلی میں غلام فاطمہ کا گھر ہے۔ ضعیف العمری کی وجہ سے ان کا زیادہ تر وقت بستر پر ہی گزرتا ہے
غلام فاطمہ نے جنوری کی پانچ تاریخ کو اپنے شوہر کی 14 ہزار روپے کی پینشن وصول کی۔ جو برطانوی حکومت کی طرف سے ان کو ہر مہینے وصول ہوتی ہے
غلام فاطمہ کے برطانوی فوج میں کام کرنے والے شوہر کا نام پھمن خان ہے اور ان کا تعلق امرتسر سے تھا
غلام فاطمہ بتاتی ہیں ”پھمن خان ہانک کانگ میں تھا، جب دوسری عالمی جنگ میں اس کی ایک ٹانگ ختم ہو گئی تو وہ واپس آگیا۔ میری اس سے اس وقت شادی نہیں ہوئی تھی۔ وہ امرتسر میں رہتا تھا، ہم لاہور میں تھے۔ لیکن ہم ان کو جانتے ضرور تھے۔“
غلام فاطمہ نے اپنی یاداشت ٹٹولتے ہوئے بتایا ”بٹوارے کے وقت وہ بھی لاہور آ گیا اور پھر چار پانچ سالوں کے بعد ہماری شادی ہوئی گئی۔ اس وقت اس کی پینشن بیس روپے آتی تھی۔“
پھمن خان اور ان کے ساتھی فوجی جو دوسری عالمی جنگ میں ہانک کانگ کے محاذ پر برطانوی فوج کی طرف سے لڑتے ہوئے زخمی ہوئے تھے، ان کو بعد ازاں ریٹائر کرنے کے بعد برطانوی حکومت نے پینشن جاری کی
سینٹرل پنجاب کے جنرل پوسٹ ماسٹر ضیاالحق رانجھا نے بتایا ”اس وقت سینٹرل پنجاب میں چھ ایسے پینشنرز ہیں، جن کی پینشن برطانیہ سے آ رہی ہے۔ جن میں تین فیصل آباد دو جھنگ اور ایک لاہور میں ہے۔“
خیال رہے کہ پورے پاکستان میں اس وقت ان پینشنرز کی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہے اور ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں۔ ان کی بیوائیں ہی یہ پینشن وصول کر رہی ہیں
غلام فاطمہ کی بیٹی رضیہ کہتی ہیں”برطانیہ سے ہر سال ہمیں ایک خط آتا ہے، جس میں وہ پوچھتے ہیں کہ غلام فاطمہ ابھی تک زندہ ہیں یا نہیں۔ ہم ہر سال ان کو جوابی خط لکھتے ہیں جس میں بتاتے ہیں کہ ابھی وہ زندہ ہیں تو اس طرح ان کی پینشن آنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے، بعض اوقات وہ ہمیں یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی تازہ ترین تصویر بھیجی جائے، تو ہم ایک تصویر بھی بھیجتے ہیں اور ان کا شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات بھی ہر سال ہم برطانوی حکومت کو بھیجتے رہتے ہیں۔“
گزشتہ دو برسوں میں دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ کے لیے لڑنے والے فوجیوں کی پینشنز کے حوالے سے کافی اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں
برطانیہ نے ملک سے باہر مقیم تمام پینشنرز کی پینشنز ملک کے اندر مقیم افراد کے مقابلے میں کم کر دی تھیں، لیکن ان تبدیلیوں کے تحت 2020ع میں ایک ایگزیکٹیو فیصلے کے ذریعے جن ملکوں میں یہ افراد مقیم ہیں، ان کی رائج پالیسی کے مطابق پینشنز بڑھا دی گئی ہیں
غلام فاطمہ کو 2020ع سے پہلے چار ہزار روپے ملتے تھے، جو اب چودہ ہزار روپے ہو چکے ہیں
پاکستان میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو ڈاک خانے کے ذریعے ہی پینشنز دی جاتی ہیں۔ تاہم دوسری عالمی جنگ کے برطانوی فوجیوں کے لیے ہانگ کانگ والے، برما والے یا انڈیا والوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے
یاد رہے کہ دوسری عالمی جنگ میں تقریبا پچیس لاکھ برٹش انڈین فوجیوں نے چھ سالہ طویل جنگ میں حصہ لیا۔ یہ فوجی اتحادی فوجوں کے ساتھ پورے یورپ، افریقہ اور ایشیا میں لڑتے رہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق ان میں سے نوے ہزار فوجی ہلاک ہوئے
حال ہی میں بھارت میں ایک زندہ برطانوی فوجی بلونت سنگھ نے ستانوے سال کی عمر میں سپریم کورٹ میں اپنی پینشن کا مقدمہ جیتا ہے
ان کا مطالبہ تھا کہ کہ انہیں بھی اتنی پینشن دی جائے، جتنی باقی رٹائرڈ فوجیوں کو ملتی ہے
یاد رہے کہ بھارت نے 1972ع میں فوجیوں کی پینشنز بڑھا دی تھیں، لیکن ان میں وہ افراد شامل نہیں تھے، جو 1947 سے پہلے زخمی ہو کر ریٹائرڈ ہوئے
بلونت سنگھ نے تب سے بھارتی حکومت پر مقدمہ دائر کر رکھا تھا
ادہر پاکستان میں اب بھی دو سو افراد کی پینشنز فوج کے ملٹری اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ سے قومی ڈاک خانے کے ذریعے ان بیواوؤں کو دی جا رہی ہے، جن کی عمریں تقریباً سو سال کے قریب ہو چکی ہیں
غلام فاطمہ 1929ع میں پیدا ہوئی تھیں اور اب ان کی عمر پچانوے برس ہے
پچانوے سالہ ضعیف العمر غلام فاطمہ آج بھی”ہانگ کانگ والا“ کی اصطلاح پر حیران ہیں، وہ کہتی ہیں ”مجھے کچھ پتا نہیں کہ میرے شوہر کو ہانگ کانگ والا کیوں کہا جاتا ہے؟“