کراچی – پاکستان شمسی توانائی کی پیداوار کے لیے دنیا کا تیسرا سب سے موزوں ملک ہے، جہاں اوسطاً سال کے تین سو پندرہ دن سورج چمکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان کا چالیسواں نمبر ہے
بین الاقوامی اداروں کے مطابق چین 2020ع تک شمسی توانائی سے 253 گیگا واٹ حاصل کرنے کی صلاحیت کے ساتھ پہلے، امریکا 76 گیگا واٹ کے ساتھ دوسرے، جاپان 67 گیگا واٹ کے ساتھ تیسرے، جرمنی 53 گیگا واٹ کے ساتھ چوتھے اور بھارت 40 گیگا واٹ کے ساتھ پانچویں نمبر پر تھا
واضح رہے کہ ایک گیگا واٹ ایک ہزار میگا واٹ کے برابر ہے۔ اس وقت پاکستان میں بجلی کی پیداوار تقریباً 40 ہزار میگا واٹ ہے۔ جس میں سے تیل سے 24 فیصد ،پانی سے 33 ،کوئلے سے 20 ،گیس سے 12 ،ایٹمی سے سات، ہوا سے دو اور شمسی تونائی سے صرف ایک فیصد بجلی پیدا ہو رہی ہے
موجودہ حکومت نے متبادل توانائی کو فروغ دینے کے اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے دو سال پہلے اعلان کیا تھا کہ 2025ع تک متبادل توانائی کے منصوبوں سے بجلی کی پیداوار کو 20 اور 2030ع تک 30 فیصد کر دیا جائے گا، جس کا مطلب ہے کہ اگلے دس سالوں میں پاکستان کو متبادل توانائی سے چوبیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگانے ہوں گے
حکومت کی مراعات کی وجہ سے سولر پینل اور انورٹر پر درآمدی ڈیوٹی میں چھوٹ کی وجہ سے شمسی توانائی کا سیکٹر، جو دنیا میں سالانہ 20 فیصد کے حوالے سے بڑھ رہا ہے، پاکستان میں گذشتہ مالی سال کے دوران اس میں 50 فیصد اضافہ دیکھا گیا اور صرف گذشتہ مالی سال کے دوران 2380 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل سولر پینل درآمد کیے گئے
یہ اضافہ حیران کن تھا کہ پاکستان کے نجی شعبے نے صرف ٹیکسوں میں دی گئی چھوٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ کارکردگی دکھائی جبکہ اس کے مقابلے پر امریکا، آسٹریلیا، یورپی یونین اور بھارت جیسے ممالک صارفین کو 30 سے 50 فیصد سبسڈی بھی دے رہے ہیں، تاکہ بجلی پیدا کرنے کے سستے ترین ذریعے سے استفادہ کیا جا سکے
لیکن بدقسمتی سے آئی ایم ایف کے دباؤ پر حکومت پاکستان نے گذشتہ دنوں منی بجٹ پیش کرتے ہوئے جو ٹیکس لگائے، ان میں شمسی توانائی کا شعبہ بھی شامل ہے جس پر 20 فیصد اضافی ٹیکس لگا دیے گئے ہیں
اگر گذشتہ مالی سال کے دوران درآمد کیے گئے سولر پینل کی مجموعی مالیت کا اندازہ لگایا جائے تو یہ تقریباً ایک سو بیس ارب روپے بنتے ہیں
اس طرح حکومت کا خیال ہے کہ صرف اس شعبے میں لگائے گئے ٹیکسوں سے اسے اضافی طور پر چوبیس ارب روپے حاصل ہوں گے
لیکن دوسری جانب شمسی توانائی سے وابستہ کمپنیوں کا خیال ہے کہ اس شعبے کی حوصلہ افزائی کی بجائے حکومت نے اس کا گلا ہی گھونٹ دیا ہے، کیونکہ سولر سسٹم پر لگائے جانے والے سازوسامان اور کمپنیوں کی اپنی آمدن پر سرکاری خزانے کو پہلے ہی تقریباً 25 فیصد ٹیکس مل رہا ہے
اب اضافی ٹیکس کے بعد یہ شرح 50 فیصد ہو جائے گی جس کے بعد صارفین کے لیے سولر سسٹم کی قیمت میں 25 فیصد اضافہ ہو جائے گا اور یوں جو ترقی اس شعبے نے گذشتہ صرف ایک سال میں دکھائی تھی وہ دھڑام سے نیچے آجائے گی
رینیو ایبل انرجی ایسوسی ایشن کے سی او نثار لطیف کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں اضافے کے بعد کراچی پورٹ پر ہمارے پانچ سو کنٹینر پھنسے ہوئے ہیں
”کیونکہ درآمد کنندگان کے لیے اب یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ اضافی ٹیکسوں کے ساتھ اپنے کاروبار کو آگے بڑھا سکیں“
یہی نہیں بلکہ پاکستان میں شمسی توانائی سے وابستہ پندرہ سو کمپنیاں، جن کے ساتھ سوا لاکھ لوگوں کا براہ راست روزگار وابستہ ہے، ان کا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا ہے
چالیس فٹ کے ایک کنٹینر میں چھ سو بیس سولر پینل آتے ہیں اور ایک پینل سے 540 واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے. گویا سولر پینل کے ایک کنٹینر سے 335 کلو واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے
گذشتہ مالی سال کے دوران سات ہزار ایک سو چالیس کنٹینر درآمد کیے گئے جن کی مجموعی مالیت تقریباً ایک سو بیس ارب روپے بنتی ہے
اس شعبے سے پہلے حکومت کو بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں جو چالیس ارب روپے مل رہے ہیں، وہ بھی اس شعبے کے دیوالیہ ہونے سے ختم ہو جائیں گے، بلکہ سستی ترین بجلی پیدا کرنے کا سلسلہ بھی رک جائے گا
اگر شمسی توانائی کے شعبے کی ایک سالہ کارکردگی کو ہی ایک نمونے کے طور پر لیا جائے تو ایک سال کے دوران پاکستان میں 2380 میگا واٹ صلاحیت کے سولر پینل درآمد کیے گئے
نیپرا کا کہنا ہے کہ شمسی توانائی سے نیٹ میٹرنگ کے ذریعے نیشنل گرڈ میں جو بجلی شامل ہو رہی ہے، وہ تقریباً دو سو میگا واٹ ہے۔ جبکہ دوردراز دیہات، زراعت اور صنعتی شعبے میں استعمال ہونے والی شمسی توانائی اس سے کہیں زیادہ ہے جو نیٹ میٹرنگ کا حصہ نہیں ہے
لیکن نیٹ میٹرنگ کے ذریعے جو بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو رہی ہے، اسے آپ نو روپے کا لے کر صارفین کو اوسطاً ستائیس روپے کا بیچتے ہیں، یعنی ایک واٹ پر اٹھارہ روپے منافع کما لیتے ہیں
اس طرح اگر یہ شعبہ تباہ ہو گیا تو اس وقت آپ جو سالانہ پانچ ارب چالیس کروڑ روپے کمارہے ہیں اور اگلے سال کے لیے دس ارب اسی کروڑ کی امید لگائے بیٹھے ہیں، وہ پوری نہیں ہو سکے گی
اس شعبے پر نئے ٹیکسوں کے بعد آپ باسٹھ ارب روپے کی آمدن کا حساب لگا کر بیٹھے ہیں لیکن اس شعبے کے رک جانے سے یہ تمام آمدن بڑھنے کی بجائے چوتھائی حصہ بھی نہیں رہے گی
نثار لطیف کا مزید کہنا تھا کہ سالانہ ایک سو بیس ارب کے سولر پینل درآمد کر کے ہم نے صرف ایک سال میں چورانوے ارب روپے کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کےسولر سسٹم لگائے اور حکو مت کو پہلے ہی بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں کی مد میں چالیس ارب سے زائد کی رقم دی، جبکہ سستی بجلی پیدا کر کے تیل کی درآمد کا بل بھی کم کیا
سولر پینل کی گارنٹی پچید سال ہے، اس طرح اگر یہ شعبہ ایک سال ہی رک گیا، تو اس سے پاکستان کو اگلے پچیس سالوں میں جو نقصان ہو گا اس کا اندازہ اکیس کھرب روپے سے زیادہ ہے
یہی نہیں بلکہ اس شعبے میں گذشتہ سال ہونے والے پچاس فیصد اضافے کو اگر ایک پیمانہ مان لیا جائے اور اسی رفتار سے یہ اگلے پانچ سال بڑھتا رہے تو 2027ع تک یہ شعبہ 19 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو گا
یہ ایک نہایت ہی محتاط اندازہ ہے کیونکہ سولر پینل کی جدت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، آج سے تین سال پہلے سولر پینل کی افادیت 16فیصد تھی جو اب بڑھ کر 26 فیصد ہو چکی ہے
جبکہ اگلے دس سالوں میں یہ بڑھ کر 60 فیصد ہو جائے گی، جس کا مطلب ہو گا کہ نیشنل گرڈ کا تصور ختم ہو جائے گا۔ بجلی کے کھمبے قصہ پارینہ بن جائیں گے اور گھر کی چھت ہی اس کی بجلی کی تمام ضروریات پوری کرے گی
لیکن حکومت نے آئی ایم ایف کے دباؤ پر ٹیکس لگا کر اس شعبے کا گلا گھونٹ دیا ہے، اس طرح پاکستان میں شمسی توانائی بھاری ٹیکسوں کے کالے بادلوں میں چھپ گئی ہے.