اسلام آباد – موجودہ حکومت آنے کے بعد جس قدر معیشت پر بحث ہوئی ہے اور معاشی معاملات پر جس قدر سیاست ہورہی اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ مہنگائی یا افراطِ زر، زرِمبادلہ کے ذخائر، روپے کی قدر اور عالمی تجارت کے ساتھ ساتھ گزشتہ تقریباً ایک سال سے اسٹیٹ بینک کا نیا قانون بھی موضوع گفتگو بنا رہا
اس قانون کو جس طرح حکومت نے بغیر کسی بحث اور مباحثے کے قومی اسمبلی سے منظور کروایا ہے اور جس طرح سے اپوزیشن کو قابو کرکے سینیٹ سے منظوری دلوائی ہے، اس نے اس قانون پر خدشات کو مزید گہرا اور معاملے کو مزید گنجلک کر دیا ہے
اس پر مستزاد یہ کہ قانون کی منظوری کے حوالے سے آئی ایم ایف کی غیر معمولی دلچسپی سے یہ معاملہ مزید مشکوک ہو گیا ہے، کیونکہ عالمی مالیاتی ادارے نے اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے قانون کی منظوری سے پاکستان کے قرض کی بحالی کو مشروط کیا تھا اور چونکہ حکومت اس قانونی مسودے کو بروقت منظور کروانے میں ناکام رہی تھی، اس وجہ سے آئی ایم ایف کے بورڈ کے اجلاس کو بار بار ملتوی کروایا گیا
ایوانوں سے نکل کر اب اس قانون پر عوامی سطح پر بہت بحث ہو رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے گورنر اسٹیٹ بینک کو ”وائسرائے یا ایسٹ انڈیا کمپنی“ کا نمائندہ قرار دینا شروع کر دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کو چونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تفتیش سے استثنٰی دیا گیا ہے، اس لیے ادارے کو ریاست سے اوپر ایک اور ریاست قرار دیا جارہا ہے
درحقیقت پاکستان کے عالمی مالیاتی فنڈ کا حصہ بننے کے وقت سے ہی اسٹیٹ بینک کو خود مختار بنانے کے حوالے سے متعدد ترامیم کی گئی ہیں۔ ان ترامیم کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کے مالیاتی اور خصوصاً بینکاری نظام کو خود مختار بنایا گیا ہے، بلکہ اس میں ترقی بھی ہوئی ہے.
قبل ازیں اسٹیٹ بینک کے قانون میں 1994ع، 1997ع، 2012ع اور 2015ع میں تبدیلی کی گئی تھی اور اب 2022ع میں بھی ترمیم کی گئی ہے
اس معاملے پر سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر ساجد امین کا کہنا ہے کہ ’اسٹیٹ بینک کو بہت زیادہ آزادی حاصل نہیں ہونی چاہیے۔ جس طرح اس بل کو منظور کروایا گیا ہے، وہ درست نہیں ہے۔ اس حوالے سے پارلیمان میں کھلی بحث کا موقع ملنا چاہیے تھا‘
دوسری جانب اسمبلی سے منظور شدہ قانونی مسودے کو پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے نئے قانون میں قیمتوں میں استحکام، مالیاتی استحکام، معاشی ترقی، حکومت کو قرض دینے پر پابندی، اسٹیٹ بینک کی مالیاتی وسائل کی انتظامی آزادی، گورننس اور احتساب کے حوالے سے بڑی ترامیم تجویز کی گئی ہیں
نئے قانون میں اسٹیٹ بینک کے تین اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ ان میں پہلا ہدف قیمتوں میں استحکام، دوسرا مالیاتی صنعت کا استحکام اور تیسرا معاشی ترقی ہے
اس قانونی مسودے کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کے گورنر کا کہنا تھا کہ ’اہداف کو اوپر نیچے لکھنے سے فرق نہیں پڑتا ہے۔ اسٹیٹ بینک تینوں اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا‘، مگر اس حوالے سے جو وضاحت اسٹیٹ بینک نے تحریری طور پر کی ہے، اس میں قیمتوں کے استحکام کو بنیادی ہدف قرار دیا گیا ہے
لیکن اس ترمیم کا ایک اہم نکتہ حکومت پر اپنے ہی اسٹیٹ بینک سے قرض لینے پر پابندی کا ہے
نئے قانونی مسودے میں اسٹیٹ بینک سے حکومت کو قرض دینے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ابتدا سے ہی دیکھا گیا ہے کہ پاکستان جب بھی آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ بنا، اس میں یہ شرط رکھی جاتی رہی کہ حکومت براہِ راست اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے گی۔ اس کے حوالے سے پیش کردہ وضاحت میں کہا جاتا ہے کہ اگر حکومت مرکزی بینک سے قرض لیتی ہے تو اسٹیٹ بینک بغیر کسی معاشی سرگرمی کے نوٹ چھاپ کر رقم فراہم کرتا ہے۔ نئے قانون میں مرکزی بینک پر یہ پابندی بھی عائد کردی گئی ہے کہ وہ حکومت کی سیکیوریٹیز بھی نہیں خرید سکے گا
اس حوالے سے پیش کردہ سرکاری وضاحت میں کہا جاتا ہے کہ حکومت کی جانب سے مرکزی بینک سے لیے جانے والے قرضے سے معیشت میں افراطِ زر پیدا ہوتا ہے اور ادائیگیوں کے توازن میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ پاکستان میں اس قسم کے قرضے مالیاتی نظم و نسق میں عدم استحکام کی وجہ بھی بنتے ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب بہت کم ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ٹیکسوں کی وصولی کی شرح بھی کم ہے۔ اس کے باعث پاکستان کو ہر بار آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے
سرکاری وضاحت میں ان ملکوں کا نام تو نہیں لیا گیا مگر یہ کہا گیا ہے کہ زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک، تقریباً نصف ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ہر پانچ میں سے ایک ترقی پذیر ملک کے مرکزی بینک پر یہ پابندی عائد ہے، مگر جب تحقیق کی تو پتا چلا کہ امریکی مرکزی بینک فیڈرل ریزرو امریکی حکومت کو مخصوص معاشی حالات میں قرض دیتا ہے، جبکہ برطانیہ کا مرکزی بینک، بینک آف انگلینڈ حکومتی بانڈز میں سرمایہ کاری کرتا ہے
اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر شاہد ایچ کاردار کا کہنا ہے کہ ’اسٹیٹ بینک اگرچہ حکومت کو براہِ راست قرضہ نہیں دیتا مگر وہ بینکوں کے ذریعے حکومت کو قرض ضرور دیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہر ہفتے بینکوں کو ایک ہزار ارب روپے کا قرضہ دیا جاتا ہے، جس پر بینک آدھے سے ایک فیصد تک منافع رکھ کر حکومت کو قرض دیتے ہیں‘۔
معروف معاشی تجزیہ کار قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ ’اسٹیٹ بینک کا نیا قانون دراصل سانحہ مشرقی پاکستان جیسا بڑا سانحہ ہے۔ اسٹیٹ بینک حکومت کا بینک ہے، مگر اب حکومت اس سے قرضہ نہیں لے سکتی ہے‘
اس کا فوری اثر یہ نکلا ہے کہ حکومتِ پاکستان افغانستان کی مالی معاونت کے لیے ایک اکاؤنٹ کھولنا چاہتی تھی، مگر اسٹیٹ بینک نے اس حوالے سے بینکوں کو ہدایات جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ نئے اسٹیٹ بینک مسودے سے پاکستان کی معاشی خودمختاری ہی نہیں، بلکہ سیاسی خودمختاری بھی متاثر ہوئی ہے
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اسٹیٹ بینک حکومت کو قرض نہیں دے گا، تو کیا معیشت میں غیر پیداواری سرمائے کی تخلیق ختم ہو جائے گی؟
شاہد ایچ کاردار کہتے ہیں کہ ‘ایسا نہیں ہوسکتا، کیونکہ پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ غیر دستاویزی ہے جو نقد لین دین کرتا ہے۔ اس وقت زیرِ گردش کرنسی چھ ہزار سات سو ارب روپے ہے، جو بہت سے ان ممالک سے زیادہ ہے، جن کی مثال دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات تیئیس سے چوبیس ارب کی ہوں گی۔ اس طرح چار ہزار ارب روپے معیشت میں شامل ہوں گے۔ یعنی معیشت میں دس ہزار ارب روپے پر اسٹیٹ بینک کے مانیٹری ٹولز کا کوئی اثر نفوس نہیں ہے۔ یعنی یہ بات کان کو سیدھا پکڑنے کے بجائے ہاتھ گھما کر پکڑنے کے مترادف ہوگئی ہے‘
دوسرا اہم نکتہ احتساب کے عمل کے حوالے سے ہے. اسٹیٹ بینک کے نئے قانون میں دفع 52 اے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ جس میں اسٹیٹ بینک کے حکام کو نیب اور ایف آئی اے کی کارروائیوں سے تحفظ دیا گیا ہے۔ یہ تحفظ گورنر سمیت تمام ملازمین پر لاگو ہوگا
یعنی اگر اسٹیٹ بینک کے ان حکام کے فیصلوں کی وجہ سے اگر کوئی نقصان ہوگا، تو ان کے خلاف نیب اور ایف آئی اے کارروائی نہیں کر پائے گی اور نقصان کی ادائیگی بھی بینک خود کرے گا
اس حوالے سے سابق گورنر شاہد ایچ کاردار کہتے ہیں کہ ’اس شق کا تعلق آئی ایم ایف سے نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کو شفافیت پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ یہ شق موجودہ گورنر نے ازخود یا اپنے کسی اقدام کو تحفظ دینے کے لیے شامل کروائی ہے‘
سابق وزیرِ خزانہ اور عالمی بینک میں خدمات سرانجام دینے والے مفتاح اسمٰعیل کہتے ہیں کہ ’جو سہولت اور رعایت وزیرِاعظم کو حاصل نہیں وہ رعایت گورنر اسٹیٹ بینک کو دے دی گئی ہے‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’جب ملک کا کوئی ادارہ نیب اور ایف آئی اے کی دسترس سے محفوظ نہیں، تو پھر کس طرح اسٹیٹ بینک کو رعایت دے کر اس کو ریاست کے اوپر ریاست بنایا جارہا ہے؟ موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک بلند شرح سود کے ذریعے ہاٹ منی لائے اور جیسے ہی شرح سود کم ہوئی وہ رقم واپس چلی گئی، اس عمل سے پاکستان کے خزانے کو ڈیڑھ ہزار ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ ہاٹ منی کے کیس سے بچنے کے لیے یہ شق شامل کی گئی ہے‘
سرکاری وضاحت میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے اقدامات کے حوالے سے احتساب اور جوابدہی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اہداف کو واضح طور پر بیان کرنے سے اسٹیٹ بینک کی کارکردگی کا بہتر طور پر جائزہ لیا جاسکے گا۔ احتساب کا دوسرا ذریعہ ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک اپنی سہ ماہی اور سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ کو پیش کرتا ہے اور پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے۔ اس طرح کی قانون سازی کولمبیا، میکسیکو، انڈونشیا، عراق، کوریا اور مصر کے مرکزی بینکوں کے حوالے سے بھی کی گئی ہے
تیسرا اہم حکومت اور اسٹیٹ بینک کے درمیان تعلق کے بارے میں ہے. نئے قانون میں اسٹیٹ بینک کے مانیٹری اور فسکل پالیسی بورڈ کو ختم کردیا گیا ہے اور قانون میں کہا گیا ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک وزیرِ خزانہ سے براہِ راست اور قریبی رابطہ رکھیں گے۔ اس حوالے سے کوئی ادارہ جاتی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا ہے، جس سے کسی بھی پالیسی پر حکومت کے ساتھ رابطے کا ذریعہ تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ اب یہ گورنر اسٹیٹ بینک کی مرضی ہے کہ وہ وزیرِ خزانہ سے تعلق رکھے یا نہ رکھے
اس حوالے سے شاہد ایچ کاردار کا کہنا ہے کہ ’ایک رپورٹ کو پارلیمنٹ ارسال کرنا ایک غیر واضح اور مبہم طریقہ کار ہے اور اس حوالے سے جامع طریقہ کار وضع ہونا چاہیے۔ اسٹیٹ بینک شرح سود کا تعین کرتا ہے۔ بنیادی شرح سود 13.25 فیصد کرنے سے حکومت کی سود کی ادائیگی بجٹ کا سب سے بڑا حصہ بن گئی ہے۔ مگر بجٹ کی سب سے بڑی ادائیگی کے حوالے سے پارلیمنٹ اسٹیٹ بینک سے کیسے باز پرس کرے گی؟‘
گورنر اور دیگر اسامیوں پر تقرریوں اور مراعات کا تعین
گورنر اسٹیٹ بینک کی تقرری کا مکمل اختیار وزیرِاعظم سے لیتے ہوئے اس میں صدرِ مملکت کو بھی شامل کردیا گیا ہے، لیکن اگر گورنر اسٹیٹ بینک پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے تو پھر اس کی تقرری کا اختیار بھی پارلیمنٹ کو تفویض ہونا چاہیے اور امریکا کی طرح گورنر کی تقرری کی منظوری سے قبل اسے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کی شرط کو شامل کیا جانا چاہیے تھا
اس کے علاوہ گورنر اسٹیٹ بینک اور دیگر پندرہ حکام کا تقرر حکومت کرے گی، مگر ان کی تنخواہ اور مراعات کا تعین حکومت نہیں بلکہ اسٹیٹ بینک کا بورڈ کرے گا۔ اس طرح گورنر اسٹیٹ بینک نے پورے مرکزی بینک کو ایک کارپوریٹ ادارے والے اختیارات دلوا دیے ہیں۔ اس کے برعکس حکومت کے ذیلی اداروں کے سربراہان کے لیے خصوصی پے اسکیل اسی لیے متعارف کروایا گیا ہے کہ اگر ماہرین کو بھرتی کرنا ہو تو اس کی گنجائش نکل سکے، مگر حیرت انگیز طور پر اسٹیٹ بینک نے خود کو اس عمل سے بھی آزاد کر لیا ہے
شاہد ایچ کاردار کہتے ہیں کہ ’اگر بورڈ نے ہی تنخواہوں کا تعین کرنا ہے تو پھر اس میں ہونے والی بحث کو شائع کرنے کا اہتمام کیا جائے اور عوام کو آگاہ کیا جائے کہ گورنر اسٹیٹ بینک اور ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کو کن بنیادوں پر کیا مراعات دی گئی ہیں‘
اس کے علاوہ گورنر اسٹیٹ بینک اور دیگر اہم تقرریوں کے لیے مدت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی ہے اور اس میں پانچ سال کی توسیع کو شامل کیا گیا ہے۔ اس پر ماہرین نے شدید تنقید کی ہے
اگر سابقہ قانون میں مدت ملازمت تین سال تھی تو اس میں مزید ایک مدت کے لیے تقرری کی گنجائش سے کوئی بھی فرد مسلسل چھ سال تک گورنر اسٹیٹ بینک یا اہم عہدے پر رہ سکتا تھا۔ پانچ سال کی مدت اور مزید ایک مدت کی توسیع سے یہ دورانیہ دس سال ہوگیا ہے۔ جبکہ پاکستان میں یہ تجربہ رہا ہے کہ کوئی بھی حکومت پانچ سال مکمل نہیں کرتی ہے
ساجد امین، شاہد ایچ کاردار اور دیگر کا یہی کہنا ہے کہ ’پانچ سال کی مدت کے بعد دوبارہ تقرری کا طریقہ کار درست نہیں ہے‘۔
شاہد ایچ کاردار کہتے ہیں کہ ’جن چیزوں پر اسٹیٹ بینک نے خودمختاری مانگی ہے، اس پر انہیں ماضی میں بھی کسی نے کچھ نہیں کہا ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک بنیادی شرح سود 13.25 فیصد کر بھی دے تو اس پر کس نے انہیں روکا؟ یا اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر میں اپنی مرضی سے اتار چڑھاؤ کیا تو بھی کسی نے اسٹیٹ بینک کو کچھ نہیں کہا‘۔
اسٹیٹ بینک کے نئے قانون میں بظاہر ادارے کو سیاسی دباؤ سے آزاد کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر اس کوشش میں بہت سے اقدامات ایسے ہیں جن پر کُھل کر بحث کے بعد مناسب تبدیلیاں کی جاتیں تو بہتر ہوتا۔ حکومت نے جس انداز میں اس کو منظور کروایا ہے اس سے اس قانونی مسودے پر عوامی شکوک میں اضافہ ہورہا ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے اس قانون پر خود حکومت کی مشینری کو بھی اعتماد نہیں ہے۔ اس قانون کے حوالے سے وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ’آنے والی حکومت اگر یہ سمجھے کہ اسٹیٹ بینک کا بورڈ باغی ہوگیا ہے اور حکومت کی معاشی پالیسیوں کے حوالے سے رکاوٹ بن رہا ہے تو پارلیمنٹ اس قانون کو سادہ اکثریت سے ختم کرسکتی ہے۔ یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے نہ کہ کوئی آئینی ترمیم‘
وزیرِ خزانہ کا یہ بیان اس قانون کے مستقبل کے حوالے سے تصویر کو واضح کرتا ہے کہ موجودہ حکومت میں مالیاتی شعبے کی قیادت بھی اس قانونی مسودے سے بہت زیادہ متفق نظر نہیں آتی ہے
بہت ممکن ہے کہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری واپس لینا سیاسی جماعتوں کا نعرہ بن جائے اور آئندہ انتخابات میں سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں بھی اس قانون کے خاتمے کو شامل کرلیں.