وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی صف بندی: ماضی میں تحریک عدم اعتماد کب، کیسے اور کس کے خلاف پیش ہوئی؟

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے ملک کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے کمر کس لی ہے۔ اس کی وجہ بظاہر مہنگائی اور معاشی بدانتطامی بتائی جا رہی ہے. ایسے میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے باہمی روابط اور ملاقاتوں میں بھی تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے اور ان رابطوں میں حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی خاصی اہمیت اختیار کر گئی ہیں

یہ تحریک کب اور کیسے پیش کی جائے گی، اس بارے میں ابھی حزب اختلاف نے کوئی تفصیلات شیئر نہیں کی ہیں۔ تاہم اس تحریک کی ناکامی کے حوالے سے حکومت پر امید دکھائی دے رہی ہے

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں کسی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جا رہی ہے، بلکہ یہ روایت ملکی سیاست میں پہلے بھی موجود رہی ہے

سنہ 1989: وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد

واضح رہے کہ پاکستان میں سنہ 1973 کے آئین میں جب تحریک عدم اعتماد کا طریقہ وضح کیا گیا تو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو دوتہائی اکثریت حاصل تھی تو کبھی یہ تحریک کسی نے پیش کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ مگر آگے چل کر جب ملک میں ایک بار پھر جمہوری سفر شروع ہوا تو تحریک عدم اعتماد جیسی فضا بھی اس کا مقدر بن گئی

سنہ 1988 میں جب ضیاالحق ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہوگئے تو اس کے بعد نئے آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے مارشل نافذ کرنے یا کوئی اور نظام حکومت متعارف کرانے کے بجائے عام انتخابات کا اعلان کر دیا

ان انتخابات میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور یوں بے نظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں جبکہ نواز شریف ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے

ابھی حکومت کو بنے دو برس بھی نہیں گزرے تھے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر متفق ہو گئیں

سینیئر صحافی نصرت جاوید کے مطابق اپوزیشن اپنے اراکین مری لے گئی جبکہ پیپلز پارٹی کے خیبرپختونخوا میں وزیراعلیٰ آفتاب شیرپاؤ اپنے اراکین کو سوات لے گئے تاکہ کوئی وفاداری تبدیل نہ کرسکے

بے نظیر حکومت کے پہلے دور میں بدعنوانی کو ملکی حالات کی خرابی کی وجہ قرار دیا جا رہا تھا۔ صدر مملکت اسحاق خان، جو سابق بیوروکریٹ تھے اور انھوں نے دوبار اسمبلیاں تحلیل کر کے حکومت کے خاتمے کا اعلان بھی کیا، نے روئیداد خان کی سربراہی میں ایک سیل بھی قائم کر دیا تھا، جسے حکومتی عہدیداروں کی طرف سے کی جانے والی بدعنوانی پر نظر رکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی

بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں ہی ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف بھی بدعنوانی اور اغوا جیسے الزامات بھی میڈیا کی زینت بن چکے تھے

اینکرپرسن اور سینیئر صحافی حامد میر کے مطابق یہ ایک ایسا وقت تھا جب آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل انتخابات سے قبل ہی بے نظیر بھٹو حکومت کے خلاف خاصے متحرک تھے اور وہ بھی اس عدم اعتماد کے بھرپور حامی تھے اور انھوں نے اسلامی جمہوری اتحاد ’آئی جے آئی‘ کے نام سے اپوزیشن کو متحد کر دیا، جبکہ خان عبدالولی خان جیسے نامور اپوزیشن رہنما بھی وزیر اعظم کے خلاف متحرک تھے

نصرت جاوید کے مطابق فوج کے اندر بہت سے لوگوں کو یہ خوف بھی تھا کہ اگر بے نظیر بھٹو نے قدم جما لیے تو پھر وہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کریں گی جنھوں نے ان کے باپ اور ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دی اور اذیتیں پہنچائیں۔ تاہم راتوں رات آئی جے آئی بھی بنا دی گئی

ان کے مطابق نتائج پھر بھی توقعات کے برعکس آئے۔ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں مگر انھیں پنجاب کی حکومت نہیں دی گئی

تمام تر کوششوں کے باوجود حزب اختلاف کی بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی۔ یہ ناکامی بین الاقوامی اخبارات کی بھی شہ سرخیوں میں نمایاں طور پر شائع ہوئی

صحافی اور تجزیہ کار نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو اور ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ ان کے مطابق بے نظیر بھٹو کے ساتھ ثابت قدم لوگ تھے جنھیں توڑا نہیں جا سکتا تھا

نصرت جاوید اس دلیل کے حمایتی ہیں۔ ان کے مطابق جیسے ہی عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کی گئی تو پیپلز پارٹی کا ایک رکن تلاوت قرآن کے بعد فوری طور پر کھڑا ہو گیا اور انھوں نے کہا کہ انہیں زبردستی کچھ لوگ مری لے گئے تھے مگر وہ اپنی لیڈر اور اپنی جماعت کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس تحریک کے خلاف ہیں

نصرت جاوید کے مطابق یہ اپوزیشن کے لیے پہلا دھچکا تھا۔ ان کے مطابق جب اس تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوئی تو حکومت کے حق میں چار ووٹ اضافی ہی نکلے

حامد میر کے مطابق اس تحریک کی کامیابی کی صورت میں قائد حزب اختلاف غلام مصطفیٰ جتوئی نے وزیر اعظم بننا تھا جبکہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواز شریف نہیں چاہتے تھے کہ اپوزیشن لیڈر وزیراعظم بنے

نصرت جاوید کے مطابق چوہدری انور عزیز جو آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے نے اس قرارداد کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، جس کی وجہ سے حکومت کو چار ووٹ اضافی ہی ملے

حامد میر کے مطابق بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں آئی ایس آئی اور آئی بی میں بھی سخت مقابلے کی فضا تھی

ایسے حالات میں جب آئی ایس آئی حکومت کے خلاف کھڑی نظر آ رہی تھی تو آئی بی بھی وزیراعظم تک بروقت اور صیحح اطلاعات پہنچا رہی تھی

کیا اس بار اپوزیشن کی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجائے گی؟

قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان کے آئین کے تحت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوتی ہے یعنی سب کے سامنے ہوتی ہے، اس میں پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی طرح خفیہ ووٹنگ نہیں ہوتی

جب تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی ہے تو تین دن سے پہلے اس پر ووٹنگ نہیں ہوسکتی اور سات دن سے زیادہ اس پر ووٹنگ میں تاخیر نہیں کی جاسکتی ہے

نصرت جاوید کے مطابق تحریک عدم اعتماد پیش کرنا آسان ہے جبکہ اس کا منظور ہونا بہت مشکل ہے۔ ان کے خیال میں بے نظیر کے پہلے دور حکومت سے عمران خان کہیں زیادہ مضبوط ہیں کیونکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی تحریک انصاف کی مضبوط حکومتیں قائم ہیں

نسیم زہرہ کے مطابق آج کے حالات میں ایک بات سو فیصد حتمی ہے کہ جب تک فوجی قیادت کا کردار اس تحریک میں وزیر اعظم کے خلاف نہیں ہو گا تو تب تک یہ کامیاب نہیں ہو سکتی

تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے امکانات پر بات کرتے ہوئے نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ حکومت کا ایک اپنا رعب اور دبدبہ ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں بے نظیر بھٹو کا ساتھ دینے والے خود بہت مضبوط تھے اور اب دیکھنا ہوگا کہ تحریک انصاف کے اراکین بھی اس قدر استقامت دکھاتے ہیں یا نہیں

حامد میر کے مطابق صورتحال ایک ہفتے تک واضح ہوجائے گی مگر ابھی اپوزیشن نے اپنی حکمت عملی کی تفصیلات شیئر نہیں کی ہیں

ان کے مطابق حکومت کے اراکین کو نااہلی کے خوف سے نکالنے کے لیے عین ممکن ہے کہ اپوزیشن پہلے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے کر آئیں تاکہ وہ ان کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن کو ریفرنس نہ بھیج سکیں

خیال رہے کہ اگر کوئی حکومتی رکن وزیراعظم کے خلاف ووٹ دے تو ایسی صورت میں سپیکر قومی اسمبلی اس رکن کے خلاف الیکشن کمیشن کو اٹھارویں ترمیم کی روشنی میں سیاسی وفاداری تبدیل کرنے پر نااہلی کا ریفرنس بھیج سکتا ہے

حامد میر کے مطابق ابھی حکومت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ پہلے پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لائی جائے یا مرکز سے اس کا آغاز کیا جائے

حامد میر کے خیال میں اس تحریک کا بیرومیٹر ایم کیوایم ہے۔ ان کے خیال میں اس وقت ایم کیو ایم سنجیدہ نظر آتی ہے اور اگر ایم کیو ایم نے ساتھ دیا تو پھر ق لیگ بھی اس تحریک کی حمایت کرے گی

نصرت جاوید اس بات سے متفق ہیں۔ ان کے مطابق بے نظیر بھٹو کے پہلے دورحکومت میں ایم کیو ایم کراچی میں بہت مضبوط تھی اور وہ حکومت کی اتحادی بھی بن گئی۔ ان کے مطابق ایم کیو ایم نے تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کا ساتھ دیا تھا

اگرچہ اس وقت اپوزیشن کے رہنما یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں ایم کیو ایم کے علاوہ بھی متعدد حکومتی اراکین کی بھی حمایت حاصل ہے۔ تاہم حامد میر کے خیال میں ایسے اراکین کی تعداد بظاہر تین سے چار ہی بنتی ہے جو اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملا سکتے ہیں

نصرت جاوید کے مطابق جب تک حکومت کے بیس سے تیس لوگ ”ٹوٹ کر“ اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیتے تو یہ تحریک محض وقت کا ضیاع ثابت ہوگی

حامد میر کے مطابق ابھی نواز شریف باہر سے سب ہدایات دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں نواز شریف پہلے اس خیال کے حامی نہیں تھے کہ تحریک عدم اعتماد لائی جائے کیونکہ وہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنا دینا چاہتے تھے۔ مگر یہ اہم ہے کہ اب وہ بھی اس تحریک کے حامی ہو گئے ہیں

حامد میر کے خیال میں اپوزیشن کو ایسا لگتا ہے کہ اب عمران خان کے سر سے سٹیبلشمنٹ کا ہاتھ اٹھ گیا ہے اور اب اتنخابات سے متعلق بھی اپوزیشن میں کوئی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ان کے مطابق اپوزیشن کی مرضی سے آئی ایم ایف سے قرضے لینے کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے قانونی سازی منظور ہوئی ہے

حامد میر کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں مہنگائی آئی ایم ایف کی وجہ سے بڑھی تو پھر یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ اگر عمران خان کو رخصت بھی کر دیا تو کیا کوئی جماعت برسراقتدار آ کر آئی ایم ایف سے ڈیل منسوخ کرنے کی ہمت کرے گی؟

ان کے مطابق اپوزیشن رہنما اس سوال پر کوئی واضح جواب دینے سے قاصر ہیں

بہرحال ملک میں اس طرح کی پیش رفتوں میں پیسے، سیاسی اور حکومتی عہدوں جیسے عوامل کا بھی بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے، جبکہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی کلیدی ہے. پاکستان کی سیاست ان چند معاملات میں سے ایک ہے، جن کے بارے میں بس ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ”وسیع تر قومی مفاد میں“ کب کیا ہو جائے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close