فلسطینیوں پر مظالم: اسرائیل کا اقوام متحدہ سے تعاون نہ کرنے کا اعلان

ویب ڈیسک

نیویارک – اسرائیل نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن اور اس کی سربراہ پر یہودی ریاست کے لیے ’غیر منصفانہ طور پر تعصب‘ رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف مبینہ بدسلوکی کی تحقیقات میں عالمی ادارے سے تعاون نہیں کرے گا

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق کمیشن کی سربراہ ناوی پلے کو بھیجے گئے ایک خط میں اس سخت فیصلے نے اسرائیل اور جینیوا میں قائم اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ہیومن رائٹس کونسل کے درمیان پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا دیا ہے

اس خط میں، جس پر اقوام متحدہ میں اسرائیل کی مندوب میرو ایلون شاہر کے دستخط ہیں، میں کہا گیا ہے کہ ’یہ میرے ملک کے لیے واضح ہے کہ اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اسرائیل کے ساتھ انسانی حقوق کی کونسل یا اس کے کمیشن آف انکوائری سے معقول، منصفانہ اور غیر امتیازی سلوک روا رکھا جائے گا۔‘

واضح رہے کہ کونسل نے غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کے عسکریت پسندوں کے درمیان گیارہ روزہ جنگ کے چند دن بعد یعنی گذشتہ سال مئی میں تین رکنی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا

اس لڑائی میں خواتین اور بچوں سمیت دو سو ساٹھ سے زائد فلسطینی شہید کیے گئے تھے، جب کہ اسرائیل میں بھی چودہ افراد اپنی جانوں سے گئے تھے

اس وقت انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر مشیل بیچلیٹ نے کہا تھا کہ اسرائیلی کارروائیاں، جن میں شہری علاقوں میں فضائی حملے بھی شامل ہیں، جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتے ہیں

اس کے بعد سے ہیومن رائٹس واچ سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے اسرائیلی حملوں کو جنگی جرائم قرار دیا ہے

بیچلیٹ اور ایچ آر ڈبلیو دونوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیلی شہروں پر حماس کی جانب سے اندھا دھند راکٹ داغے جانا بھی جنگ کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے

دوسری جانب اسرائیل نے حماس کو عام شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے

خیال رہے کہ کونسل کے کمیشن آف انکوائری کی ذمہ داریوں میں غزہ جنگ کے علاوہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فلسطینیوں کے خلاف بدسلوکی کی تحقیقات کرنا بھی شامل ہے۔ کمیشن کو اسرائیل، غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی نگرانی کرنے کا مینڈیٹ حاصل ہے۔ یہ ایسا پہلا کمیشن ہے جس کے پاس اس طرح کا ’موجودہ‘ مینڈیٹ ہے

اسرائیل طویل عرصے سے اقوام متحدہ اور خاص طور پر انسانی حقوق کونسل پر اسرائیل کے خلاف تعصب رکھنے کا الزام لگا کر راہِ فرار اختیار کرتا رہا ہے

اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس کے انسان حقوق کا ریکارڈ کونسل کے ہر اجلاس میں زیر بحث آتا ہے۔ اسرائیل نے کونسل کی تشکیل کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں ایسے ممالک شامل ہیں جن کا خود انسانی حقوق کا رکارڈ خراب ہے یا وہ اسرائیل کے خلاف کھلی دشمنی رکھتے ہیں

واضح رہے کہ سینتالیس رکنی کونسل میں چین، کیوبا، اریٹیریا، پاکستان، وینزویلا اور متعدد عرب ممالک بھی شامل ہیں

اسرائیل نے جنگ کے دوران اپنے طرز عمل اور فلسطینیوں کے ساتھ بدسلوکی کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو بھی بارہا مسترد کیا ہے

دا ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت نے ممکنہ اسرائیلی جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغاز کیا ہے، جس کے بارے میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ دشمنی سے متاثر ہے اور اسے ’غیر قانونی ریاست قرار‘ دینے کی بین الاقوامی مہم کا حصہ ہے

ایلون شاہر نے خط میں لکھا: ’یہ کمیشن آف انکوائری یقینی طور پر اسرائیل کو ’شیطانی ریاست‘ ظاہر کرنے کی کوششوں کا ایک اور افسوسناک باب ہے۔‘

خط میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کی سربراہ کو ذاتی طور پر نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جنوبی افریقہ کی ایک سابق جج پلے نے اسرائیل کو نسلی عصبیت رکھنے والی قوم قرار دینے کے ’شرمناک‘ عمل اور اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی قیادت میں بین الاقوامی بائیکاٹ تحریک کی حمایت کی

اسرائیلی سفیر 29 دسمبر کو پلے کی جانب سے اسرائیل کی حکومت کے نام بھیجے گئے ایک خط کا جواب دے رہی تھیں، جس میں اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ وہ کمیشن کی تشکیل کے بعد ظاہر کیے گئے ’اپنے عدم تعاون کے موقف پر نظر ثانی کرے۔‘

پلے نے لکھا تھا کہ کمیشن کو اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کا دورہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس دورے کے لیے مارچ کے آخری ہفتے میں درخواست بھی دی گئی تھی، جس کے تحت کمیشن کے چھ سے آٹھ عملے نے سفر کی کوشش کی

اسرائیلی سفیر نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خط میں کہا کہ اسرائیلی حکومت اس طرح کی رسائی کے لیے کمیشن کے ساتھ ہرگز تعاون نہیں کرے گا

اسرائیل نے اس انکار کے بعد اس الزام کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی کہ ”پلے جو ’الزام‘ لگاتی ہیں، وہ ’اسرائیل مخالف تعصب‘ ہے“

پلے نے 2017ع میں ایک انٹرویو میں نسلی عصبیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ نسلی بنیادوں پر لوگوں کو جبری طور پر تقسیم کرنا ہے اور یہ اسرائیل میں ہو رہا ہے۔‘

پلے نے یہ بھی کہا تھا کہ ’اسرائیل کی حکومت ماضی میں نسلی عصبیت رکھنے والے جنوبی افریقہ اور اسرائیل کے درمیان موازنے پر ناراض ہے۔‘

پلے نے اپنی تقرری کے بعد سے سامنے آنے والے اسرائیل مخالف تعصب کے الزامات کا عوامی طور پر کبھی کوئی جواب نہیں دیا

کمیشن نے جمعرات کو اے پی کو ایک ای میل میں اس حوالے سے جواب دیتے ہوئے کہا ”اس کے اراکین عوامی طور بیانات دینے اور نہ ہی متعلقہ فریقوں کے درمیان ان کی بات چیت کو عام کرنے کا اختیار رکھتے ہیں تاکہ ان کے کام کی ساکھ کو برقرار رکھا جا سکے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close