روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین کے مشرق میں موجود علیحدگی پسندوں کے دفاع کے لیے فوجی آپریشن کا اعلان کردیا ہے۔
غیر ملکی خبررساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق انہوں نے صبح 6 بجے سے کچھ دیر پہلے ٹیلی ویژن پر ایک حیران کن بیان میں کہا ‘میں نے فوجی آپریشن کا فیصلہ کر لیا ہے’۔
ولادیمیر پیوٹن نے دوسرے ممالک کو خبردار کیا کہ روس کی کارروائی میں مداخلت کی کوئی بھی کوشش ایسے نتائج کا باعث بنے گی جو انہوں نے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔
انہوں نے امریکا اور اس کے اتحادیوں پر الزام لگایا کہ وہ یوکرین کو نیٹو میں شمولیت سے روکنے کے لیے روس کے مطالبات کو نظر انداز کر رہے ہیں اور ماسکو کو سکیورٹی کی ضمانتیں پیش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ روس کے اس فوجی آپریشن کا مقصد یوکرین کی ڈی ملیٹرائزیشن کو یقینی بنانا ہے۔
ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ ہتھیار ڈالنے والے تمام یوکرائنی فوجی جنگی زون سے بحفاظت نکل سکیں گے۔
ولادیمیر پیوٹن کے بیان کے کچھ دیر بعد خبررساں ادارے ‘رائٹرز’ کے ایک گواہ نے یوکرین کے دارالحکومت کیف سے کچھ فاصلے پر دھماکوں کی آواز سنی۔
دھماکوں نے مشرقی یوکرینی شہر ڈونیٹسک کو بھی ہلا کر رکھ دیا جس کے بعد سویلین طیاروں کو خبردار کردیا گیا۔
انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے کے مطابق دارالحکومت کے مرکزی ہوائی اڈے کے قریب گولیوں کی آوازیں سنائی دیں۔
روس کی فوجی کارروائی کا دائرہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا۔
خبرساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے صحافیوں نے بحیرہ اسود کے بندرگاہی شہر اوڈیسا میں بھی دھماکوں کی آواز سنی۔
روسی سرحد سے 35 کلومیٹر جنوب میں واقع ایک بڑے شہر خارکیف میں بھی دھماکے سنے گئے۔
‘اے ایف پی’ کے صحافیوں نے بتایا کہ کراماٹوسک میں 4 زوردار دھماکے ہوئے، جو کہ مشرقی جنگی زون کے لیے یوکرین حکومت کے موثر علاقے کی حیثیت رکھتا ہے۔
دھماکوں کی مزید آوازیں مشرقی بندرگاہی شہر ماریوپول میں سنی گئیں۔
روس نے طویل عرصے سے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس کا اپنے پڑوسی ملک کی سرحد کے قریب دسیوں ہزار فوجی جمع کرنے کے باوجود حملہ کرنے کا کوئی ارادہ ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ان کی دعائیں ایسے وقت میں یوکرین کے عوام کے ساتھ ہیں جب وہ روس کے فوجی دستوں کے بلا اشتعال اور بلا جواز حملے کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صدر ولادیمیر پیوٹن نے پہلے سے سوچی سمجھی جنگ کا انتخاب کیا ہے جو تباہ کن جانی نقصان اور انسانی مصائب کو دعوت دے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس حملے سے ہونے والی ہلاکتوں اور تباہی کا ذمہ دار صرف روس ہے، امریکا اور اس کے اتحادی اور شراکت دار متحد اور فیصلہ کن انداز میں جواب دیں گے، دنیا روس کو جوابدہ ٹھہرائے گی۔
انہوں نے کہا کہ وہ رواں ہفتے عائد مالیاتی اقدامات کے علاوہ جمعرات کو (آج) روس پر مزید پابندیوں کا اعلان کریں گے۔
روس کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز اس وقت ہوا جب نیویارک میں یوکرین کے بحران پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا۔
ایک مسودہ قرارداد جس میں روس کو اس کے پڑوسی ملک کے خلاف اقدامات پر متنبہ کیا گیا ہے، روس کے ویٹو پاور کی وجہ سے ناکام ہو جائے گا۔
تاہم سلامتی کونسل کے ایک سفارت کار نے کہا کہ روس کو نوٹس جاری کیا جائے گا کہ یہ عمل بین الاقوامی قوانین کے مطابق نہیں ہے۔
یوکرین کے صدر کی اپیل
ولادیمیر پیوٹن کا یہ بیان کریملن کے اس بیان کے بعد آیا ہے جب مشرقی یوکرین میں باغی رہنماؤں نے ماسکو سے کیف کے خلاف فوجی مدد کی درخواست کی۔
اس کے جواب میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے رات گئے روسیوں سے یورپ میں ‘بڑی جنگ’ کی حمایت نہ کرنے کی جذباتی اپیل کی۔
روسی زبان میں بات کرتے ہوئے ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ روس کے لوگوں سے یوکرین کے بارے میں جھوٹ بولا جا رہا ہے اور جنگ ہونے کا امکان بھی آپ پر منحصر ہے۔
انہوں نے کہ ‘لوگو یہ(جنگ)کون روک سکتا ہے؟ مجھے یقین ہے یہ لوگ آپ میں سے ہی ہیں’۔
ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ انہوں نے پیوٹن کو فون کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں کوئی جواب نہیں ملا، صرف خاموشی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماسکو نے اب یوکرین کی سرحدوں کے قریب 2 لاکھ فوجی جمع کردیے ہیں۔
روسی صدر کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ اس سے قبل ڈونیٹسک اور لوگانسک کے علیحدگی پسند رہنماؤں نے ولادیمیر پیوٹن کو علیحدہ علیحدہ خط بھیجے، جن میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ یوکرین کی جارحیت کو پسپا کرنے میں ان کی مدد کریں۔
دونوں خطوط روس کے سرکاری میڈیا نے شائع کیے اور دونوں کی تاریخ 22 فروری تھی۔
ان کی یہ اپیلیں ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے ان کی آزادی کو تسلیم کرنے اور ان کے ساتھ دوستی کے معاہدوں پر دستخط کرنے کے بعد سامنے آئیں جن میں دفاعی سودے بھی شامل ہیں۔
دسیوں ہزار روسی فوجی یوکرین کی سرحدوں کے قریب تعینات ہیں اور مغربی ممالک کئی دنوں سے کہہ رہے تھے کہ حملہ جلد ہونے والا ہے۔