پیرس: آب و ہوا میں تبدیلی کا مطالعہ کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی تنظیم انٹر گورنمینٹل پینل فار کلائمٹ چینج ( آئی پی سی سی) نے اپنی نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ اب موسمیاتی تبدیلیوں سے کرہِ ارض کے حساس نظام کو جو نقصان ہورہا ہے اس کا مداوا نہیں کیا جاسکتا۔
اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی شدت یعنی بے تحاشا بارش، خشک سالی، گرمی کی لہروں اور سبزے کی آگ کے واقعات سے براہِ راست تین کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد براہِ راست زد پر ہیں۔
واضح رہے کہ یہ ہزاروں صفحات پر محیط ایک رپورٹ ہے جس کا نام ’کلائمٹ چینج 2022: اثرات، مطابقت پذیری اور زدپذیری‘ رکھا گیا ہے۔ اس اہم دستاویز کی اشاعت پر اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتونیو گیوٹیرس بھی پریس کانفرنس پر موجود تھے جنہوں نے اسے ’انسانی المیے کا اٹلس‘ قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ اسیسمںٹ رپورٹ ہے جو آئی پی سی سی نے آٹھ برس بعد جاری کی ہے اور 3675 صفحات پر مشمتل ہے لیکن پالیسی سازوں کے لیے 35 صفحات کا خلاصہ لکھا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے ہزاروں مصنفین میں سے ایک ریشل وارن بھی ہیں جو جامعہ ایسٹ اینجلیا کی سائنسداں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اوسط درجہ حرارت میں ڈیڑھ درجے سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوچکا ہے اور دو درجے سینٹی گریڈ کا اضافہ موت کے برابر ہوگا۔
رپورٹ میں زور دے کر ثبوت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ غیر یقینی موسمیاتی شدت دماغی اور ذہنی امراض کی وجہ بھی بن رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق غریب ترین ممالک اس سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں جن میں مشرقی، مغربی اور وسطی افریقہ، جنوبی ایشیا اور جنوبی امریکا شامل ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام کے مقابلے میں غریب ممالک میں موسمیاتی شدت ( بارش، سیلاب اور خشک سالی وغیرہ ) سے اموات کی شرح بھی 15 فیصد زائد ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا کی نصف سے زائد آبادی شہروں کی باسی ہے جہاں ہیٹ ویوو، شہری سیلاب اور طوفان وغیرہ سے انفرا اسٹرکچر اور بجلی کےنظام کو شدید نقصان پہنچتا رہتا ہے۔ یہ تبدیلیاں پورے شہر کو معطل کرسکتی ہیں جن میں ہمارے صوبہ پنجاب کی دھند بھی شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق کلائمٹ چینج سے جانوروں کی دو انواع معدوم ہوچکی ہیں اور ڈیڑھ درجے سینٹی گریڈ کے عالمی اوسط اضافے سے مزید 14 فیصد جاندار صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔