روس اور یوکرین کی جنگ مذہب سے کیسے جڑی ہے؟

ویب ڈیسک

کئیف – روسی فوج چوبیس فروری کو یوکرین میں داخل ہونے کے بعد سے شدید جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یوکرین اور روس کی سیاسی تاریخ گرہوں اور الجھاؤ کا شکار رہی ہے

ایک طرف جہاں روسی اور یوکرینی تاریخ میں سیاسی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں، وہیں مذہبی عدم آہنگی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ یوکرین کی آرتھوڈوکس مسیحی آبادی روسی آرتھوڈوکس چرچ اور ایک آزاد چرچ کی طلب میں برسوں سے منقسم رہی ہے

دونوں ملکوں میں مذہبی قوم پرستی کی آوازیں بھی بلند ہوتی رہی ہیں۔ مبصرین کے مطابق مذہبی وفاداری کو سیاسی وفاداری کا متبادل قرار نہیں دیا جا سکتا، کم از کم ایسے وقت پر، جب یوکرین اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کسی حد تک یوکرین میں فوج کشی کو روسی آرتھوڈوکس چرچ کے دفاع کے ساتھ بھی نتھی کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ کے دونوں دھڑوں کے سربراہان شد و مد سے اس فوج کشی کی مخالفت کا سلسلہ اپنے اپنے انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں

مخالفت کے اس عمل میں یوکرینی کیتھولک عقیدے کے مسیحی بھی اپنی آواز بلند کیے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یوکرینی کیتھولک آبادی صدیوں سے روسی آرتھوڈوکس چرچ کے جبر کا شکار رہی ہے

سن 2018ع میں علیحدہ شناخت حاصل کرنے والے اور کیئف میں قائم یوکرین کے آرتھوڈوکس چرچ کے سربراہ میٹروپولیٹن ایپیفانی نے اپنی دعا میں ملک سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اس وقت اپنے ہمسائے اور بدی کی قوت کے خلاف برسرِپیکار ہے، جس کے لیے وہ فتح کی دعا کرتے ہیں

دوسری جانب قدیمی یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ ہے، جو روسی آرتھوڈوکس چرچ کے ماتحت ضرور ہے لیکن اپنی خود مختاری بھی رکھتا ہے۔ یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ کے سربراہ پیٹری آرک اونوفرائی آف کیئف نے اپنی دعا میں کہا، ”اے خدا! غلط فہمیوں کو دور کر، ہمارے ملک کو متحد کر اور محبت سے نواز‘‘

اس بیان کے ویب سائٹ پر پوسٹ کیے جانے کے ایک دن بعد ہی یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ نے یہ بیان بھی پوسٹ کیا کہ اس کے ماتحت گرجا گھروں اور عقیدت مندوں کو حملوں کا سامنا ہے۔ ایک حملے کا الزام تو حریف آرتھوڈوکس چرچ پر بھی عائد کیا گیا

مختلف سروے ظاہر کرتے ہیں کہ بیشتر یوکرینی آبادی آرتھوڈوکس چرچ سے وابستہ ہے اور ایک واضح اقلیت کیتھولک عقیدے سے تعلق رکھتے ہوئے پاپائے روم کی پیروکار ہے۔ اس مسیحی اقلیتی آبادی کے علاوہ قلیل تعداد میں پروٹسٹنٹ کرسچن بھی ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ مختصر تعداد میں یہودی اور مسمان بھی وہاں آباد ہیں

ماہرین کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرین کی ایک مشترکہ تاریخ ضرور ہے، مگر اس میں مذہبی اور سیاسی تقسیم واضح طور ملتی ہے۔ روسی اور یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ میں مخاصمت بھی کوئی نئی نہیں ہے

واضح رہے کہ کسی بھی علاقے کے آرتھوڈوکس چرچ کا سربراہ قسطنطنیہ کے ایکیومینیکل پیٹری آرک کے ماتحت ہوتا ہے اور یہ ماتحتی علامتی ہوتی ہے۔ مختلف علاقوں یا ممالک کے آرتھوڈوکس چرچ اپنی خود مختاری کے حامل بھی ہوتے ہیں

موجودہ ایکیومینیکل پیٹری آرک بارتھولومیو نے یوکرین کے نئے آرتھوڈوکس چرچ کی آزاد حیثیت کو سن 2018ع میں تسلیم کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے سابق یوکرینی صدرر پیٹرو پوروشینکو کا کردار بھی اہم تھا۔ اس سے پہلے یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ پوری طرح روسی آرتھوڈوکس چرچ کے ماتحت ہوتا تھا اور اب بھی ایک بڑی یوکرینی آبادی اس چرچ سے وابستہ ہے

سابق یوکرینی صدر پیٹرو پوروشینکو کا کہنا تھا کہ ان کے چرچ کی آزادی حقیقت میں اس کلیسا کے مغرب نواز اور یوکرینی نواز ہونے کی حیثیت کو واضح کرتی ہے

روسی یوکرینی جنگ شروع ہونے تک یوکرینی چرچ کے کئی راہب خانے اور کلیسائی علاقے ماسکو کے پیٹری آرک کے ماتحت تھے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ جنگ سے ممکنہ طور پر یوکرین میں روسی آرتھوڈوکس چرچ کی مسلمہ حیثیت کا خاتمہ ہو سکتا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close