پاکستان میں ایک ایسے خاندان کا انکشاف ہوا ہے جو کئی طرح کے درد سے عاری ہے۔ اس خاندان کے دو بھائیوں اور ایک چچا ایک نایاب جینیاتی مرض کے شکار ہیں جسے "موروثی طور پر حساسیت سے ازخود نیوروپیتھی ٹائپ ٹو” یعنی HSAN-II کا نام دیا گیا ہے
اس خاندان پر کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ان کے جسموں کے ڈی این اے میں پائے جانے والا ایک خاص جین WNK1 نارمل نہیں اور اسی نقص کی وجہ سے وہ درد محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جسموں پر چوٹ، زخم اور کھرونچوں کے نشانات ہیں کیونکہ انہیں درد کا احساس ہی نہیں ہوتا
ایچ ایس اے این ٹو ایک بہت ہی کمیاب موروثی کیفیت ہے۔ اس کے آثار بچپن میں ہی ہاتھ اور پیر سُن ہونے کی صورت میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد سرد اور گرم کا احساس ہونا بھی بند ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اگر چوٹ لگ جائے یا زخم کھل جائے تو وہ محسوس نہیں ہوتا۔ بسااوقات وہ اپنے زخموں کا علاج نہیں کرواتے جس سے اعضا خراب ہوجاتے ہیں اور انہیں کاٹنا بھی پڑجاتا ہے
ایسے مریض معمولات کے دوران غیرارادی طور پر خود کو زخمی کر لیتے ہیں، انگلی کاٹ لیتے ہیں، زبان دانتوں تلے چبا لیتے ہیں اور یوں درد نہ محسوس کرنا ان کے لیے ایک وبال بن جاتا ہے۔
کینیڈا کے سینٹر فار ایڈکشن اینڈ مینٹل ہیلتھ کے جان ونسنٹ، پاکستان میں واہ میڈیکل کالج کے مطلوب اعظم اور دیگر دو سائنسدانوں نے یہ تحقیق کی ہے جس کی تفصیلات ’جرنل آف ہیومن جینیٹکس‘ میں شائع ہوئی ہیں۔
مذکورہ خاندان کی نشاندہی نام اور تفصیل خفیہ رکھتے ہوئے تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 18 سالہ اور 11 سالہ دو بھائیوں کا تعلق پنجاب سے ہے اور ان کے 32 سالہ چچا بھی اس کیفیت کے شکار ہیں لیکن چچا تحقیق کے لیے موجود نہ تھے۔ دونوں لڑکے پیدائشی طور پر درد محسوس نہیں کر پاتے۔ یہ خاندان خود کو راجپوت کہتا ہے
ان میں سے بڑے بھائی کی ایک انگلی میں نقص دیکھا گیا ہے اور جلد کی رنگت جگہ جگہ سے غیریکساں ہے، لیکن چار سال قبل ایک واقعے میں اس کے دونوں پیر کاٹے جا چکے ہیں۔ دونوں کے ڈی این اے کا مکمل تجزیہ کیا گیا تو WNK1 میں نقص تھا۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے پروفیسر جان ونسنٹ نے ایک ای میل میں کہا کہ یہ جین پاؤں اور ہاتھوں کے کنارے درد سے آزاد ہوجاتے ہیں لیکن جسم کے اندرونی بڑے اعضا کا درد بہرحال محسوس ہوتا ہے۔
بلوغت پر ایسے افراد کی ہڈیاں غیر ارادی طور پر ٹوٹتی ہیں، گہرے زخم لگتے ہیں اور انگلیاں یا عضو کاٹنے بھی پڑجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک اور خاندان میں یہ کیفیت دیکھی گئی ہے لیکن اس کی وجہ ایک دوسرا جین ہے جسے ایس سی این نائن اے کہا جاتا ہے۔ تاہم دونوں خاندانوں میں جینیاتی امراض کی بنیادی وجہ نسل در نسل ایک ہی خاندان میں کی گئی شادیاں بھی بتایا گیا ہے۔
اسی سال ملکی اور بین الاقوامی ماہرین نے ایسے کئی جینیاتی امراض دریافت کیے ہیں جو صرف پاکستانی آبادی میں ملے ہیں۔ مثلاً اے ڈی سی وائی تھری جین میں تبدیلی شدید موٹاپے اور سونگھنے کی ناقص صلاحیت کی وجہ بنتی ہے جو اس سال بطورِ خاص پاکستان میں دریافت ہوا ہے۔
اس کے علاوہ مارک تھری جین کی خرابی سے سندھ میں ایک ایسی نایاب جینیاتی بیماری دریافت ہوئی ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ آنکھیں غائب ہوجاتی ہیں۔
دوسری جانب کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین نے پاکستانی آبادی میں موجود جینیاتی تبدیلیوں کا پہلا ڈیٹابیس مرتب کیا ہے۔ اس میں ایک ہزار ایسی جینیاتی تبدیلیوں کو شامل کیا گیا ہے جو 120 امراض یا سنڈروم کی وجہ بن رہی ہیں۔ اسی بنا پر پاکستان میں جینیاتی امراض کے ایک مرکز کی تعمیر ناگزیر ہے تاکہ پوری آبادی میں پراسرار اور ان سنی بیماریوں کا جائزہ لیا جا سکے
جان ونسنٹ نے بتایا کہ وہ پاکستان میں خاندانی شادیوں کی وجہ سے ہونے والے امراض پر مزید تحقیق کرنے کا ارادہ ارادہ بھی رکھتے ہیں.