بھٹو : ’پاکستانی کیسی قوم ہیں، انہوں نے اپنے راجہ کو مار دیا‘

محمود الحسن

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے دن قرۃ العین حیدر لکھنؤ میں تھیں، جہاں لوگ سوگ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اردو کی ممتاز فکشن نگار نے اس دن کا احوال برسوں بعد معروف شاعرہ کشور ناہید کو سنایا، جنہوں نے اسے اپنی کتاب ’شناسائیاں رسوائیاں‘ میں محفوظ کر دیا ہے

وہ قرۃ العین حیدر کے حوالے سے لکھتی ہیں ”ایک دن مجھے بتا رہی تھیں، جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو اس دن وہ لکھنؤ میں تھیں۔ بازار میں عزیز بانو کے ساتھ نکلیں۔ کیا دیکھتی ہیں دکانیں یا تو کھلی نہیں ہیں یا پھر ادھ کھلی ہیں۔ دکاندار گم متھان سامنے زمین پر بیٹھے ہیں۔ افسوس یہ کر رہے ہیں کہ ایک اچھے آدمی کو پاکستان میں پھانسی دے دی گئی ہے۔ لوگ کہہ رہے تھے ’بھٹو نے انڈین لوگوں کو کتا بھی کہا تھا مگر وہ سب زبانی کلامی باتیں تھیں۔ آدمی تو ذہین تھا، کسی کو حق نہیں تھا اس کو پھانسی دینے کا۔“

”شام کو عینی آپا کو لکھنؤ سے بمبئی بذریعہ ٹرین جانا تھا۔ جب وہ ویٹنگ روم میں پہنچیں تو دیکھا کہ ایک خاتون بیٹھی ہے اور ساڑھی کے پلو سے آنسو پونچھتی جاتی ہے۔ عینی آپا نے رونے کا سبب پوچھا تو بولیں، ’پاکستانی کیسی قوم ہیں۔ انہوں نے اپنے راجہ کو مار دیا ہے۔‘

لکھنؤ میں بھٹو کی موت نے عام آدمی کو کیسے رنج میں مبتلا کیا اس کے بارے میں آپ نے جان لیا

اب کچھ ذکر انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کا ہو جائے، جہاں بھٹو کے عشاق کے ردعمل کی خبر معروف انڈین شاعر، براڈ کاسٹر اور ادبی جریدے ’ذہن جدید‘ کے ایڈیٹر زبیر رضوی نے اپنی خود نوشت ’گردش پا‘ میں دی ہے: ”موت کا مجھ پر نشانہ اس وقت چوکا جب ہزاروں کشمیریوں نے ریڈیو کشمیر اور ٹی وی کی عمارتوں کو جلا دینے کے خیال سے دھاوا بولا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ پاکستان کے صدر ضیاءالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا صدارتی حکم جاری کر دیا تھا۔ اُس وقت مرار جی ڈیسائی ہمارے وزیراعظم تھے اور انہوں نے اپنی حکومت کا یہ موقف صاف لفظوں میں واضح کر دیا تھا کہ بھٹو کو پھانسی دینے کا معاملہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے، اس لیے بھارت اس میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔“

”حکومت کی اس واضح پالیسی کے بعد ریڈیو نے بھٹو کو پھانسی دینے سے متعلق خبروں کو اپنے خبرناموں میں جگہ نہیں دی۔ اس پر سب سے زیادہ احتجاج کشمیر وادی میں ہوا۔ لگاتار کئی خبر ناموں میں بھٹو کی پھانسی دیے جانے سے متعلق کوئی تفصیلی خبر نشر نہیں ہوئی تو ایک زبردست احتجاجی جلوس سڑکوں پر حکومت مخالف نعرے لگاتا ہوا اُمڈ پڑا۔
’پہلے تو اس جلوس نے سری نگر میں اقوام متحدہ کے مشاہدین کے دفتر کے سامنے مظاہرہ کیا اور اس کے ایک حصے پر تیل چھڑک کے آگ لگا دی۔ مشاہدین کے دفتر سے ملحقہ کوٹھی کشمیر دور درشن کے ڈائریکٹر کرن کی تھی۔ ہجوم نے اپنا غصہ اس کوٹھی پر بھی اتارا اور اسے جلا کر خاک کر دیا۔۔۔ ہجوم کا تیسرا نشانہ ریڈیو کشمیر کی عمارت تھی۔ مشتعل ہجوم نے عمارت کے چاروں طرف سخت حفاظتی پہرے کے باوجود پٹرول چھڑک دیا۔ میں نے گیٹ پر جا کر مشتعل ہجوم کے نمائندوں سے بات کرنی چاہی تو مجھ پر کسی نے پٹرول کا چھینٹا پھینکا۔ دوسری طرف سے جلتی ہوئی ایک لو آئی جو بند گیٹ کی سلاخوں سے ٹکرا کر بجھ گئی۔ سکیورٹی والے مجھے اندر لے آئے۔ خدا جانے مشتعل ہجوم کے جی میں کیا آئی کہ وہ ریڈیو سے ملحقہ ہری سنگھ کلب کو آگ لگاتا ہوا کشمیر دور درشن کی طرف مڑ گیا، مگر سخت حفاظتی پہرے کی بنا پر عمارت کو جلانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ شام تک اشتعال انگیزوں کا زور ٹوٹ گیا۔“

بھٹو کی پھانسی پر نیپال میں بھی ایسا بھرپور احتجاج ہوا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ آٹھ سال پہلے ایک قومی روزنامے کے لیے ممتاز صحافی حسین نقی کا انٹرویو کیا تو ان کی زبانی معلوم ہوا:
‘بھٹو کی پھانسی پر نیپال جیسا احتجاج پاکستان میں بھی نہیں ہوا۔ شاہ بریندرا نے مظاہرین سے کہا کہ وہ ان کا احتجاج حکومت پاکستان تک پہنچائیں گے۔ لوگوں نے بادشاہ کے محل تک بہت بڑا مارچ کیا۔ ایسا نیپالی نیشنل ازم کے تصور کے زیر اثر ہوا ہوگا کیونکہ بھٹو نے بھی پاکستانی نیشنل ازم کو ابھارا تھا

’بھٹو ان کی نظر میں ایسے سیاسی لیڈر تھے، جو تبدیلی کے لیے کام کر رہے تھے۔ بھٹو کی پھانسی رکوانے کی کوشش تو بہت سے ملکوں نے کی لیکن پھانسی کے خلاف سب سے بڑا احتجاج نیپال میں ہوا اور یہ بات بہت کم لوگوں کو پتا ہے۔‘
ہم نے اس تحریر کا آغاز قرۃ العین حیدر کے حوالے سے کیا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی بتا دیں کہ ان کی کتاب ’کارِ جہاں دراز ہے‘ میں بھی بھٹو کا تذکرہ موجود ہے۔ وہ جونا گڑھ میں قرۃ العین حیدر کے الّن ماموں کے شاگرد رہے تھے اور اپنے استاد کا بڑا احترام کرتے تھے

ایک دفعہ وہ انگلینڈ سے جس بحری جہاز پر پاکستان واپس آرہی تھیں، بھٹو بھی اس میں سوار تھے۔ کراچی بندرگاہ پر نصرت بھٹو انہیں ریسیو کرنے آئیں تو ان کی گود میں گلابی رنگ والی صحت مند بچی بھی تھی

قرۃ العین حیدر کے بقول ’اس وقت اگر کسی نے بھوش وانی (پیش گوئی) کی ہوتی کہ یہ خوش باش بے فکر نوجوان ایک روز تختہ دار پر چڑھنے والا ہے تو کسے یقین آنا تھا۔ یہ ایک بہت ہی بھیانک واقعہ تھا اور وہ گول مٹول بچی جو جہاز میں اپنی ماں کی گود میں سوار آئی تھی وہ مستقبل میں اس ملک کی وزیراعظم بننے والی تھی۔‘

قرۃ العین حیدر نے بے نظیر بھٹو کے وزیر اعظم بننے کا تو بتایا، لیکن انہیں کیا تھی خبر کہ 2007ع میں ان کے انتقال کے چند ماہ بعد بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں قتل کر دیا جائے گا اور نامور صحافی اور کالم نویس عباس اطہر ان کی تصویر کے ساتھ اخبار میں یہ سرخی جمائیں گے:
’دنیا کو روتا چھوڑ کر باپ کے پہلو میں سو گئی‘

اس تحریر کا مقصود تو یہی تھا کہ چند مثالوں کے ذریعے بتایا جائے کہ بھٹو کی پھانسی کا پاکستان سے باہر لوگوں کو کس قدر رنج ہوا۔ اس میں بنیادی حوالہ ادب ہی ہے، اس لیے معروف شاعر اور افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی کی یہ رائے بیان کرنے میں مضائقہ نہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھٹو نے عام آدمی کی سوچ میں کتنی بڑی تبدیلی پیدا کی:
’بھٹو نے گرے ہوئے طبقے کو حیرت انگیز شعور دیا۔ میں دیہات کے اشرافیہ طبقہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے آباؤ اجداد دولت کے بل پر تو نہیں البتہ روایت کی وجہ سے بڑے بااثر لوگ تھے۔ میں گاؤں کے سٹیشن پر اترتا تو کئی کمی میرا سوٹ کیس اٹھانے کے لیے لپکتے لیکن اب کبھی ایسا نہیں ہوا۔‘

’پھر چوپال میں ہم پلنگ پر بیٹھتے اور وہ زمین پر، مگر اب وہ ہمارے ساتھ پلنگ پر بیٹھتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس شخص کا کنٹری بیوشن ہے جسے ہم ذوالفقار علی بھٹو کہتے ہیں۔ ان کے ہزار گناہ سہی لیکن میں ان کے سب گناہ معاف کر دیتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ اس نے غریبوں کو احساس دلایا کہ تم بھی انسان ہو اور دولت مند اور بااختیار طبقے سے کمتر نہیں۔‘

یاد رہے کہ احمد ندیم قاسمی کے ’فنون‘ میں ہی بھٹو کی پھانسی پر ممتاز شاعر اختر حسین جعفری کا ’نوحہ‘ شائع ہوا جس پر ضیاء الحق نے ادیبوں کی بھری بزم میں تنقید کی تھی

اس دلدوز نوحے پر ہم اپنی اس تحریر کو سمیٹتے ہیں:
اب نہیں ہوتیں دعائیں مستجاب
اب کسی ابجد سے زندانِ ستم کھلتے نہیں
سبز سجادوں پہ بیٹھی بیبیوں نے
جس قدر حرفِ عبادت یاد تھے ،پو پھٹے تک انگلیوں پہ گن لیے
اور دیکھا __ رحل کے نیچے لہو ہے
شیشۂ محفوظ کی مٹی ہے سرخ
سطرِ مستحکم کے اندر بست و در باقی نہیں
یا الٰہی، مرگِ یوسف کی خبر سچی نہ ہو
ایلچی کیسے بلادِ مصر سے
سوئے کنعاں آئے ہیں
اک جلوسِ بے تماشا گلیوں بازاروں میں ہے
تعزیہ بردوش انبوہ ہوا
روزنوں میں سر برہنہ مائیں جس سے مانگتی ہیں ،منتوں کا اجر،
خوابوں کی زکوٰۃ
سبز سجادوں پہ بیٹھی بیبیو!
اب کسی ابجد سے زندانِ ستم کھلتے نہیں
اب سمیٹو مشک و عنبر، ڈھانپ دو لوح و قلم
اشک پونچھو اور ردائیں نوک پا تک کھینچ لو
کچی آنکھوں سے جنازے دیکھنا اچھا نہیں
(4 اپریل 1979)

بشکریہ : اردو نیوز، سعودی نیوز ایجنسی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close