وزیراعظم پاکستان کے فرزند سے وزیرِاعلٰی پنجاب کا حلف لیے جانے کی ہزار داستان

ویب ڈیسک

صوبہ پنجاب میں لگ بھگ ایک ماہ تک جاری رہنے والی سیاسی ہلچل کے بعد ”نو منتخب“ وزیرِ اعلٰی حمزہ شہباز نے ہفتے کے روز عہدے کا حلف اٹھایا۔ تاہم انہیں حلف اٹھانے میں تقریباً دو ہفتوں کا وقت اور اداروں کی ایڑی چوٹی کا زور لگا

ان کی حلف برداری کی تقریب بھی ہلچل کے بغیر نہیں ہوئی۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر حمزہ شہباز سے حلف لینے کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف اسلام آباد سے لاہور پہنچ رہے تھے

تقریب گورنر ہاؤس میں منعقد ہونا تھی۔ پولیس کی طرف سے گورنر ہاؤس کے اندر اور باہر ”سکیورٹی“ کے لیے اضافی نفری تعینات کر دی گئی تھی۔ اندر حلف کے انتظامات کیے جا رہے تھے

تاہم صورتحال اس وقت ایک بار پھر دلچسپ ہو گئی، جب تقریب سے محض چند گھنٹے قبل گورنر پنجاب نے سابق وزیرِاعلٰی عثمان بزدار کا استعفٰی مسترد کر دیا۔ انھوں نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کو ایک خط لکھا، جس میں کہا گیا کہ عثمان بزدار کا استعفٰی آئین کے آرٹیکل (8)130 کے مطابق نہیں تھا، اس لیے اسے قبول نہیں کیا جا سکتا

اس کے فوری بعد پورے پروٹوکول کے ساتھ عثمان بزدار پنجاب اسمبلی پہنچے، جہاں ان کی سابق کابینہ کے کئی ارکان موجود تھے۔ یہاں عثمان بزدار نے ’کابینہ‘ کے اجلاس کی صدارت کی

ادہر وزیرِاعلٰی پنجاب حمزہ شہباز، قومی اسمبلی کے اسپیکر اور تقریب میں شریک ہونے والے دیگر مہمان گورنر ہاؤس پہنچ چکے تھے

اس دوران گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی طرف سے ٹوئٹر پر کئی پیغامات سامنے آئے۔ ایک پیغام میں انہوں نے لکھا کہ انھوں نے گورنر ہاؤس میں حلف برداری کی اجازت نہیں دی۔ نئی صورتحال میں غنڈوں کے زور پر تقریب کا انعقاد مجرمانہ فعل ہے

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ’انتظامیہ کو مسلسل وارننگ دی کہ اگر فوری طور پر گورنر ہاؤس خالی نہیں کرتے تو نتائج کے ذمہ دار چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب ہوں گے۔‘

تاہم اس دوران حلف برداری کی تقریب کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس پر گورنر پنجاب کا ایک اور پیغام سامنے آیا، جس میں انھوں نے ’گورنرہاؤس میں جاری غنڈہ گردی اور اس کو یرغمال بنانے پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے فوری نوٹس لینے کی استدعا کی۔’

ان کا کہنا تھا کہ ’غیر آئینی طور پر ایک جعلی وزیرِ اعلٰی کے حلف کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔‘

تاہم حلف برداری کی تقریب مکمل ہونے کے بعد چیف سیکریٹری پنجاب کی طرف سے حمزہ شہباز کے بطور وزیرِاعلٰی پنجاب تقرری کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔ وزیرِاعلٰی کے دفتر آمد پر انھیں پولیس کے ایک دستے نے گارڈ آف آنر بھی پیش کیا

منتخب ہونے سے حلف اٹھانے تک: 27 دنوں میں کیا کیا ہوا؟

حمزہ شہباز نے صوبے کے نئے وزیراعلٰی کا حلف اٹھا لیا ہے. یہاں تک پہنچنے کے لیے جو کچھ ہوا، وہ یقیناً پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک دلچسپ باب ہے

حمزہ شہباز کی پریشانیوں کا آغاز ان کی بطور وزیراعلٰی نامزدگی کے ساتھ ہی شروع ہوا، جب اُنہیں ان کے سیاسی مخالفین سے موروثی سیاست کے طعنے ملنا شروع ہوئے کیونکہ ان کے والد شہباز شریف کو مسلم لیگ ن نے وزرات عظمیٰ کا امیدوار نامزد کر رکھا تھا

انتخابی عمل میں تاخیر

پاکستان کے آئین کے مطابق کسی بھی صوبے میں نئے وزیراعلٰی کے انتخاب کے لیے گورنر اسمبلی کا اجلاس طلب کرتا ہے، اور سپیکر اسمبلی میں اس انتخاب کا انعقاد کر کے جیتنے والے امیدوار سے حلف لینے کی سمری گورنر کو بھیج دیتا ہے جو نومنتخب وزیراعلٰی سے حلف لیتا ہے

تاہم اتنا سادہ نظر آنے والا یہ آئینی عمل اس وقت لٹک گیا جب 3 اپریل کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس عین اس وقت ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے ملتوی کردیا جب ووٹنگ کا عمل شروع ہونے والا تھا

حمزہ شہباز کے مخالف امیدوار خود اسپیکر اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی تھے اور اسمبلی کا نظم و نسق چلانے کی وجہ سے انہیں ایک لحاظ سے تکینکی برتری حاصل تھی کیونکہ اسمبلی میں پتا بھی اسپیکر کی مرضی سے ہلتا ہے

تاہم اس تکینکی برتری کے ساتھ ساتھ انہیں 186 ووٹ بھی لینا تھے جو بظاہر ان کے لیے مشکل تھا کیونکہ تحریک انصاف کے دو گروپ علیم خان اور جہانگیر ترین نے حمزہ شہباز کی حمایت کا اعلان کردیا تھا

پنجاب اسمبلی کا وزیراعلٰی کے انتخاب کے لیے اجلاس پہلے 6 اپریل تک ملتوی کیا گیا پھر یہ تاریخ 16 اپریل کردی گئی۔ اسی دوران ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری بھی ’چوہدری کیمپ‘ سے نکل آئے، تاہم وہ انتخابات کی تاریخ دوبارہ تبدیل نہیں کر پائے

ڈپٹی اسپیکر نے اور مسلم لیگ ن نے بہت کوشش کی کہ 6 اپریل کو انتخاب ہو جائے لیکن وہ نہ ہوا بلکہ ڈپٹی اسپیکر سمیت کسی رکن کو اسمبلی کی عمارت میں بھی داخل نہ ہونے دیا گیا

چھ اپریل کو مسلم لیگ ن نے اپنی نوعیت کے ایک انوکھے واقعے میں ایک نجی ہوٹل میں علامتی اجلاس کے دوران حمزہ شہباز کو 199 ووٹوں سے وزیراعلٰی منتخب کرلیا۔
الیکشن نہ ہونا تھا نہ ہوا تھک ہار کے 8 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ میں فوری انتخاب کروانے کی درخواست دائر کردی گئی۔ کئی روز تک چلنے والی اس سماعت میں آخر کار یہ فیصلہ ہوا کہ الیکشن 16 اپریل کو ہی ہوگا

چوہدری پرویز الٰہی اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل میں چلے گئے۔ اس دوران صورت حال اور مشکل ہوگئی۔
سپیکر پرویز الٰہی نے اپنے ہی ڈپٹی سپیکر کے اختیارات سلب کر لیے اور ان کی اپنی پارٹی تحریک انصاف نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل کردی۔ عین اسی وقت ن لیگ نے بھی پرویز الٰہی کے خلاف عدم اعتماد جمع کرا دی

16 اپریل کو ہونے والا الیکشن کھٹائی پڑ گیا تو ہائی کورٹ نے اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کے اختیارات بحال کر کے انہیں انتخاب کروانے کے لیے پریذائیڈنگ افسر مقرر کردیا

16 اپریل کو انتخاب کا دن بھی آپہنچا لیکن اسمبلی کے اجلاس میں وہ کچھ ہوا جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ڈپٹی سپیکر کے حال میں داخل ہوتے ہی ان کی اپنی پارٹی کے اراکین نے ان پر حملہ کردیا اور ان کے لیے خود کو بچانا مشکل ہوگیا

تین گھنٹے بعد سینکڑوں پولیس اہلکار پنجاب اسمبلی کے حال کے اندر انتخابی عمل میں حائل رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے داخل کیے گئے۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔
اس دوران تشدد کے واقعات بھی ہوئے، اسپیکر پرویز الٰہی سمیت کئی اراکین زخمی ہوگئے جبکہ کئی پولیس اہلکاروں کو بھی زدو کوب کیا گیا

ڈپٹی اسپیکر نے سینکڑوں پولیس والوں کے جُھرمٹ میں اپنی نشست کے بجائے ویزیٹرز گیلری سے انتخاب کا عمل مکمل کروایا۔ اس طرح کے انتخابی عمل کی مثال اس سے پہلے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں موجود نہیں

ڈپٹی اسپیکر نے حمزہ شہباز کی جیت کا اعلان تو کردیا لیکن آگے ایک آگ کا دریا اور حمزہ شہباز کا انتظار کر رہا تھا۔ جب تحریک انصاف کے تعینات کیے گئے گورنر عمر سرفراز چیمہ نے نومنتخب وزیراعلیٰ سے حلف نہ لینے کا اعلان کردیا

گورنر عمر سرفراز چیمہ نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے حمزہ شہباز سے حلف لینے سے انکار کیا۔ حمزہ شہباز ایک دفعہ پھر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا کہ عدالت مجھ سے جلد حلف دلوانے کا حکم دے

عدالت نے چند روز کی سماعت کے بعد صدر مملکت کو ”مشورہ“ دیا کہ وہ حلف کے لیے اپنا نمائندہ مقرر کردیں جو نہ ہوا۔ پھر دوبارہ ہائی کورٹ میں درخواست دے دی گئی۔ اب کی بار عدالت نے گورنر پنجاب کو 24 گھنٹوں کے اندر خود یا اپنے نمائندے کے ذریعے حلف لینے کا ”مشورہ“ دیا

خیال رہے کہ پاکستان کے آئین کے تحت صدر مملکت اور گورنرز کو عدالتی استثنیٰ حاصل ہے۔ کوئی عدالت انہیں حکم جاری نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہائی کورٹ نے مشورہ نما حکم نامے جاری کیے

گورنر پنجاب نے پھر بھی حلف نہ لیا تو تیسری مرتبہ پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا اور ہائی کورٹ سے اپنے ہی فیصلوں پر عمل درآمد کروانے کی استدعا کی گئی۔ پھر عدالت نے سپیکر قومی اسمبلی کو حلف لینے کی ہدایت جاری کی

اس سارے عمل میں پانچ مرتبہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا جو کہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے

گورنر اور سابق وزیرِاعلٰی کے اقدامات کے بعد سرکاری سطح پر کیا ہوا؟

ہفتے کے روز گورنر پنجاب اور ان کے بعد سابق وزیرِاعلٰی عثمان بزدار کی جانب سے کیے جانے والے احکامات اور اقدامات پرعمل درآمد نہیں ہوا۔ بظاہر انتظامیہ اور پولیس کے کسی عہدیدار یا ادارے نے ان کے احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا

گورنر کی طرف سے سابق وزیرِاعلٰی کا استعفیٰ مسترد کیے جانے کے بعد عثمان بزدار نے جس ’کابینہ‘ کے اجلاس کی صدارت کی اس کی ’بحالی‘ کا کوئی نوٹیفیکیشن سرکاری طور پر جاری نہیں کیا گیا

دوسری جانب گورنر پنجاب کے مطابق انھوں نے گورنر ہاؤس میں وزیرِ اعلٰی کی حلف برداری کی تقریب کی اجازت نہیں دی تھی، لیکن پھر بھی اس کے باوجود تقریب گورنر ہاؤس ہی میں منعقد ہوئی

اس سے قبل جمعرات کے روز پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تھا، جس میں ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی جانی تھی تاہم اس سے قبل سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی نے اجلاس کو 16 مئی تک معطل کر دیا

پرویز الٰہی کے مطابق وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوئے تھے کیونکہ اسمبلی کے عملے کے افراد کو پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔ پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری کوارڈینیشن عنایت اللہ لک کو پولیس نے گورنر ہاؤس کے باہر سے گرفتار کیا تھا

پولیس کے مطابق ایسا مینٹینینس آف پبلک آرڈر کے تحت کیا گیا تھا کیونکہ سیکرٹری کوارڈینیشن کے بارے میں خدشہ تھا کہ وہ اسمبلی کے اجلاس کے دوران امن و امان کی صورتحال پیدا کر سکتے تھے

پولیس نے اسمبلی کے سیکریٹری محمد خان بھٹی کو بھی لاہور ہائی کورٹ کے باہر سے گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی تاہم وہ بچ نکلے

لگ بھگ ایک ماہ قبل مستعفی ہونے کے بعد سے عثمان بزدار نگران وزیرِاعلٰی کے طور پر کام کر رہے تھے۔ تاہم بظاہر ان کے احکامات پر انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے عملچدرآمد نہیں ہو رہا تھا

تو سوال یہ تھا کہ جب صوبے میں حکومت ہی نہیں تھی تو انتظامیہ، پولیس اور سول بیوروکریسی کام کرنے کے احکامات کس سے لے رہی تھی

بیوروکریسی کا کردار: اسمبلی کے اندر اور اسے سے باہر

تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں گذشتہ چند روز کے دوران بیوروکریسی کا دو قسم کا کردار دیکھنے میں آیا۔ ایک پنجاب اسمبلی میں اور دوسرا اسمبلی کے باہر

پنجاب اسمبلی کی بیوروکریسی کا جھکاؤ مکمل طور پر اسپیکر پرویز الٰہی کی طرف تھا تو سول بیوروکریسی کا پاکستان مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کی طرف

پاکستان میں پارلیمانی ترقی کے لیے کام کرنے والے ادارے پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں مرکز یعنی اسلام آباد میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب میں بھی انتظامیہ اور پولیس مرکز کی طرف سے ملنے والی ہدایات پر کام کر رہی تھی

وہ کہتے ہیں کہ ‘کیونکہ انتظامیہ اور پولیس کے سربراہان بنیادی طور پر سینٹرل سروسز کے افسران ہوتے ہیں اور وہ احکامات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے لے رہے ہوتے ہیں تو یہ افسران کام کرنے کی ہدایات بھی مرکز سے لے رہے ہوتے ہیں۔’

تاہم صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ اس امر کے ساتھ ساتھ پنجاب میں ‘ابتدا ہی سے بیوروکریسی کا جھکاؤ ن لیگ کی طرف زیادہ رہا ہے، جب سے ن لیگ کی حکومت آئی ہے۔’

پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے 16 اپریل کو پنجاب اسمبلی میں ہونے والے وزیرِاعلٰی کے انتخاب کو مبصر کے طور پر گیلری سے بیٹھ کر دیکھا تھا۔ انتخاب کے لیے ہونے والے اس اجلاس میں ممبران کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوا تھا

تاہم ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے گیلری سے کھڑے ہو کر لاؤڈ اسپیکر پر انتخابات کا عمل کروایا۔ اس سے قبل حالات پر قابو پانے کے لیے پولیس اسمبلی ہال کے اندر داخل ہو گئی تھی

پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کے مطابق پولیس ان کے سامنے ہال کے اندر داخل ہوئی تھی، جبکہ اسمبلی کے قوانین کے مطابق انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں تھی

تاہم احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ‘اس روز ایسا محسوس ہوا کہ پنجاب اسمبلی کی تمام تر بیوروکریسی اسپیکر پرویز الٰہی کے تابع تھی اور مکمل طور پر ان کا ساتھ دے رہی تھی۔’

‘ہمارے ہاں المیہ یہی ہے کہ جمہوریت کے نام پر جو بھی نیا شخص آتا ہے وہ ایسے اداروں کے اندر اپنی پسند کے لوگ لے آتا ہے اور پھر وہ قواعد کے مطابق اپنا کام کرنے کے بجائے اس کے ذاتی احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ جمہوری اداروں میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔’

سہیل وڑائچ کے مطابق ’واضح طور پر ایسا نظر آ رہا تھا کہ پولیس اور انتظامیہ گورنر پنجاب کے احکامات پر عملدر آمد نہیں کر رہی تھی اور عدالتوں میں ان کی شنوائی نہیں ہو رہی تھی۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close