رواں برس مارچ کے پہلے ہفتے میں لاہور کے ایک پوش علاقے میں رات کے تقریباً دو بجے ایک گھر کے باہر کھڑی قیمتی فارچونر گاڑی کو ایک چور نے دس سے پندرہ منٹ میں اسٹارٹ کیا اور وہاں سے لے کر نکل گیا
دوسری جانب اس گاڑی کے اندر ٹریکر لگانے والی سیٹلائٹ ٹریکنگ کمپنی کو لگا کہ کچھ گڑبڑ ہے، کیونکہ گاڑی کی لوکیشن نہیں آرہی تھی لیکن یہ پتا چل رہا تھا کہ گاڑی اسٹارٹ ہوئی ہے اور حرکت میں بھی ہے
ٹریکنگ کمپنی سے وقت ضائع کیے بغیر گاڑی کے مالک کو فون کیا گیا جو کہ سو رہے تھے انہوں نے باہر جا کر دیکھا اور ٹریکنگ کمپنی کو بتایا کہ گاڑی گھر کے باہر موجود نہیں ہے
چوری کی اطلاع پولیس کی ایمرجنسی ہیلپ لائن پر دی گئی تو پہلے سے پریشان متعلقہ عملے میں کھلبلی مچ گئی کیونکہ چند ماہ کے دوران یہ کم سے کم پندرہویں جدید سکیورٹی سسٹم سے لیس بڑی گاڑی تھی، جو یوں اچانک سے غائب کر دی گئی تھی
سیکورٹی سسٹم کی وجہ سے اس گاڑی کو چوری کرنا لگ بھگ ناممکن تھا، لیکن کار چوروں نے اس کے سکیورٹی سسٹم کو انتہائی کامیابی سے ان لاک کر کے اسے منٹوں میں غائب کردیا
پولیس نے جب ٹریکنگ کمپنی سے گاڑی کی لوکیشن حاصل کر کے اس کا پیچھا شروع کیا تو پتا چلا کہ یہ لاہور شہر سے باہر جا رہی ہے
لاہور میں اینٹی کار لفٹنگ فورس کے ایس پی آفتاب پھلروان بتاتے ہیں”اس گاڑی کا سڑک پر پتا چلا لیا گیا تھا لیکن پولیس نے فیصلہ کیا کہ اس کو فوری طور پر پکڑنے کے بجائے اس کا پیچھا کیا جائے تاکہ چوروں کے ٹھکانے کا پتا چلا کر دوسری گاڑیوں کی برآمدگی میں بھی پیش رفت ہو سکے۔“
انہوں نے کہا ”ہم پوری رات اس گاڑی کا پیچھا کرتے رہے اور راستے میں آنے والے پولیس تھانے اور چوکیاں حتیٰ کہ موٹروے حکام بھی اس سے آگاہ تھے۔ گاڑی ہماری مکمل رینج میں تھی اور بالآخر یہ خیبرپختونخوا کے علاقے چارسدہ میں پہنچ گئی، جہاں چور نے اس کو ایک بڑے گودام میں پارک کردیا“
آفتاب پھلروان کے مطابق.”ہم نے اس گودام کو مکمل گھیر لیا۔ خیبرپختونخوا پولیس بھی ہمارے ساتھ تھی۔ پھر ہم نے چھاپہ مار کر چور کو گاڑی سمیت گرفتار کرلیا۔ اس گیراج سے ہمیں دو اور بیش قیمت گاڑیاں ملیں اور وہ ٹیکنالوجی ہمیں ملی، جس سے یہ گاڑیاں چوری کرتا تھا، جس نے ہمیں چکرا کر رکھ دیا“
جدید گاڑیاں چوری کرنے والی ٹیکنالوجی اور اس کو استعمال کرنے والے چور
دنیا بھر میں جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے ویسے ویسے اس کا اطلاق عموماً ہر جگہ پر ہو رہا ہے۔ لگژری گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اپنی گاڑیوں کے سکیورٹی فیچرز کی تشہیر بھی کرتی ہیں کہ ان گاڑیوں کو چُرانا تقریباً ناممکن ہے۔ تاہم لاہور کے ان گاڑی چوروں نے محفوظ ترین سمجھی جانے والی گاڑیاں چوری کر کے ان دعوؤں کو غلط ثابت کردیا
لاہور پولیس نے جس کار چور گینگ کو گرفتار کیا ہے، انہوں نے جدید ترین ٹیکنالوجی کا سہارا لیتے ہوئے ان بیش قیمت، کی لیس اور کمپیوٹرائزڈ سکیورٹی فیچرز کا توڑ انتہائی مہارت سے کیا
پولیس کے مطابق چارسدہ سے گرفتار ہونے والے جدید کار چور کا نام افنان خان ہے اور وہ اعلٰی تعلیم یافتہ اور بی ایس سی ڈگری کا حامل ہے
تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ افنان ایک بڑے گروہ کا محض معمولی مہرہ ہے۔ یہ گروہ پاکستان بھر سے لگژری گاڑیاں چوری کرنے میں ملوث ہے
پولیس کو دیے گئے اپنے بیان میں افنان خان نے بتایا کہ وہ پیشے کے لحاظ سے ایک باورچی ہیں۔ اس گروہ نے انہیں بڑی گاڑیاں چوری کرنے کی تربیت دی اور ٹیکنالوجی فراہم کی، جس کے بعد انہوں نے باقاعدہ یہ کام شروع کر دیا۔
افنان خان کو چار زبانوں اردو، انگریزی، پشتو اور عربی پر عبور حاصل ہے اور وہ ان زبانوں میں روانی سے بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ اس گینگ نے انہیں اس کام کے بدلے بیرون ملک مستقل سکونت اختیار کرنے کی پیش کش کی تھی
پولیس کے مطابق افنان خان لگژری گاڑیوں کو چوری کرنے کے لیے کئی طرح کا سازو سامان ساتھ رکھتے تھے
جبکہ اس طریقہ واردات سے متعلق بتاتے ہوئے اینٹی کار لفٹنگ فورس کے ایس پی آفتاب پھلروان کا کہنا تھا کہ ’جدید ٹیکنالوجی سے لیس چور سب سے پہلے گاڑی کا پچھلا تکونی شیشہ توڑ کر گاڑی کو ان لاک کر کے اندر جاتے ہیں. پھر یہ لیزر ڈیٹیکٹر سے یہ چیک کرتے ہیں کہ گاڑی کا ٹریکنگ سسٹم کہاں لگا ہے۔ اس کو جام کرنے کے لیے ان کے پاس جیمرز ہوتے ہیں‘
ان کے مطابق ’جیسے ہی جیمرز کام کرنا شروع کرتے ہیں، گاڑی کا رابطہ ٹریکنگ کمپنی سے منقطع ہو جاتا ہے۔ ان گاڑی چوروں کا اصل کام اس کے بعد شروع ہوتا ہے‘
آفتاب پھلروان کے مطابق ’اس گینگ کے پاس گاڑی کے پورے سسٹم کو ہیک کرنے اور نئی چابی بنانے کی صلاحیت پر مبنی ایک پورا سیٹ اپ موجود ہوتا ہے۔ یہ لوگ سسٹم ہیک کر کے پہلے سے موجود چابی کی پروگرامنگ کو اپنے پاس کاپی کرنے کے بعد یہ ایک کمانڈ سے نئی چابی بناتے اور اپنے ساتھ لائی اضافی ریمورٹ کنٹرول والی چابی پر اس نئے پروگرام کو منتقل کر دیتے ہیں‘
ایس پی آفتاب پھلروان نے بتایا ’اس عمل کے بعد گاڑی کی اصل چابی جو گاڑی کے مالک کے پاس ہوتی ہے، اس سے بھی گاڑی کا رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ یوں دس سے پندرہ منٹ میں ایک گاڑی کے پہلے سے موجود سسٹم کو ناکارہ بنا کر نیا سسٹم انسٹال کردیا جاتا ہے۔‘
وہ غلطی، جس نے کار چور گینگ کو پکڑوا دیا
دراصل ہوا یوں کہ افنان خان نے گاڑی کا سسٹم تبدیل کرنے کے بعد جب گاڑی وہاں سے نکالی، تو وہ ٹریکنگ سسٹم کو پوری طرح جام نہیں کر پائے اور یہی ان کی گرفتاری کا وجہ بن گئی
پولیس ریکارڈ کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر پنجاب بھر سے ایک سو سے ڈیڑھ سو کے قریب گاڑیاں چوری کی جاتی ہیں، جبکہ ایک ماہ میں ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار چوری شدہ گاڑیاں برآمد کی جاتی ہیں
لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پولیس کو بڑی اور لگژری گاڑیوں کے منظم گینگ کا اتنے بڑے پیمانے پر سامنا کرنا پڑا
پولیس افنان کے ابھی تک گرفت میں نہ آنے والے ساتھیوں کے تعاقب میں ہے اور ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا دعوٰی کرتی ہے، تاہم اس بارے میں تفصیلات اس بنا پر جاری نہیں کر رہی کہ اس کی وجہ سے ملزمان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے
چوری ہونے والی گاڑیوں کی فروخت
پولیس کے مطابق افنان نے ستمبر 2021ع سے مارچ 2022ع تک دس کے قریب گاڑیاں لاہور اور گردو نواح سے چوری کیں۔ ان گاڑیوں میں فارچونر، لینڈ کروزر اور ہنڈا سوک کے نئے ماڈلز شامل ہیں، جبکہ انہوں نے فی گاڑی چھ سے دس لاکھ روپے تک فروخت کی.