بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ گیان واپی مسجد اور اس کے احاطے کے سروے کا حکم اور اس کی بنیاد پر وضو خانہ کو بند کرنے کی ہدایت سراسر نا انصافی پر مبنی ہے اور مسلمان اسے ہرگز برداشت نہیں کر سکتے۔
بیان میں کہا گیا کہ گیان واپی مسجد کو مندر قرار دینے کی کوشش، فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرنے کی ایک سازش سے زیادہ کچھ نہیں ہے، گیان واپی مسجد کے حوالہ سے موجودہ صورت حال مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہے، گیان واپی ایک مسجد تھی اور تاقیامت مسجد ہی رہے گی
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ یہ تاریخی حقائق کے خلاف اور قانون کے مغائر ہے، انیس سو سینتیس میں دین محمد بنام اسٹیٹ سکریٹری میں عدالت نے زبانی شہادت اور دستاویزات کی روشنی میں یہ بات طے کر دی تھی کہ یہ پورا احاطہ مسلم وقف کی ملکیت ہے اور مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کا حق ہے۔
بیان کے مطابق عدالت نے یہ بھی طے کر دیا تھا کہ متنازعہ اراضی کا کتنا حصہ مسجد ہے اور کتنا حصہ مندر ہے، اسی وقت وضو خانہ کو مسجد کی ملکیت تسلیم کیا گیا۔ پھر 1991 میں پارلیمنٹ سے پلیسز آف ورشپ ایکٹ منظور کیا گیا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ 1947 میں جو عبادت گاہیں جس طرح تھیں ان کو اسی حالت پر قائم رکھا جائے گا۔
اس کے علاوہ دو ہزار انیس میں میں بابری مسجد مقدمہ کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے بہت صراحت سے کہا کہ اب تمام عبادت گاہیں اس قانون کے ماتحت ہوں گیں اور یہ قانون دستور ہند کی بنیادی روح کے مطابق ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنی پریس ریلیز میں کہا کہ ان تمام نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے سروے کا حکم جاری کرنا اور پھر اس کی بنیاد پر وضوخانہ کو بند کرنے کا حکم کھلی زیادتی ہے اور قانون کی خلاف ورزی ہے، جس کی ایک عدالت سے ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی۔
عدالت کے اس عمل نے انصاف کے تقاضوں کو مجروح کیا ہے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر اس فیصلہ پر عمل آوری کو روکے، الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کرے اور 1991 کے قانون کے مطابق تمام مذہبی مقامات کا تحفظ کرے۔ اگر ایسی خیالی دلیلوں کی بنا پر عبادت گاہوں کی حیثیت بدلی جائے گی تو پورا ملک افرا تفری کا شکار ہو جائے گا
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق وکیل ایچ ایس جین کا کہنا تھا کہ ہندووں کے مقدس شہر اور تاریخی گیانواپی مسجد کا مقام ویراناسی کی عدالت نے فیصلہ سنایا کہ مسلمانوں کو مسجد میں تعداد 20 افراد تک محدود کرنی چاہیے
عدالت نے حکم دیا کہ جین کی نمائندگی کرنے والی 5 خواتین کی مسجد کے سروے کے بعد مسجد کے ایک حصے میں ہندووں کو عبادت کی اجازت دینے کی تجویز دی ہے
گیانواپی مسجد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حلقے میں واقعے ہے جو شمالی ریاست اترپردیش میں واقع کئی مساجد میں سے ایک ہے، جن کے بارے میں سخت گیر ہندووں کا ماننا ہے کہ ہندو کے مندر گرا کر مسجد تعمیر کی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق سخت گیر ہندووں کا دیگر مذہبی مقامات کے بارے میں ایسا ہی عمومی خیال ہے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ عدالت کے حکم سے امن و امان برقرار رکھنے میں مدد ملے گی کیونکہ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے منسلک گروپس کی جانب سے چند مساجد کے اندر کھدائی اور تاج محل کے اندر تلاشی کی اجازت کا مطالبہ کیا جاچکا ہے
دوسری جانب آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے عدالتی فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ شیولنگ نہیں ہے بلکہ ایک فورا ہے اور ہر مسجد میں یہ فورا ہے، اگر شیولنگ ملا تھا تو عدالت کے کمشنر کو یہ بات بتانی چاہئے تھی، علاقے کو سیل کرنے کا حکم 1991 کے ایکٹ کی خلاف ورزی ہے
دوسری جانب بھارت میں بسنے والے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کے رہماؤں کا خیال ہے کہ یہ اقدامات بی جے پی کے منصوبوں کے ساتھ آزادی سے عبادت کرنے اور مذہبی آزادی کے حق کو سلب کرنے کی کوشش ہے۔
اترپردیش کے وزیراعلیٰ اور بی جے پی کے رہنما کیشیو پراساد موریا نے مقامی خبرایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ حکومت نے عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور ہم اس پر عمل کریں گے۔
یاد رہے کہ 2019 میں بھارت کے سپریم کورٹ نے 16 ویں صدی میں تعمیر ہونے والے مشہور بابری مسجد کی جگہ پر ہندووں کو مندر تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اس بات کے قابل اعتماد شواہد موجود ہیں کہ بابری مسجد کسی خالی زمین پر تعمیر نہیں کی گئی تھی۔
فیصلے کے بعد مسلم تنظیموں اور افراد کی جانب سے بھارتی عدالت عظمٰی میں نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھیں جس کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا تھا