سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قائم ہونے والی مخلوط حکومت کو اس وقت ملک کی موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال میں مشکلات کا سامنا دکھائی دے رہا ہے. جبکہ اس حالت میں وہ قوت فیصلہ سے بھی عاری نظر آتی ہے
نئی حکومت کے قیام کے بعد جہاں ایک جانب معاشی محاذ پر مہنگائی کی شرح بڑھ رہی ہے، ملک کے کم ہوتے زرِ مبادلہ کے ذخائر کی مشکل ہے اور دوسری جانب وہ کوئی بھی سخت اور مشکل فیصلے لے کر اپنی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے سے گریزاں ہے، جس سے حالات مزید بگڑ رہے ہیں اور امریکی ڈالر نے 200 روپے کی حد عبور کر کے نیا رکارڈ بنا لیا ہے
ادھر سیاسی محاذ پر بھی سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی نے ملک بھر میں پے در پے بڑے عوامی اجتماعات سے اور عدالتی میدان میں موجودہ حکومت کو آئینی و سیاسی الجھنوں میں الجھا رکھا ہے
پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے بعد سے سابق وزیر اعظم عمران خان عوامی رابطہ مہم کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں بڑے جلسے کر رہے ہیں اور ان میں وہ ریاستی اداروں پر الزامات عائد کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومتی اراکین پر قائم مقدمات کا حوالہ دے رہے ہیں
ایسے میں نئے وزیراعظم شہباز شریف اپنے خلاف قائم منی لانڈرنگ کے مقدمے کے حوالے سے ایف آئی اے، نیب اور دیگر اداروں میں بڑے پیمانے پر اپنے من پسند افسران کی تقرری کر رہے ہیں، جس نے موجودہ حکومت کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا ہے، کیونکہ عمران خان جلسوں میں ان کے بارے میں یہ بھی دہراتے رہے ہیں کہ یہ ڈاکو صرف اپنے خلاف کیس ختم کرانے آئے ہیں
حالیہ دنوں میں ملک کی عدلیہ کی جانب سے پی ٹی آئی اراکین کو ملنے والا ریلیف ہو، 63 اے کے تحت صدارتی ریفرنس پر عدالت عظمیٰ کی تشریح یا حکومت کی جانب سے تحقیقاتی اداروں میں مبینہ مداخلت پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس، ملک کے سیاسی و سماجی حلقوں اور سوشل میڈیا پر ایک بحث نے جنم لیا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو عمران خان کی عوامی مقبولیت کا دباؤ محسوس ہو رہا ہے؟
اس صورت حال کے بارے میں پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو آئینی طریقے سے ہٹایا گیا اور اس وقت ملک کے جو اقتصادی حالات موجودہ حکومت کو ورثے میں ملے ہیں ان کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے ملک کے تمام آئینی ادارے اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ تعاون کریں
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کسی آئینی ادارے سے آئین سے ہٹ کر حکومت کی مدد کرنے کا نہیں کہہ رہی اور صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ ملک کی بقا کے لیے آزادانہ فیصلے کرنے کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں
انہوں نے کہا ”اداروں کی طرف سے یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ وہ کسی دباؤ میں آکر کوئی اقدامات کر رہے ہیں یا وہ انتظامی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں. جب ملک میں غیر یقینی کی صورت حال ہو تو ایسے غیر معمولی حالات میں انہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ایسے فیصلے کرنے چاہیے جس سے ملک میں استحکام آئے۔“
ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت میں ایک سوچ یہ بھی ہے کہ اگر ادارے اپنا کردار ادا نہیں کرتے تو اس سے بہتر ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کو حکومت سے الگ ہوکر انتخابات کی طرف ہی جانا چاہیے
محسن شاہنواز رانجھا کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال کا حل نگراں حکومت اور انتخابات نہیں ہیں
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اعظم سواتی کہتے ہیں کہ جس طریقے سے ان کی حکومت کو ہٹایا گیا، وہ سہولت کاری کے بغیر ممکن نہیں تھا اور یہ سہولت کار کہیں اور سے نہیں بلکہ پاکستان کے اداروں میں سے ہی تھے
اعظم سواتی کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت عوام کے علاوہ کسی اور کی طرف نہیں دیکھ رہی۔ انھوں نے کہا کہ جتنا مایوس عدلیہ نے انہیں کیا ہے اتنا کسی اور نے نہیں کیا
وہ کہتے ہیں ’آج بھی ان کی جماعت اور کارکنوں کو شدید تحفظات ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے وقت رات بارہ بجے عدالتیں کیوں لگائی گئیں‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عدلیہ کی موجودہ لاٹ عدالتی نظام میں بہتری نہیں لاسکتی۔‘ اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دے دی تو سب سے بڑا نقصان عدلیہ کا ہوگا
جب ان سے پوچھا گیا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے آنے والے حالیہ فیصلوں سے تو ان کی جماعت کو ریلیف ملا ہوگا تو اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ اب معاملہ اس سے بہت آگے نکل چکا ہے
انھوں نے کہا ”ایم کیو ایم یا بلوچستان عوامی پارٹی نے تحریک انصاف کی حکومت کو کسی میجر یا کرنل کے کہنے پر تو نہیں چھوڑا ہوگا بلکہ سب کو معلوم ہے کہ کس نے کیا کردار ادا کیا“
انھوں نے کہا کہ جب ان کی حکومت ختم کی گئی اور قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا گیا تو ان تمام پارٹیوں کے تمام لیڈروں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارلیمنٹ سے باہر رہ کر ان کی جماعت اپنا موثر کردار ادا نہیں کرسکے گی لیکن پارٹی کے چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ جب وہ عوام میں اصل صورتحال کے بارے میں بتائیں گے تو وہ یقیناً ان کے ساتھ ہوں گے
اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے جلسوں میں ایسے لوگ بھی آرہے ہیں، جنہوں نے کبھی سیاست میں حصہ نہیں لیا
انھوں نے کہا کہ ملک کے عدالتی نظام نے ان کی جماعت اور لوگوں کو مکمل طور پر مایوس کیا ہے
اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے لے کر اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی تک وہ ایسی بہت سی باتوں سے واقف ہیں جو کہ کبھی مناسب وقت پر منظر عام پر لائیں گے
انہوں نے کہا ”ہماری جماعت نہ تو اسٹیلشمنٹ کی طرف دیکھ رہی ہے اور نہ ہی ہماری جماعت کو اب بیساکھیوں کی ضرورت ہے
تجزیہ کار حامد میر سمجھتے ہیں کہ ’بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ عدلیہ اور بلخصوص سپریم کورٹ تحریک انصاف کے حالیہ جلسوں کے بعد دباؤ میں آئی ہے اور 63 اے کے تحت صدارتی ریفرنس پر جس طریقے سے رائے دی گئی آئینی ماہرین کے مطابق تو سپریم کورٹ نے آئین میں ترمیم ہی کر دی ہے‘
انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے خلاف کرپشن کیسز کا معاملہ عمران خان نے عوامی جلسوں میں اٹھایا تھا اور اس کے بعد سپریم کورٹ نے اس پر از خود نوٹس لیتے ہوئے اس پر کارروائی کا آغاز کر دیا
حامد میر کے بقول، بظاہر از خود نوٹس ایک جج کے نوٹ پر لیا گیا لیکن عوام میں اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ یہ سارا معاملہ عمران خان کے مطالبے کے بعد شروع کیا گیا
حامد میر کا خیال ہے کہ ’بظاہر اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے جلسوں سے متاثر نہیں ہوئی اور ان کا ابھی تک یہی موقف ہے کہ فوج اس معاملے میں نیوٹرل ہے اور اس کا سیاسی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘
حامد میر کا کہنا تھا کہ چونکہ فوج آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت حکومت کا ایک ماتحت ادارہ ہے، اس لیے انہیں ان کی حمایت کرنی چاہیے
جبکہ تجزیہ کار سہیل ورائچ کا کہنا ہے کہ ججز کی اپنی سوچ ہوتی ہے اور وہ ان چیزوں کو اپنے زاویے سے دیکھتے ہیں، جو کہ شاید عام آدمی اس نظر سے نہ دیکھ رہا ہو
انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ عدالتیں کسی کے دباؤ میں آکر فیصلے دیتی ہیں تاہم یہ ضرور ہے کہ عدالتوں کو فیصلہ دیتے ہوئے اس بات کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہ کہیں آئین میں دیے گئے اپنے اختیارات سے تجاوز تو نہیں کر رہیں
تاہم انہوں نے کہا ”کسی سیاسی لیڈر کے بارے میں فیصلہ دیتے ہوئے اس کی مقبولیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا“