سینیٹ میں الیکشن ایکٹ اور نیب ترمیمی بلز اتفاق رائے سے منظور

ویب ڈیسک

سینیٹ اجلاس میں انتخابات میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل اور نیب ترمیمی بل پیش کرنے کی تحریک منظور کی گئی، ایوان میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل مسلم لیگ (ن) کے مرتضیٰ جاوید عباسی جبکہ نیب ترمیمی بل پیش کرنے کی تحریک اعظم نذیر تارڑ نے پیش کی۔ اس دوران اپوزیشن ’نو، نو‘ کے نعرے لگاتی رہی۔

چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے دریافت کیا کہ بل کو کمیٹی کے سپرد کروں؟ یا ابھی منظور کرانا ہے۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تاررڑ کا کہنا تھا کہ یہ وہ بل ہے جسے سینیٹ کمیٹی نے منظور کیا تھا، جس میں سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کا حق بحال ہے، ان کے ووٹ ڈالنے کے حق کو واپس یا ختم نہیں کیا گیا

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو کہا گیا ہے کہ رازداری کو مدنظر رکھ کر ووٹ کا حق ڈالنے کو یقینی بنائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ترامیم سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے منظور کی تھیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن نہیں کرا پائیں گے، کمیشن یقینی بنائے کہ سمندر پار پاکستانی کا ووٹ کاسٹ ہو۔

سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) قائد حزب اختلاف سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ ہم کسی کو سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے حق پر ڈاکا نہیں ڈالنے دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔

اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ جہاں یہ بل منظور ہوا تھا اس سینیٹ کمیٹی میں شبلی فراز اور اعظم سواتی شامل تھے۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر اور سابق وفاقی وزیر شبلی فراز نے کہا کہ آپ نے تاثر دینے کی کوشش کی کہ ہم نے بل منظور تھا، آپ کی بات بدیانتی پر مبنی ہے حالانکہ جس کمیٹی میں بل زیر غور آیا تھا اس میں ووٹنگ برابر رہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اراکین قومی اسمبلی نے استعفیٰ دیا ہے، وہ بھگوڑے نہیں ہیں۔

شبلی فراز نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے اعتراضات کے 37 نکات کی کوئی حیثیت نہیں، وہ سادہ کاغذ تھا۔

اس دوران اپویشن اراکین نے سینٹ میں نعرے بازی کی

چیئرمین سینیٹ نے پوچھا کہا کہ کیا الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کمیٹی بھیجا جائے، ایوان نے کثرت رائے سے کمیٹی کو بل بھیجنے کی مخالفت کی جس کے بعد الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2022 منظور کر لیا گیا۔

اس دوران اپوزیشن نے سینیٹ میں شدید شور شرابہ اور ہنگامہ کیا، اپویشن اراکین چیئرمین سینیٹ کی نشست کے سامنے پہنچ گئے اور ’امپورٹڈ حکومت نامنظور‘ اور ‘نو ٹو این ار او’ کے نعرے لگائے۔

بعد ازاں اجلاس میں اعظم نذیر تارڑ نے نیب کا ترمیمی بل 2021 پیش کیا، اسے بھی منظور کر لیا گیا۔

اجلاس کی کارروائی پیر کو شام 4 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی نے الیکشن ترمیمی بل 2022 منظور کر لیا جس کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) اور اوورسیز ووٹنگ سے متعلق گزشتہ حکومت کی ترامیم ختم کردی گئیں جبکہ قومی احتساب ترمیمی بل بھی منظور کرلیا گیا تھا۔

اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں پارلیمانی امور کے وزیر مرتضیٰ جاوید عباسی نے بل اسمبلی میں پیش کیا، انتخابات ایکٹ 2017 کے سیکشن 94 اور سیکشن 103 میں ترامیم کی گئی ہیں

انتخابی قانون میں ترامیم

  • انتخابات ایکٹ 2017 کے سیکشن 94 کے تحت الیکشن کمیشن ضمنی انتخابات میں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹنگ کے لیے پائلٹ پراجیکٹ کرے تاکہ ٹیکنیکل، رازداری، سیکیورٹی اور اس طرح کی ووٹنگ کے لیے اخراجات کا تعین کیا جائے اور نتائج سے حکومت کو آگاہ کرے اور رپورٹ موصول ہونے کے بعد 15 دن کے اندر ایوان کا اجلاس بلایا جائے اور اس کو دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کیا جائے۔
  • الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 103 میں کی گئی ترامیم کے تحت الیکٹرانک اور بائیومیٹرک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کا بھی ضمنی انتخابات میں پائلٹ پراجیکٹ کیا جائے

وزیر برائے پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں ترامیم کا بل بھی ایوان میں پیش کیا تھا جو کہ بعدازاں منظور کرلیا گیا۔

اس بل کا عنوان قومی احتساب (دوسری ترمیم) بل 2021 ہے جس کے تحت چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ کے بعد کا طریقہ کار وضع کر دیا گیا ہے

نیب آرڈیننس میں ترامیم

  • چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے، ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی بھی سینئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج ملے گا۔
  • نئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے مشاورت کا عمل 2 ماہ پہلے شروع کیا جائے گا، مشاورت کا عمل 40 روز میں مکمل ہوگا، وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف میں اتفاق رائے نہ ہونے پر تقرر کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو جائے گا اور پارلیمانی کمیٹی چیئرمین نیب کا نام 30 روز میں فائنل کرے گی۔
  • چیئرمین نیب کی 3 سالہ مدت کے بعد اسی شخص کو دوبارہ چیئرمین نیب نہیں لگایا جائے گا۔
  • وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے، مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔
  • کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا اسکیم میں بےقاعدگی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گی۔
  • کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کر سکے گا۔
  • احتساب عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوگی اور مقدمات کے فیصلے ایک سال کے اندر کیے جائیں گے۔
  • گرفتاری سے قبل نیب شواہد کی دستیابی یقینی بنائے گا۔
  • جھوٹا ریفرنس دائر کرنے پر 5 سال تک قید کی سزا ہوگی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close