امریکا میں قانون سازوں نے ایک منفرد قانون بنا کر تقریباً ساڑھے تین سو سال قبل ’چڑیل‘ ہونے کے الزام میں موت کی سزا پانے والی خاتون کو بری کر دیا ہے
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ (اے پی) کے مطابق ریاست میساچوٹس میں 1693ع میں ’سلیم وچ ٹرائل‘ میں سزائے موت پانی والی ایک خاتون کے لیے قانون سازی کرکے ان کی سزا معاف کر کے انہیں مقدمے سے بری کیا گیا
مذکورہ خاتون کو اس وقت کے قانون کے مطابق میساچوٹس کی ریاست میں ’چڑیل‘ ہونے کے شبے میں دیگر خواتین کے ہمراہ سزائے موت سنائی گئی تھی
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق ”1693ع میں ایلزبتھ جانسن پر دیگر پانچ خواتین سمیت جادو ٹونے/چڑیل ہونے کے مقدمات درج ہوئے اور ان کو سزائے موت سنائی گئی۔ لیکن ان کو نہ تو معاف کیا گیا اور نہ ہی سزا پر عمل درآمد کیا گیا“
مذکورہ کیس ’سلیم وِچ ٹرائل‘ کے نام سے مشہور ہے، جس میں کم از کم اس وقت ایک سو کے قریب مرد و خواتین کو ’چڑیل‘ ہونے کے الزام میں سزائی سنائی گئی تھی
واضح رہے کہ اُس وقت دور میں بدصورت لوگوں کو ’چڑیل‘ سمجھا جاتا تھا اور یورپ سمیت امریکا میں ایسے لوگوں کو الزامات لگا کر عدالتوں یا بادشاہوں سے سزائیں دلوائے جانے کا عمل عام تھا
اسی رواج کے تحت میساچوٹس کی بادشاہت نے اس وقت 1692ع سے 1693ع تک لگ بھگ ایک سو افراد کو سزائیں سنائی تھیں، جن میں سے تین درجن کے قریب افراد کو سزائے موت دی گئی تھی
اسی ٹرائل کے تحت کم از کم ڈیڑھ درجن خواتین اور مرد حضرات کو اجتماعی سزائے موت بھی دی گئی تھی اور میساچوٹس میں آج بھی ’سلیم وچ‘ کی یادگار موجود ہے، جہاں بیک وقت نصف درجن خواتین کو پھانسی پر لٹکایا بھی گیا تھا
تقریباً ساڑھے تین سو سال قبل ’چڑیل‘ ہونے کے الزام میں سزا پانی والی خواتین میں الزبتھ جانسن جونیئر بھی شامل تھیں، جو اس وقت بائیس سال کی تھیں اور انہیں بھی ’چڑیل‘ قرار دے کر سزائے موت سنائی گئی تھی
ان کے ساتھ سزا پانے والی خواتین اور مرد حضرات میں سے کچھ کو پھانسی اور بعض افراد کو پتھر مار کر ہلاک کیا گیا تھا، جب کہ بعض افراد اس وقت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر چل بسے تھے اور ریاست نے انہیں علاج کی سہولیات فراہم نہیں کی تھیں
تاہم الزبتھ جانسن جونیئر کو اس وقت نہ تو سزائے موت دی گئی تھی اور نہ ہی ان کی اپیلوں کے باوجود انہیں معاف کیا گیا تھا بلکہ وہ مرتے دم تک مجرم رہی تھیں
لیکن انہیں حال ہی میں ایک طالب علم کی جانب سے ’سلیم وچ ٹرائل‘ پر تحقیق کیے جانے کے بعد خصوصی قانون سازی کے ذریعے معاف کردیا گیا
اے پی کے مطابق میساچوٹس کےمقامی علاقے کے ریاستی قانون ساز نے الزبتھ جانسن کو بے قصور ثابت کرنے اور انہیں معاف کروانے کے لیے خصوصی قانون سازی کروائی، جس میں 1692ع کے فیصلوں کو غلط قرار دیا گیا اور یوں خاتون کو تقریباً ساڑھے تین سو سال بعد مقدمے سے بریت ملی
گزشتہ برس عدالت نے اس کیس پر سماعت کا فیصلہ اس وقت کیا جب آٹھویں جماعت کے طلبہ نے ایلزبتھ جانسن کی بریت کے لیے تحقیق کی اور اسے ڈیموکریٹ پارٹی کے ایک سینیٹر کے حوالے کیا
سینیٹر ڈیانا ڈزوگلیو نے اسے قانون کی شکل دی اور ایلزبتھ جانسن کی بریت کے لیے اسے منظور کروایا
ڈیانا ڈزوگلیو نے کہا ”جو ایلزبتھ جانسن اور دیگر خواتین کے ساتھ ہوا، ہم وہ تو تبدیل نہیں کر سکتے، لیکن کم از کم ہم ریکارڈ تو درست کر سکتے ہیں“
سینیٹر جون لولی نے کہا کہ ”تین صدیوں سے ایلزبتھ جانسن کی آواز کسی نے نہ سنی۔ ان کی کہانی تاریخ کے صفحات میں گم ہو گئی تھی“