محکمہ موسمیات پاکستان کے مطابق مون سون اپنے معمول سے تقریباً دو دن پہلے یعنی 29 جون کو پاکستان میں داخل ہو چکا ہے۔ اس دوران 4 جولائی تک تقریباً پورے پاکستان اور تقریباً تمام بڑے شہروں میں پانچ جولائی تک موسلا دھار بارشوں کی توقع کی جا رہی ہے
بڑے شہروں مثلاً کراچی، لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت دیگر اضلاع میں اربن فلڈنگ کے علاوہ سمندر میں طغیانی کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے
محکمہ موسمیات کے مطابق بحیرہ عرب اور خلیج بنگال سے مرطوب ہوائیں 29 جون سے ملک کے بالائی علاقوں میں داخل ہو چکی ہیں، جس کی بناء پر کہا جا رہا ہے کہ مون سون اپنے معمول سے پہلے پاکستان میں داخل ہو چکا ہے
مون سون کا یہ سلسلہ جولائی کے شروع کے دنوں اور رواں ہفتے کے آخر میں ملک کے جنوبی علاقوں میں زیادہ شدت اختیار کرنے کے بعد پھیل سکتا ہے
ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے علاقے
محکمہ موسمیات کے مطابق 2 سے 4 جولائی کے دوران اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور فیصل آباد میں جبکہ تین سے پانچ جولائی کے دوران کراچی اور حیدرآباد میں موسلادھار بارش کے باعث نشیبی علاقے زیر آب آنے کا خطرہ موجود ہے
اسی طرح کشمیر، خضدار، لسبیلہ، نصیر آباد، آواران، بارکھان اور کوہلو کے مقامی ندی نالوں میں طغیانی کا خدشہ ہے
محکمہ موسمیات کے مطابق کشمیر، گلیات، مری، گلگت بلتستان، کوہستان اور کچھ بالائی اور پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ بھی موجود ہے۔ تیز ہواؤں کے باعث کمزور انفراسٹرکچر کو نقصان کا بھی اندیشہ ہے
ممحکمہ موسمیات کے مطابق اس دوران مسافر اور سیاح محتاط رہیں۔ سمندری علاقے میں 3 سے 5 جولائی کے دوران تلاطم خیزی کا خدشہ بھی موجود ہے
محکمہ موسمیات لاہور کے ریجنل ڈائریکٹر محکمہ موسمیات چوہدری محمد اسلم کے مطابق تقریباً تین ماہ کے مون سون کو دو حصوں میں تقسیم کر رہے ہیں، جس میں پہلا حصہ جو کہ قبل از وقت شروع ہو چکا ہے 15 اگست تک جائے گا جبکہ دوسرا حصہ 16 اگست سے لے کر 30 ستمبر تک جائے گا
چوہدری محمد اسلم کے مطابق پاکستان میں عموماً مون سون تین ماہ پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔ اُن کے خیال میں 15 اگست تک بارشوں کا سلسلہ زیادہ رہے گا جس دوران بارشوں کے متعدد اسپیل وقفے وقفے سے ہو سکتے ہیں
اُنہوں نے بتایا کہ اب جو توقع کی جا رہی ہے اور جو اسپیل شروع ہونے جا رہا ہے، اس میں توقع ہے کہ بارشیں موسلادھار ہوں گی اور یہ بارشیں لاہور اور پنجاب کے بیشتر علاقوں میں ہو سکتی ہیں
چوہدری محمد اسلم کے مطابق لاہور میں پری مون سون کا ایک ہی اسپیل ہوا، لیکن وہ اسپیل بھی شدید تھا۔ لاہور میں جون کے ماہ میں اوسطاً 75 ملی میٹر بارش ہوتی ہے جبکہ اس دفعہ یہ 144 ملی میٹر تک پہنچ گئی تھی
ان کا کہنا تھا کہ مون سون کی ان بارشوں کے نتیجے میں اربن فلڈنگ کے خدشات موجود ہیں اور اس دوران تیز ہواؤں چلنے کے امکانات موجود ہیں۔ جس سے درخت اکھڑ سکتے ہیں جبکہ کمزور انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچ سکتا ہے
کراچی محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق پری مون سون کے دوران کراچی میں بارش کا ایک ہی اسپیل ہوا تھا جو کہ معمول سے زائد نہیں تھا
اُنھوں نے کہا کہ مون سون کے اس اسپیل کے دوران جو 2 جولائی سے لے کر 5 جولائی اور پھر ایک دو دن وقفے کے بعد 7 اور 8 جولائی سے دوبارہ شروع ہو سکتا ہے، وہ کافی زیادہ بارشوں کی توقع کر رہے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں صوبائی دارالحکومت کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر علاقوں میں اربن فلڈنگ کے خدشات موجود ہیں۔ کراچی کے نچلے علاقے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں
ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق مون سون کے دوران سمندر میں ویسے بھی ہوائیں زیادہ چلتی ہیں اور معمول کے باقی مہینوں سے تھوڑا زیادہ بپھرا ہوا ہوتا ہے۔ اُن کے مطابق اب اس وقت سمندر معمول سے زیادہ بپھرا ہوا محسوس ہو رہا ہے اور اس دوران کچھ دنوں کے لیے طغیانی کا خدشہ بھی موجود ہے
بارشوں کے معمول سے زائد ہونے کی وجوہات
ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق جنوبی ایشیا کی مون سون بارشیں مقامی موسمی صورتحال کے زیر اثر نہیں بلکہ عالمی موسمی صورتحال کے زیر اثر ہوتی ہیں، اس کی متعدد اور بالخصوص دو وجوہات ہو سکتی ہے
اُنہوں نے کہا کہ اگر بحر الکاہل کا درجہ حرارت معمول سے کم ہو تو جنوبی ایشیا میں بارشیں اوسط سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اس وقت بحر الکاہل کا درجہ حرارت معمول سے کم چل رہا ہے۔ اسی طرح بحرِ ہند کا درجہ حرارت بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ وہاں پر اگر درجہ حرارت معمول پر ہو تو بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اس وقت وہاں پر درجہ حرارت معمول پر ہے
ڈاکٹر سردار سرفراز کہتے ہیں کہ یہ دو عوامل اور دیگر عوامل کو بھی دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ مون سون کے دوران زیادہ بارشوں کی توقع ہے۔
چوہدری محمد اسلم کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کا موسم ایک دوسرے سے ملتا جلتا ہے۔ مون سون بارشیں پہلے بھارت میں ہوتی ہیں اور وہاں سے پاکستان پہنچتی ہیں۔ اس وقت بھارت میں بارشیں ہو رہی ہیں جبکہ سردیوں میں پہلے بارشیں پاکستان میں ہوتی ہیں اور پھر بھارت پہنچتی ہیں
ان کا کہنا تھا کہ شہروں میں اربن فلڈنگ اور پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے خدشات تو موجود ہیں مگر فی الحال اس اسپیل اور ان دونوں میں دریاؤں میں کسی سیلاب کا خدشہ موجود نہیں ہے، بلکہ اس سے پانی کی صورتحال میں بہتری کے علاوہ فصلوں پر اچھے اثرات ہو سکتے ہیں
دوسری جانب انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے ترجمان محمد خالد ادریس رانا کے مطابق پری مون سون بارشوں سے پانی کے ذخائر پر زیادہ بہتری کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی ہے تاہم حالیہ دونوں میں درجہ حرارت بڑھنے سے بہتری پیدا ہوئی ہے
ان کا کہنا تھا کہ سکردو میں درجہ حرارت 36 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے۔ اُن کے مطابق اس درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے پانی زیادہ ملتا ہے، جس سے پانی کے ذخائر جن میں مجموعی طور پر 46 فیصد تک کمی تھی، اس وقت کم ہو کر 20 فیصد تک پہنچ چکی ہے
اُنہوں نے توقع ظاہر کی کہ مون سون بارشوں کے دوران مزید بہتری ہوگی
چوہدری محمد اسلم کے مطابق حالیہ دن چاول کی فصل کے دن ہیں۔ اس وقت لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد ڈویژن کے علاوہ دیگر علاقوں میں چاول کی کاشت جاری ہے اور ان بارشوں سے اس فصل کو اچھا فائدہ ملنے کی توقع کی جا رہی ہے
شہروں میں اربن فلڈنگ کی ممکنہ صورتحال پر بھی آفات سے نمٹنے کا ذمہ دار ادارہ این ڈی ایم اے تیاری کرنے کے دعوے کر رہا ہے اور اس نے ہنگامی حالات سے نمٹنے اور بر وقت و پیشگی اقدامات اٹھانے کے لیے ہدایات جاری کر دی ہیں۔