خوشی اندر ہے، باہر نہیں!

سعد اللہ جان برق

میرا ایک ہم عمر دوست تھا، پیشے سے کسان تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ سخت گرمی کے دنوں میں بند کمرے کے اندر گرم گرم اور تیز چائے کا پیالہ ہو اور گھونٹ گھونٹ چائے پیوں اور ہر گھونٹ کے ساتھ اتنا ہی پسینہ بہتا رہے ،چائے ختم ہونے کے ساتھ جسم پسینے میں تربہ تر ہو جائے، پھر میں باہر جاکر صحن میں گھنے درخت کے سائے میں جھلنگی چارپائی پر لیٹ جاؤں اور نسوار کی چٹکی منہ میں رکھ کر ہلکی ہلکی پروائیوں کا مزہ لوں، ایسے میں اگر کوئی آ کر کہے کہ ’اٹھو تم بادشاہ بن گئے ہو‘ تو میں آنکھیں کھولے بغیر کہہ دوں گا ’بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہاری بادشاہی، دفع ہو جاؤ۔‘

ایک زمانے میں ہمارا معمول تھا کہ اجمل خٹک، قلندر مومند، ایوب صابر اور چند دوسرے شاعر و ادیب مل کر خیبر بازار سے روانہ ہوتے، اس وقت اتنی بھیڑ نہیں ہوتی تھی، قصہ خوانی سے ہو کر بازار بٹیربازاں سے گزر کر چوک یادگار تک کا چکر لگاتے ، بازار بیٹربازاں میں اس وقت پرندوں کی دکانیں ہوتی تھیں لیکن آج کل ان دکانوں میں چائے کی پتی اور مصالحے کی دکانیں اور بازار کے موڑ میں اوپر ایک بالکنی تھی

اس میں ایک بوڑھا کرسی ڈالے بیٹھا ہوتا تھا اور اپنے سامنے لٹکے ہوئے گملے میں کشمالو (ریحان) کے ایک پودے کو تکتا رہتا تھا، ہم ٹھہر کر اس کا تماشہ کرتے اور تبصرہ کرتے کہ یہ بوڑھا اس گملے اور پودے کو باغ یا چمن سمجھ کر لطف اٹھا رہا ہے یا پریوں کا تصور قائم کیے ہوئے ہے، کیوں کہ گل ریحان کے بارے میں جسے ہندو تلسی کہتے ہیں اور دیوی مانتے ہیں اور ہر آنگن میں اور کچھ ہو نہ ہو تلسی کا پودا ایک خاص اہتمام کے ساتھ لگایا گیا ہوتا ہے۔ پشتو میں مشہور ہے کہ کشمالو یا ریحان کے لیے پریاں آتی ہیں یا اس میں رہتی ہیں۔ خوشحال خان بابا کاایک شعر ہے:

پہ ھیچامے پیرزونہ ئے دیارغمہ،
تہ زمادزڑہ دمات کودی ریحان ئے

(ترجمہ: اے یارکے غم میں تجھے کسی کو بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ تم میرے دل کے ٹوٹے ہوئے برتن کا ریحان ہو۔)

ٹوٹا ہوا برتن بڑے کمال کی تشبیہ ہے، گھروں میں جب کوئی برتن، ہانڈی، گھڑا یا کڑاہی وغیرہ بے کار ہوجائے تو عورتیں اس میں مٹی ڈال کر ریحان کا پودا لگا دیتی ہیں اور گھر کی دیوار پر رکھ دیتی ہیں

میرا اپنا شعر:

خلق دزڑہ پہ مات کودی کے کشمالونہ کری،
زکہ خو ورلہ دمینے خاپیری نہ رازی

(ترجمہ: لوگ اب دلوں کے ٹوٹے ہوئے برتنوں میں ریحان نہیں بوتے، اس لیے تو اب یہاں محبت کی پریاں نہیں آتیں۔)

خیر تو ایک دن میں اکیلا تھا ، سوچا آج اس گملے والے بوڑھے سے ملا جائے، سیڑھیاں چڑھ کر دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک نوجوان نے دروازہ کھولا، میں نے کہا کہ میں اس بزرگ سے ملنا چاہتا ہوں، جو بالکنی میں بیٹھا رہتا ہے۔ تھوڑی سی دیر کے بعد وہ راضی ہوا اور مجھے بالکونی میں اس کے پاس لے گیا۔ وہ بہت خوش ہوا کہ مدتوں بعد کوئی اس سے ملنے آیا تھا۔ میں نے گملے اور پودے کے بارے میں پوچھا تو وہ ایک لمبی سانس لے کر بولا، کیا کروں جب تک دم خم تھا ہر جگہ پھرتا رہا۔ اب چلنے کا یارا نہیں ہے تو اس گملے سے دل بہلایا کرتا ہوں

ہمارے علاقے کاایک بہت دولت مند شخص تھا، ٹھیکیدار بھی تھا، ٹرانسپورٹر بھی اور بہت بڑا زمیندار بھی، اس کی دولت جائیدادوں اور کاروباروں کی کوئی حد نہ تھی، لوگ دولت مندی میں اس کی مثال دیتے تھے

ایک مرتبہ ایک جرگے کے سلسلے میں اس کا ساتھ ہوا، جرگہ قبائلی علاقے میں تھا اور وہاں رات کو رکنا تھا، دوپہر کے بعد شام کے کھانے پر اس نے صرف سلاد کھایا، جب کہ دسترخوان انواع و اقسام کے گوشت اور پکوانوں سے بھرا تھا اور میں نے جی بھر کر کھایا۔ رات کو ہم ایک کمرے میں سوئے، پہلے تو اس نے چار پانچ گولیاں پھانکیں پھر کانوں میں روئی کے پشم ٹھونسے اور آخر میں آنکھوں پر کالا رومال باندھ کر لیٹ گیا، میں تو جی بھر سویا لیکن وہ رات بھر کروٹیں بدلتا اور ہڑبڑاتا رہا

صبح میں نے پوچھا، آپ تو ساری رات بے آرام تھے،ل۔ اس نے کہا، ہاں اپنے گھر میں جو میری خواب گاہ ہے ساؤنڈ پروف ہے، اگر ذرا سی کوئی آواز یا روشنی آتی ہے، تو مجھے نیند نہیں آتی۔ میں نے کہا تو خواب آور گولیاں کھایا کریں۔ بولا، کھاتا ہوں لیکن اب وہ بھی اثر نہیں کرتیں۔ صبح اس نے ناشتے میں سوکھی روٹی اور پھیکی چائے پی لی تھی۔۔ ان واقعات سے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آج کا بدقسمت انسان اس لیے تکلیف میں مبتلا ہے کہ وہ ’’خوشی‘‘ باہر ڈھونڈ رہا ہے، دولت میں جائیداد میں، اقتدار میں۔ لیکن خوشی باہر کہیں نہیں ہے، اندر سے آتی ہے اور جب آتی ہے تو جھلنگی چارپائی اور ایک گملے سے بھی آجاتی ہے

ہمارا ایک دوست ہے، وہ کہتا ہے کہ غم اور خوشی بہن بھائی ہیں، لوگ ’’بہن‘‘ کے نادیدہ حسن کی شہرت سن کر اس کے عاشق ہو جاتے ہیں، طرح طرح کی تکالیف سہہ کر اور سخت مقامات و امتحانات سے گزر کر اس کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں لیکن بہن کی بجائے ’’بھائی‘‘ دروازہ کھول کر اسے گلے لگاتا ہے

جنہیں میں ڈھونڈتا آسمانوں میں زمینوں میں،
وہ نکلے میرے ظلمت خانہ دل کے مکینوں میں۔۔۔

بشکریہ: ایکسپریس نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close