ہر 26 سیکنڈ بعد زمین کیوں ‘دھڑکتی’ ہے؟

ویب ڈیسک

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زمین میں ہر 26 سیکنڈ بعد بہت ہی معمولی، یعنی ’’خرد زلزلے‘‘ آتے ہیں جنہیں صرف زلزلہ پیما آلات پر ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ماہرین انہیں "زمین کی دھڑکن” بھی کہتے ہیں

لیک سوال یہ ہے کہ آخر ن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اب تک ماہرین بھی اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں جان سکے ہیں

زمین میں ہر 26 سیکنڈ بعد پیدا ہونے والے یہ خرد زلزلے، جنہیں Microseism کہا جاتا ہے، سب سے پہلے پہل 1962 میں ایک امریکی ارضیات داں جیک اولیور نے دریافت کیے تھے

انہوں نے اندازہ لگایا تھا کہ ان معمولی زلزلوں کا مرکز بحرِ اوقیانوس کے استوائی یا جنوبی حصے میں کہیں واقع ہے۔ جیک اولیور نے یہ بھی نوٹ کیا کہ جن دنوں زمین کے شمالی نصف کرّے میں گرمیوں کا موسم ہوتا ہے (یعنی جنوبی نصف کرے میں سردیاں ہوتی ہیں) تو ان خرد زلزلوں کی شدت بھی زیادہ ہوجاتی ہے اور وہ معمولی سے طاقتور ہو جاتے ہیں

اس کے بعد  1980ع میں یو ایس جیالوجیکل سروے کے ایک ماہرِ ارضیات، گیری ہولکومب نے ان خرد زلزلوں کا ایک بار پھر زیادہ تفصیل سے جائزہ لیا اور بتایا کہ طوفانوں کے دوران یہ زلزلے معمول سے زیادہ طاقتور ہوجاتے ہیں

لیکن بدقسمتی سے اولیور اور ہولکومب کی ان تحقیقات کو کسی نے بھی توجہ کے قابل نہ سمجھا اور وہ کاغذات میں بند ہوکر رہ گئیں

اس کے بعد 2005ع میں یونیورسٹی آف کولوراڈو، بولڈر میں زلزلوں کے ماہر، ڈاکٹر مائک رٹزوولر اور ان کے ایک شاگرد گریگ بینسن نے جب زلزلوں کا عالمی ڈیٹا کھنگالا تو انہیں معلوم ہوا کہ ہر 26 سیکنڈ بعد، کہیں دُور سے ’زلزلوں کے مدھم سگنل‘ آرہے ہیں

لیکن اس بارے میں وہ بھی کچھ نہیں جان پائے کہ آخر ان خرد زلزلوں کی وجہ کیا ہے؟  البتہ، بہت چھان پھٹک کے بعد، آخرکار انہیں معلوم ہوگیا کہ ان زلزلوں کا مرکز براعظم افریقہ کے مغربی سمندروں میں خلیج گنی کے مقام پر ہے

انہوں نے اولیور اور ہولکومب کی تحقیق کا بھی جائزہ لیا اور پھر 2006ع میں اپنی تحقیق کی تفصیل ’’جیو فزیکل ریسرچ لیٹرز‘‘ نامی ریسرچ جرنل میں شائع کروا دی۔ یہ تحقیق پڑھ کر بالآخر کئی ماہرین اس طرف متوجہ ہوئے، لیکن آج تک کوئی بھی ان خرد زلزلوں (مائیکرو سیزم) کی ایسی وضاحت نہیں پیش کرسکا ہے جو تمام ماہرین کےلیے قابلِ قبول ہو

اس بارے میں ایک وضاحت یہ بھی سامنے آئی کہ سورج کی شعاعیں، قطبین (پولز) کے مقابلے میں خطِ استوا اور اس کے آس پاس والے سمندری علاقوں کو زیادہ گرم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں زیادہ تیز ہواؤں کے علاوہ سمندری طوفان بھی قطبین کے مقابلے میں زیادہ آتے ہیں۔ لہٰذا، طاقتور سمندری لہریں جب بڑے پیمانے پر ساحل سے ٹکراتی ہیں، تو وہ اپنی توانائی کو زمین میں منتقل کر دیتی ہیں، جس سے یہ معمولی سی تھرتھراہٹ پیدا ہوتی ہے جسے ہم ’خرد زلزلوں‘ کے نام سے جانتے ہیں

لیکن اس  سوال کے جواب میں پھر بھی ایک طویل خاموشی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا کہ اگر ایسا  ہی ہے، تو پھر ہر 26 سیکنڈ بعد خرد زلزلے آنے کا آخر کیا جواز ہے؟

یہ خاموشی چھ سال بعد تب ٹوٹی، جب 2011ع میں سینٹ لوئی، امریکا کی واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہر ارضیات ڈوگ وائنز اور ان کے شاگرد گیرٹ آئلر نے خرد زلزلوں (مائیکرو سیزم) پر ایک بار پھر تحقیق شروع کی۔ انہوں نے دریافت کیا کہ ان زلزلوں کا مرکز گلف آف گنی میں ’بونی کی کھاڑی‘ Bight of Bonny والے مقام پر ہے۔

انہوں نے سمندری لہروں کے ساحل سے ٹکرانے والے مفروضے کی تائید کرنے کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ جب سمندر کا پانی بڑے پیمانے پر حرکت کرتے ہوئے ساحل کی طرف بڑھتا ہے تو سمندر کی گہرائی بھی بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس وجہ سے سمندری فرش (سمندر کی تہہ والی زمین) پر پانی کا دباؤ زیادہ ہونے لگتا ہے اور اس میں تھرتھراہٹ پیدا ہوتی ہے جو بہت دور دور تک پھیل جاتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے ہم ’زمین کی دھڑکن‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ تحقیق انہوں نے 2013 میں ’’سیزمولاجیکل سوسائٹی آف امریکا‘‘ کی کانفرنس میں پیش کی۔

لیکن یہ وضاحت  ہر کسی کو قائل نہ کر سکی، اسی سال ووہان، چین میں ’’انسٹی ٹیوٹ آف جیوڈیسی اینڈ جیو فزکس‘‘ میں ماہرین کی ایک ٹیم نے ینگجیائی ژیا کی سربراہی میں کی گئی ایک  تحقیق کے بعد بتایا کہ زمین میں ہر 26 سیکنڈ بعد اٹھنے والے زلزلوں کی وجہ سمندری لہریں نہیں، بلکہ آتش فشاں ہیں

اپنے دعوے کے ثبوت میں ان کا کہنا تھا کہ بائٹ آف بونی کے قریب ہی، ساؤ تومے کے جزیرے پر ایک آتش فشاں موجود ہے، جو یہ خرد زلزلے پیدا کر رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے زلزلے پیدا کرنے والا ایسا ہی ایک اور آتش فشاں ’آسو‘ کے نام سے جاپان میں بھی موجود ہے

یہ بات بہرحال طے ہے کہ زمین میں ہر 26 سیکنڈ بعد بہت ہی معمولی نوعیت کے زلزلے پیدا ہوتے رہتے ہیں، لیکن سائنسدان اب تک پریشان ہیں کہ آخر ایسا ہوتا کیوں ہے؟ شاید مستقبل میں اس حوالے سے مزید تحقیق سے اس سوال کا کوئی ٹھوس جواب مل ہی جائے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close