بھارت کی سب سے بڑی ریاست میں تقریباً ڈیڑھ سال قبل افسر علی چیک اپ کے لیے ضلع میرٹھ کے نوٹیما ہسپتال پہنچے تھے
گزشتہ لگ بھگ ایک سال سے وہ صحت کے حوالے سے مسائل کا شکار تھے۔ ٹیسٹوں اور تفصیلی طبی معائنے کے بعد پتہ چلا کہ اُن کے گردے ناکارہ ہو چکے ہیں اور اس کا واحد حل ٹرانسپلانٹ یعنی پیوندکاری ہے
افسر علی کے بھائی اکبر علی اپنا گردہ عطیہ کرنا چاہتے تھے، لیکن اُن کا گردہ بھائی کے گردے سے میچ نہیں ہوا
مودی نگر کے رہنے والے انکور نہرا اور اُن کے خاندان کو بھی ایسی ہی مایوسی کا سامنا ہوا تھا۔ انکور کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور ان کی والدہ انیتا کے گردے اُن کے لیے مناسب نہیں تھے
لیکن پھر قسمت دونوں خاندانوں کو ایک ایسے موڑ پر لے آئی، جہاں ان کے اس مسئلے کا حل تو تھا لیکن اس کے ساتھ ہی کئی مشکلات بھی سر اٹھائے کھڑی تھیں
ڈاکٹروں نے بتایا کہ افسر کو انکور کی والدہ انیتا گردہ عطیہ کر سکتی ہیں اور اکبر کا گردہ انکور کو لگایا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے گردے آپس میں میچ کر رہے تھے
دونوں خاندانوں کے لوگ بتاتے ہیں کہ جب آس پاس کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کو اپنے اپنے گردے عطیہ کرنے والے ہیں، تو وہ ’حیران‘ رہ گئے
افسر علی بتاتے ہیں ”گاؤں کے لوگ حیران تھے، یہ کہہ رہے تھے کہ تم مسلمان ہو اور وہ ہندو۔۔“
ان کا کہنا ہے ”کئی لوگوں نے ہمیں گردہ عطیہ نہ کرنے کا مشورہ بھی دیا لیکن ہم اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ ہندو مسلمانوں کے کام آئيں اور مسلمان ہندوؤں کے کام آئيں۔۔ یہی تو انسانیت ہے“
دوسری جانب مودی نگر میں نہرا خاندان کو بھی ایسے ہی سوالات کا سامنا تھا۔ انکور نہرا کہتے ہیں ”ہمارے ملک میں یہ چل رہا ہے کہ ہندو اور مسلمان الگ ہیں۔۔ لوگ حیران تھے کہ دونوں خاندان ایسا قدم اٹھانے پر کیسے راضی ہو گئے۔ ہمارے اعضا کا کوئی مذہب نہیں ہے، انہیں ہندوؤں اور مسلمانوں کا کیا پتہ۔۔ ہم نے ایسے بنا دیا ہے“
ان کی والدہ انیتا کا بھی کہنا ہے کہ وہ اس بات سے بالکل بھی پریشان نہیں تھیں کہ دونوں خاندان مختلف مذاہب کی پیروی کرتے ہیں۔ ’مجھے ایک فیصد بھی اس بات کی پرواہ نہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور ہم ہندو۔‘
وہ کہتی ہیں ”ہندو اور مسلم کا کھیل صرف سیاسی ہے۔ وہ ہندو مسلم کی گردان الاپتے ہیں، اس پر سیاست کرتے ہیں۔۔ وہ لوگ، جن کے پاس بہت پیسہ ہے“
اور سرکاری افسران بھی حیران تھے۔ افسر علی کا کہنا ہے ”اہلکاروں نے ان سے پوچھا کہ کیا ہماری ملاقات کسی بروکر کے ذریعے ہوئی؟ میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے درمیان کوئی مڈل مین (بروکر) نہیں ہے اور ہم ہسپتال کے ذریعے ملے تھے“
نوٹیما ہسپتال کے ڈاکٹر سنجیو کمار گرگ، جو نو گھنٹے تک جاری رہنے والی سرجری میں شامل تھے، کہتے ہیں کہ بحیثیت ڈاکٹر اُن کے لیے مریضوں کے مذہب سے کوئی فرق نہیں پڑتا
انہوں نے کہا ”ہمیں معلوم تھا کہ ان کا تعلق مختلف مذاہب سے ہے، لیکن ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ وہ آپریشن کے لیے راضی ہو جائیں گے کیونکہ وہ بہت تکلیف میں تھے اور ہفتے میں دو بار ڈائیلاسز کرواتے تھے“
ڈاکٹر گرگ کا کہنا ہے کہ دونوں خاندانوں کو طبی مسائل تھے، خاص طور پر کھانے کی عادات میں فرق کی وجہ سے ۔ انہیں خدشہ تھا کہ سبزی خور اور گوشت خور کا عادی ہونے سے گردوں پر کوئی اثر پڑے گا۔ ڈاکٹر گرگ کے مطابق انہوں نے اہل خانہ کو بتایا کہ سب سے اہم بات گردوں کا میچ ہونا ہے، جو اس معاملے میں ہو رہا تھا
اب انکور کا کہنا ہے ”ان گردوں نے مجھے نئی زندگی دی ہے۔ آپریشن سے قبل مجھے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ میرے پھیپھڑوں میں پانی بھر گیا تھا، میں کافی دیر تک سو نہیں پاتا تھا“
اسی طرح افسر علی کو بھی آپریشن سے قبل کئی قسم مسائل کا سامنا تھا۔ ان کے بیٹے محمد انس نے بتایا ”پاپا کو بہت کمزوری رہتی تھی اور کبھی کبھی بخار بھی ہوجاتا تھا۔ انہیں کئی بار ہسپتال لے جانا پڑا اور ایک بار وہ کچھ دنوں کے لیے آئی سی یو میں بھی داخل رہے“
اب آپریشن کو تقریباً ایک ماہ گزر چکا ہے۔ افسر اور انکور دونوں کی حالت پہلے سے بہتر ہے۔ انکور نے بیمار رہتے ہوئے قانون کی ڈگری حاصل کی اور وہ مزید تعلیم پر توجہ دینا چاہتے ہیں
اب وہ یاد کرتے ہیں ”میرا بھائی مجھے اپنے کندھے پر اٹھائے اسکول کی سیڑھیاں چڑھایا کرتا تھا۔ اس بیماری کی وجہ سے میرے کئی امتحانات چھوٹ گئے تھے“
انکور کہتے ہیں ”افسر علی کے خاندان کے ساتھ میرا منفرد رشتہ ہے۔ ان سے خون کا رشتہ ہے۔۔ جو دیا ہے، وہ اپنا بھی نہیں دے سکتا“
افسر علی کا کہنا ہے ”میں خدا کے راستے پر چلنا اور لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں“
اکبر تو ابھی بھی کسی کی بھی مدد کرنے کے لیے اپنے جسم کے اعضا عطیہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”اگر کسی کو اس کی ضرورت ہو تو میں اپنی آنکھ بھی دینے کے لیے تیار ہوں“