عدم برداشت: سیاسی بحث پر قتل، ہوا کیا تھا؟

ویب ڈیسک

سیاسی مباحث پاکستان کے سیاسی کلچر کا ایک حصہ ہیں۔ ہوٹلوں، چائے خانوں، تھڑوں، بسوں اور حجام کی دکانوں سے لے کر تمام عوامی مقامات پر اس طرح کی بحثیں ہوتی رہتی ہیں

حتیٰ کہ کسی ایک گھر میں دو مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدوار، کارکن یا سپورٹر ہونا بھی ایک عام بات ہے۔ لیکن بدقسمتی سے گزشتہ ہفتے خیبرپختونخوا میں پیش آنے والے ایک واقعے سے ملک میں سیاسی عدم برداشت کا بڑھتے رجحان کا پتہ چلتا ہے

پاکستان میں آج کے دور کی پولرائزیشن یا سیاسی تقسیم نے ذاتی پسند ناپسند کو بالکل مخالف سمتوں میں دھکیل دیا ہے کہ لوگ عدم برداشت سے تشدد کا راستہ اپنانے سے بھی گریز نہیں کر رہے

گذشتہ ہفتے ایک کوسٹر پشاور سے روانہ ہوئی لیکن موٹروے ٹول پلازہ پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں کے احتجاج کی وجہ سے سڑک بند تھی

جس کی وجہ سے کوسٹر کو ڈیڑھ گھنٹے تک وہاں رکنا پڑا لیکن جب گاڑی پھر روانہ ہوئی تو اس میں سوار ایک شخص نے گالیاں دینا شروع کر دیں، جس سے مسافروں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی

یہ سواریاں پشاور سے لوئر دیر کے علاقے تیمر گرہ جا رہی تھیں، لیکن اس احتجاج کی وجہ سے گاڑی میں عدم برداشت اس قدر بڑھ گیا کہ ایک شخص فائرنگ سے ہلاک اور دوسرا زخمی ہو گیا

پاکستان میں احتجاجی مظاہروں کے دوران سڑکیں بند کرنا عام سی بات سمجھی جاتی ہے لیکن اس سے عام شہری بُری طرح متاثر ہوتے ہیں اور اس کے رد عمل بھی آتے ہیں۔ لیکن اس ضمن میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ آخر سڑکیں بلاک کرنے کی نوبت کیوں آتی ہے۔۔ جواب سادہ سا ہے: مقتدر حلقوں کے نزدیک پُر امن احتجاج کوئی اہمیت ہی نہیں ہوتی

کچھ بھی ہو، لیکن اس واقعے نے خاص طور پر ملک کے سنجیدہ حلقوں کو بہرحال یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ ملک آخر کس طرف جا رہا ہے؟

معاملہ اس حد تک کیسے پہنچا؟

اس واقعے میں زخمی ہونے والے تیمر گرہ ہسپتال میں موجود وقاص بتاتے ہیں ”میں اپنے بھائی کے ساتھ پشاور سے اپنے گاؤں تیمرگرہ جانے کے لیے ایک کوسٹر میں سوار ہوا۔ پشاور ٹول پلازہ پر پی ٹی آئی کے کارکن احتجاج کر رہے تھے جس وجہ سے سڑک بند تھی۔ ہماری گاڑی کوئی ڈیڑھ گھنٹے تک وہاں رُکی رہی اور پھر جب گاڑی روانہ ہوئی تو سواریوں میں سے ایک شخص پی ٹی آئی کو گالیاں دینے لگا“

وقاص کا کہنا ہے ”پہلے ہم سنتے رہے پھر میرے بھائی نے اس سے کہا کہ ’خیال کرو! گاڑی میں خواتین بھی بیٹھی ہیں‘ لیکن اس نے کہا ’میں آپ لوگوں سے کچھ نہیں کہہ رہا، میں تو پی ٹی آئی کے لوگوں کو کہہ رہا ہوں‘ ۔ ہم خاموش رہے اور وہ شخص بولتا رہا اور پھر اس نے کسی کو فون کیا کہ تم لوگ آجاؤ، ہماری گاڑی آ رہی ہے“

وقاص کے مطابق ”ہم نے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی اسٹینڈ پر کھڑی نہ کرے بلکہ اگلے ٹول پلازہ پر لے جائے، جہاں پولیس موجود ہوگی تاکہ وہیں اس سواری کو اُتار دیا جائے لیکن اتنے میں پیچھے سے گاڑی میں کچھ لوگ، جن کی تعداد چھ سے سات تھی، وہاں پہنچ گئے۔ پہلے انہوں نے ہمیں مارا پیٹا اور پھر ان میں سے ایک نے پستول نکال کر فائرنگ کی۔ مجھے ایک گولی لگی اور پھر اس کے بعد میرے بھائی کو گولیاں لگیں، جس سے وہ دم توڑ گیا“

اس واقعے میں ہلاک ہونے والے رحیم الدین کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ سعودی عرب میں کام کرتے تھے اور کچھ روز میں واپس جانے والے تھے

دوسری جانب پولیس کی جانب سے مقدمہ درج کیے جانے کے باوجود اب تک اس کیس میں کوئی گرفتاری نہیں ہو سکی

پاکستان اور احتجاج

عام طور پر احتجاجی مظاہروں میں منتظمین کوشش کرتے ہیں کہ وہ روڈ بلاک کر دیں تاکہ متعلقہ حکام پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔ پاکستان تحریک انصاف کے حالیہ احتجاجی دھرنوں میں بھی اسی روایتی اصول پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے

پشاور میں صوبائی اسمبلی اور پشاور ہائی کورٹ کے قریب احتجاج پر پابندی کے بعد کارکنان اکثر موٹر وے ٹول پلازہ پر احتجاج کرنے لگے ہیں اور ایسے میں تمام ٹریفک بلاک کر دی جاتی ہے

بہت سے لوگ، جیسے طالب علم یا ایمبولینس، ان مظاہروں سے متاثر ہوتے ہیں مگر ان احتجاجی مظاہروں سے سیاسی بحران ختم ہونے کے بجائے مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے اور لوگوں میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے

اس حوالے سے پشاور یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات کی چیئرپرسن پروفیسر ارم ارشاد کہتی ہیں ”موجودہ حالات میں لوگوں کو صرف سیاسی نہیں بلکہ معاشی اور معاشرتی مسائل کا سامنا بھی ہے۔ ہر شخص صبح یہ سوچ کر نکلتا ہے کہ وہ گھر والوں کے لیے کچھ کما کر لا سکتا ہے یا نہیں؟ ایسے حالات میں جب سیاسی مظاہرے (طویل عرصے تک) جاری رہیں تو اس کے اثرات نہ صرف عام شہریوں پر بلکہ پورے معاشرے پر پڑتے ہیں“

پروفیسر ارم ارشاد کا کہنا ہے ”احتجاجی مظاہروں میں شرکت سے روزمرہ کے معاملات کے علاوہ گھر اور خاندانوں پر بھی اثر پڑتا ہے اور پھر چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ اشتعال میں آتے ہیں۔ اس وقت شہری جن حالات سے گزر رہے ہیں، اس میں ایک بے یقینی کی صورتحال ہے۔ نفسیاتی طور پر لوگ اپنے عمل سے دکھاتے ہیں، جس سے ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے“

ان کا کہنا تھا ”اس صورتحال میں میڈیا بھی بڑا کردار ادا کر رہا ہے کیونکہ اس وقت میڈیا پر ایسے واقعات یا تقاریر بار بار متعدد چینلز پر نشر کی جاتی ہیں جس سے لوگوں میں اشتعال بڑھتا ہے۔ سوشل میڈیا نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور اب کوئی بھی بات چاہے وہ مثبت ہو یا منفی، سیکنڈوں میں پہنچ جاتی ہے“

پروفیسر ارم ارشاد نے کہا ”ماضی میں لوگوں کو ذرائع ابلاغ تک اتنی رسائی حاصل نہیں تھی لیکن اب ہر شخص کی جیب میں موبائل فون پڑا ہے، جس پر سوشل میڈیا دستیاب ہوتا ہے“

ان کا کہنا تھا ”اب لوگ اپنی اقدار پر عمل نہیں کرتے بلکہ وحشیانہ رویہ اختیار کر رہے ہیں اور اب میڈیا جو کچھ سکھا رہا ہے، وہ انتہائی خطرناک ہے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close